"MIK" (space) message & send to 7575

یہ تو ہمیں معلوم ہی تھا

امریکا کے صدر جوبائیڈن نے افغانستان میں اشرف غنی کی حکومت کے خاتمے اور دارالحکومت کابل سمیت کم و بیش پورے ملک پر طالبان کا تصرف قائم ہونے کے حوالے سے خصوصی خطاب میں کہا ہے کہ امریکی افواج کا افغانستان میں مشن قومی تعمیر نہیں بلکہ دہشت گردی کی روک تھام تھا۔ افغانستان میں جنگ ختم کرنے پر شرمندگی نہیں کیونکہ مزید نسلیں اس جنگ کی بھٹی میں جھونکی نہیں جاسکتیں۔ امریکی صدر کا کہنا تھا ''افغانستان میں جنگ ختم کرنے کا اس سے اچھا وقت نہیں ہوسکتا۔ ہم نے چاہا کہ اشرف غنی معاملات کی درستی کے لیے طالبان سے بات چیت کریں مگر انہوں نے کہا کہ افغان سکیورٹی فورسز لڑیں گی۔ یہ الگ بات ہے کہ افغان سکیورٹی فورسز نے بہت تیزی سے ہمت ہار دی۔ کوئی فوج لڑنا ہی نہ چاہے تو کوئی اور اس کی کیسے مدد کرسکتا ہے؟ ہم نے افغان سکیورٹی فورسز کو محض تربیت نہیں دی اور صرف ہتھیار فراہم کرنے تک محدود نہیں رہے بلکہ ان کی تنخواہیں تک ادا کیں۔ ہاں‘ لڑنے کا جذبہ ہم ان میں پیدا نہ کرسکے۔ چین اور روس نے افغانستان کے لیے کچھ نہیں کیا۔ روس تو خیر یہی چاہے گا کہ افغانستان میں امریکا ڈالر لٹاتا رہے۔‘‘
امریکی صدر خطاب مکمل کرکے میڈیا کے نمائندوں کے سوالوں کے جواب دیے بغیر چلے گئے۔ یہ بھی غیر متوقع تھا نہ افسوس ناک۔ جو بائیڈن امریکی پالیسی میکرز کی حماقتوں سے متعلق سوالات کاسامنا بھلا کیسے کرسکتے تھے؟ اور کسی بھی سیاست دان یا کسی اور رہنما نے زمینی حقیقتوں سے متعلق سوالوں کا سامنا کیا ہی کب ہے؟ جو بائیڈن نے ایک بات بالکل درست کہی۔ ہوسکتا ہے انجانے میں منہ سے نکل گئی ہو! وہ بات یہ تھی کہ افغانستان میں امریکی فوج کا مشن قومی تعمیر نہ تھا! امریکی صدر نے اس ''انکشاف‘‘ کی زحمت کیوں گوارا کی؟ یہ تو ہمیں معلوم ہی تھا! کون اتنا سادہ لوح ہے کہ امریکا کے مقاصد کو سمجھنے میں اب بھی غلطی کرے؟ امریکا کو کسی نہ کسی بہانے سے افغانستان میں قدم جمانے تھے کیونکہ چین اور روس پر نظر رکھنے کے لیے اس سے اچھا اڈا خطے میں کہیں اور مل ہی نہیں سکتا تھا۔ ذرا سوچیے کہ ایک پورا ملک اڈے کے طور پر استعمال ہوا! اور پھر واحد سپر پاور کے صدر کے اس جملے پر غور فرمائیے کہ افغانستان میں جنگ ختم کرنے پر شرمندگی نہیں۔ ٹھیک ہی تو ہے۔ جب جنگ شروع کرنے پر شرمندگی نہیں تھی تو ختم کرنے پر کیوں ہو؟ اس کے برعکس یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جنگ ختم کرنے کا کریڈٹ بھی لیا جائے! سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ امریکا کب کسی بھی غلط کام پر شرمندہ ہوا ہے کہ اب اُس سے امید رکھی جائے کہ کسی فعل پر شرمندہ ہو؟ کیا دنیا نے ویتنام کو بھلادیا ہے؟ وہاں بھی تو امریکا نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ پوری ویتنامی قوم کو تباہی سے دوچار کیا اور پھر چپ چاپ نکل آیا۔ امریکی قیادت نے ویتنام کے معاملے میں کھل کر شرمندگی کا اظہار کب کیا اور کب اس قوم سے معافی مانگی؟ اور سوال صرف معافی مانگ لینے کا کہاں ہے؟ جو بربادی ویتنامی قوم کے نصیب میں لکھ دی گئی اس کا ازالہ کون کرے گا؟ افغان قوم سے امریکا نے جو سلوک روا رکھا اُس کا ازالہ ہوسکے گا؟ ایک پوری نسل کو تباہی سے دوچار کردیا گیا۔
روس اور چین پر افغانستان کے لیے کچھ نہ کرنے کی پھبتی کسنا بھی کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق ہے۔ ان دونوں کو کیا پڑی تھی کہ افغانستان میں مغربی طاقتوں کے ہوتے ہوئے سرمایہ کاری کرتے یا بہبودِ عامہ کے منصوبوں پر کچھ خرچ کرتے۔ اور پھر اس بات کی ضمانت بھی کسی نے کب دی کہ افغانستان پر کچھ خرچ کرنے کی صورت میں چین اور روس کی نیک نامی بڑھے گی یا اُنہیں افغان سرزمین پر ''سٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ بڑھانے میں مدد ملے گی؟ افغانستان کا بُرا حال امریکا اور اس کے حاشیہ برداروں نے کیا تھا اس لیے اگر اس کیلئے کچھ کرنا تھا تو امریکا اور اس کے حاشیہ برداروں کو کرنا تھا۔ غیر متعلقین کیلئے کچھ کرنے کی گنجائش بھی نہیں تھی اور ان پر کوئی اخلاقی ذمہ داری بھی عائد نہ ہوتی تھی۔
امریکی صدر نے اپنے خصوصی خطاب میں جو کچھ کہا وہ اصلاً خجالت مٹانے کے لیے تھا کیونکہ وہ کئی دن سے محض خاموش نہیں بلکہ گوشۂ گم نامی میں بھی تھے۔ افغانستان کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کے حوالے سے اُن کی طرف سے کئی دن تک کوئی بات سامنے نہیں آئی تھی۔ وہ کیمپ ڈیوڈ میں گوشہ نشین تھے تاکہ میڈیا والے ان تک پہنچ نہ سکیں۔ اگر وہ کابل پر طالبان کا تصرف قائم ہونے پر بھی زبان نہ کھولتے تو بَھد اڑنے کا احتمال تھا۔ کچھ تو بولنا ہی تھا۔ ہاں‘ ایسے نازک موقع پر بھی امریکی صدر نے امریکی پالیسی واضح کرنا ضروری سمجھا یعنی کہ امریکا کہیں بھی کوئی عسکری مہم جوئی کرتا ہے تو صرف اس لیے کہ ایسا کرنا اس کی کسی ضرورت کے تحت ہوتا ہے نہ کہ متعلقہ قوم کی تعمیر کیلئے۔ نکارا گوا سے ویتنام اور پھر افغانستان سے عراق تک امریکا کی یہی داستان ہے۔
افغانستان میں جو کچھ ہوا وہ اور جو کچھ امریکا نے کیا وہ کسی بھی درجے میں حیرت انگیز نہ تھا۔ ہاں‘ بھارت کا متحرک ہونا انتہائی حیرت انگیز تھا۔ دنیا بھر کے تجزیہ کار بھارت کے متحرک ہونے پر حیران ہوئے کہ جب مغربی طاقتیں اپنی مرضی کا کھیل آسانی سے نہیں کھیل پارہیں تو بھارت کون سے پہاڑ کھو د لے گا۔ نئی دہلی کے پالیسی میکرز نے سوچا کہ شاید اب شمالی اتحاد کی گرفت کبھی کمزور نہیں پڑے گی اور طالبان کبھی اقتدار کے ماخذ پر متصرف نہیں ہوسکیں گے اس لیے تھوڑی بہت طالع آزمائی میں کچھ ہرج نہیں۔ بھارت کے ایک ریٹائرڈ کرنل دھن ویر سنگھ نے اپنے ٹوئٹ میں کہا ہے کہ افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں بھارت کی حالت گلی میں کھیلتے ہوئے اس بچے کی سی ہے جو بڑوں کی لڑائی میں خواہ مخواہ پٹ جاتا ہے اور پھر روتے روتے گال سہلاتے ہوئے گھر آ جاتا ہے۔ علاقائی سطح پر اپنی چوھراہٹ کا کچھ زیادہ بھرم قائم کرنے کے جوش میں بھارتی قیادت نے افغانستان میں قدم جمانے کا سوچا اور وہاں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری بھی کر ڈالی۔ یہ بھی نہ سوچا گیا کہ اگر امریکا اور اس کے مغربی اتحادی افغانستان میں اپنی بساط لپیٹ لیں گے تو اس سرمایہ کاری کی حیثیت کیا رہ جائے گی۔ کرنل (ر) دھن ویر سنگھ لکھتے ہیں ''افغانستان میں ایک طرف طالبان اور پاکستان تھے اور دوسری طرف امریکا اور افغان حکومت و افواج۔ طالبان کو بڑی طاقت مانتا ہوں۔ ایسے میں بھارت خواہ مخواہ طمانچے کھاکر روتے ہوئے گال سہلاتا ہوا گھر واپس آگیا ہے یا پھر آیا چاہتا ہے۔‘‘
اس بات کو سمجھنا انتہائی دشوار ہے کہ نئی دہلی کو افغانستان کے معاملات میں کودنے کی کیا ضرورت تھی۔ زیادہ سے زیادہ یہی سوچا جاسکتا ہے کہ جب گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کا رخ کرتا ہے۔ بھارتی قیادت کا معاملہ بھی ویسی ہی بدحواسی کا ہے جو کابل ایئر پورٹ پر دکھائی دی ہے۔ بھارتی پالیسی میکرز اوقات سے بڑھ کر کچھ کر دکھانے کے لیے بے تاب ہوئے جارہے ہیں۔ گنجائش نکل نہیں رہی مگر پھر بھی پَر پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسی بے ذہنی صرف اور صرف خجالت اور ذلت کا باعث بنا کرتی ہے۔ بہت کچھ ہمیں پہلے ہی معلوم تھا اور دوسرا بہت کچھ ایسا ہے جو واضح ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں صرف اور صرف دانش مندی کو اپنانے کا آپشن رہ جاتا ہے۔ امریکا اور اس کے مغربی حلیفوں نے دو عشروں کے دوران ایسا کچھ نہیں کیا جو خطے کے معاملات کی درستی میں معاون ثابت ہو۔ ایسے میں بھارت یا اسی قبیل کے دیگر ممالک افغانستان میں کیا کرسکتے ہیں؟ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو جو کچھ کرنا وہ انہوں نے کیا۔ دانش کا تقاضا ہے کہ خطے کے ممالک مل کر ایسی حکمتِ عملی اپنائیں کہ افغانستان یا کہیں اور نئی طالع آزمائی کی گنجائش پیدا نہ ہو۔ طالبان اگر معاملات کو درست کرنے کی راہ پر گامزن ہوں تو انہیں قبول کرتے ہوئے اُن کی مدد کی جائے۔ زمینی حقیقتیں خواہ کچھ ہوں‘ گمان اچھا ہی رکھنا چاہیے۔ کاش کہ خطے کے حالات اتنے اچھے ہو جائیں کہ ایک ڈیڑھ عشرے کے بعد ہم کہیں کہ یہ تو ہمیں معلوم ہی نہ تھا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں