"MIK" (space) message & send to 7575

طالبان‘ سیزن ٹو

افغانستان میں طالبان کا سیزن ٹو شروع ہوچکا ہے۔ طالبان کا نیا ''ورژن‘‘ حیرت انگیز ہے۔ افغانستان کے طول و عرض پر طالبان کا تصرف اِتنی تیزی سے قائم ہو جائے گا‘ یہ کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ اور یہ بھی کہ اب ایک نئے اور انوکھے انداز کے طالبان سے سامنا ہوگا۔ طالبان نے تیز رفتار فتوحات سے بھی حیران کیا اور پھر حیران کرنے کے معاملے میں رہی سہی کسر اپنے رویے سے پوری کردی۔ اس وقت مغربی میڈیا کی بوکھلاہٹ قابلِ دید ہے۔ طالبان کو اس بات کا کریڈٹ دیا جانا چاہیے کہ انہوں نے کمال خوبصورتی سے مغربی میڈیا کو ایسا بدحواس کیا کہ اُس سے کچھ بیان ہی نہیں ہو پارہا۔ 15 اگست کو سقوطِ کابل کے بعد جب 16 اگست کو غیر ملکیوں کے انخلا نے شدت اختیار کی تب وہ افغان باشندے عبرت ناک بدحواسی کا شکار ہوئے جو دو عشروں سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے حاشیہ بردار ہی نہیں، سہولت کار بھی بنے ہوئے تھے۔ اِنہیں یقین تھا کہ طالبان کی طرف سے عام معافی کا اعلان ہو بھی جائے تو اُنہیں انتقامی عمل کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ جن کے پیاروں کو اِنہوں نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں مروایا‘ وہ بدلہ لیے بغیر سکون کا سانس نہیں لیں گے۔ جنہوں نے دو عشروں تک مظالم سہے‘ وہ امریکا اور اتحادیوں کے علاوہ افغان حکومت کے دباؤ کے تحت خاموش تھے اور اُس دن کا انتظار کر رہے تھے جب کچھ کرنے کی گنجائش پیدا ہو۔ وہ دن اب آچکا ہے۔ اپنے ہی ہم وطنوں کو بڑے پیمانے پر موت کے گھاٹ اتارنے میں مغربی قابض افواج کا ساتھ دے کر مال بٹورنے والے کسی نہ کسی طور ملک سے بھاگ جانا چاہتے ہیں کیونکہ اُن کے پاس جان بچانے کی کوئی اور راہ نہیں۔ ایسے میں کابل ایئر پورٹ پر انتہائے بدحواسی پر مبنی مناظر کا دکھائی دینا کسی بھی درجے میں غیر متوقع تھا نہ حیرت انگیز۔ مغربی میڈیا کی مجبوری اور بے بسی کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اُنہوں نے ایک پورا دن صرف کابل ایئر پورٹ پر بدنظمی اور بدحواسی کے مناظر دکھاکر گزارا! بے چارے کیا کرتے کہ دکھانے کو کچھ اور تھا ہی نہیں۔ کابل کی سڑکوں پر گاڑیوں کی آمد و رفت معمول سے زیادہ تھی۔ جب حکومت تحلیل ہوگئی ہو اور دارالحکومت پر کسی گروہ کا تصرف قائم ہوگیا ہو تو لوگ سہم کر گھروں میں دُبک جاتے ہیں۔ کابل میں اِس کے برعکس لوگ گھروں سے نکل آئے اور تقریباً جشن کا سماں پیدا کردیا۔ ایک برطانوی اخبار کی بدحواسی کا عالم ملاحظہ فرمائیے کہ ع
آئے ہیں اِس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں
کے مصداق کابل پر طالبان کا تصرف قائم ہو جانے کے بعد یعنی اگلے دن سکول جانے والی طالبات کی ایک تصویر شائع کی جس میں وہ سکارف پہنے سکول کی جانب رواں تھیں۔ کیپشن میں لکھا گیا کہ طالبان کے آنے پر طالبات نے سکارف اوڑھ رکھا ہے۔ سکارف تو مسلم لڑکیوں کی روایت ہے۔ کابل ہو یا کراچی، اس روایت پر عمل ہوتا دیکھا جاسکتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ طالبان کی آمد کے موقع پر بھی حالات کے پُرسکون ہونے کی علامت کے طور پر سکولوں کے کھلے رکھے جانے کو سراہا جاتا۔ اِسی طور کابل ایئر پورٹ پر دھینگا مشتی میں ایک بچی اور دو خواتین کے زخمی ہو جانے کا بھی خوب ڈھنڈورا پیٹا گیا۔ ایک امریکی چینل کی اینکر نے سڑک پر رپورٹنگ کرتے ہوئے یہ بات بھی چونکانے والے انداز سے بتائی کہ طالبان نے اُس کی موجودگی میں ہوائی فائرنگ کی!
اسی چینل پر ایک ایسی تصویر پیش کی گئی جس میں چند طالبان کو منہ پر ڈھاٹا باندھے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ کیپشن یہ تھا کہ طالبان نے کابل پر ''حملے‘‘ کے دوران احساسِ ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ''ماسک‘‘ لگا رکھا ہے! جب دماغ کام کرنے سے انکار کردیں تب ایسے ہی تماشے ہوا کرتے ہیں۔ طالبان نے کابل پر حملہ کب کیا؟ حملے تک تو نوبت پہنچی ہی نہیں۔ بہت کوشش کرنے پر بھی کوئی ایسی ویسی بات نہیں مل پارہی جسے بنیاد بناکر طالبان کو مطعون کیا جاسکے۔ بتانے کے لیے لے دے کر ایک یہی ''بریکنگ نیوز‘‘ رہ گئی کہ جلال آباد میں طالبان نے مظاہرین پر فائرنگ کردی۔ یہ واقعہ بھی کچھ یوں تھا کہ طالبان اپنا جھنڈا لگارہے تھے کہ کچھ لوگوں نے مزاحمت کی۔ حالات کی نزاکت کے پیش نظر اس نوعیت کی مزاحمت بھی حماقت کے سوا کچھ نہیں۔
طالبان خالصتاً نئی سوچ کے ساتھ وارد ہوئے ہیں۔ انہوں نے طے کرلیا ہے کہ فضولیات میں الجھنے کے بجائے کام کی باتوں پر دھیان دیا جائے گا۔ ایسی ہی تبدیلی کی ضرورت تھی۔ طالبان نے اپنی پہلی پریس بریفنگ میں کلیدی عزائم کا کھل کر اظہار کیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ ملک میں امن اور استحکام یقینی بنانے پر سب سے زیادہ توجہ دی جائے گی۔ عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے یہ صراحت بھی کی گئی ہے کہ قتل و غارت میں ملوث افراد سے بھی انتقام نہیں لیا جائے گا۔ قومی سطح پر مفاہمت و مصالحت کے لیے اِس سے اچھی بات بھلا کیا ہوسکتی ہے؟ طالبان رہنما انس حقانی نے وسیع البنیاد سیاسی مفاہمت کیلئے سابق صدر حامد کرزئی، چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ اور سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار سے گفت و شنید کی ہے۔ عبداللہ عبداللہ قومی مصالحتی کمیشن کے سربراہ بھی ہیں۔
پورے ملک میں کہیں بھی طالبان نے کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جس سے لوگ خوفزدہ ہوں۔ پریس بریفنگ میں طالبان رہنما ذبیح اللہ مجاہد نے بجا طور پر فخریہ انداز سے بتایا کہ جب سے دارالحکومت کابل سمیت پورے ملک پر طالبان کا تصرف قائم ہوا ہے، کہیں کوئی قتل ہوا ہے نہ کسی کو اغوا کیا گیا ہے۔ ایک زمانہ منتظر تھا کہ طالبان ملک پر متصرف ہوں، قتل و غارت کا بازار گرم ہو اور بغلیں بجانے کا موقع ملے۔ طالبان نے اپنی فتح کا ''جشن‘‘ دوسروں کو منانے کا موقع نہیں دیا۔ انہوں نے غیر معمولی تحمل کا مظاہرہ کیا ہے جس کی ان سے کچھ خاص توقع نہ تھی۔
نیا پاکستان دیکھنا تو شاید ابھی قسمت میں نہیں‘ ہوسکتا ہے کہ نیا افغانستان دیکھنے کو مل جائے۔ طالبان نے جو اعلانات کیے ہیں وہ خاصے حوصلہ افزا ہیں۔ انہوں نے خواتین کو اسلامی اصولوں کے مطابق حجاب میں کام کرنے کی اجازت دی ہے۔ سیاسی اور فرقہ وارانہ مفاہمت کا ڈول ڈالا جارہا ہے۔ کابل کی ایک امام بارگاہ میں محرم الحرام کی مجلس میں شریک ہوکر طالبان نے یقین دلایا کہ کسی بھی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں ہونے دی جائے گی۔
مغربی میڈیا کو سب سے زیادہ الجھن اس بات سے ہوئی ہے کہ طالبان کا نیا ورژن سامنے آیا ہے۔ اس نئے ورژن نے لعن طعن کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ مغرب کے تجزیہ کار طالبان کی پیش رفت کے نتیجے میں ممکنہ قتل و غارت کا راگ الاپ رہے تھے۔ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں جو نمک مرچ لگاکر پیش کیا جاسکے۔ صورتِ حال کی مناسبت سے سی این این کی اینکر نے حجاب لے کر سڑک پر رپورٹنگ کی تو یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ طالبان کے آنے کے بعد خاتون اینکر نے شدید خوفزدہ ہوکر حجاب لیا ہے۔ بعد میں اُس اینکر نے یہ کہہ کر طالبان مخالف بیانیے کی بساط الٹ دی کہ اُس نے حجاب اپنی مرضی سے لیا تھا، طالبان کی طرف سے کسی بھی قسم کا دباؤ نہیں ڈالا گیا تھا۔ مغرب کے میڈیا آؤٹ لیٹس کو اس بات کی توفیق نصیب نہ ہوئی کہ کابل کی سڑکوں پر اور گلی کوچوں میں نمائندے بھیج کر عوام کے جذبات پوری دنیا تک پہنچاتے۔ دارالحکومت میں کہیں بھی انتشار دکھائی دیا نہ افراتفری۔ یہ تو مثالی لمحات تھے۔ اگر یہی صورتِ حال کسی غیر مسلم ملک میں ہوتی تو پورا ماحول خوشی خوشی دکھایا جاتا اور داد و تحسین کی بارش کی جاتی۔ طالبان فقید المثال نوعیت کی فتح سے ہم کنار ہونے کے باوجود مثالی نوعیت کے تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو ہر اس طاقت کو شدید پریشانی لاحق ہے جو کابل کی بدلی ہوئی صورتِ حال کو اسلام اور مسلمانوں کے بدنام کرنے کا بہانہ بنانے کی تیاری کیے بیٹھی تھی۔ طالبان نے مسلم دنیا کے بدخواہوں پر ''وختا‘‘ ڈال دیا ہے۔ کسی کو گمان تک نہ تھا کہ طالبان اب کے اِس قدر قابلِ قبول انداز سے آئیں گے۔ بھارتی میڈیا کی اُمیدوں پر بھی گھڑوں پانی پڑگیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں