سیاسی مبصرین اور تجزیہ کار ٹوہ میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی طور درست اندازہ لگائیں کہ افغانستان کی بدلی ہوئی صورتحال سے کسے کیا ملے گا۔ جو کچھ بھی افغانستان میں ہو رہا ہے‘ وہ کسی بھی صورت بلا جواز تو نہیں ہوسکتا۔ بڑی طاقتوں کے لیے افغانستان ہمیشہ گریٹ گیم کا حصہ رہا ہے۔ کسی زمانے میں یہ علاقہ روس اور برطانیہ کے درمیان رسہ کشی کا میدان تھا۔ بیسویں صدی کے اواخر میں امریکا اور سابق سوویت یونین کے درمیان افغانستان کے معاملے پر سرحد جنگ گرم ہوتے ہوتے رہ گئی۔ خیر امریکا نے مجاہدین کی مدد کر کے سابق سوویت یونین کی تحلیل کی راہ ہموار کی۔ اور اب افغانستان میں امریکا اور چین کی لڑائی جاری ہے۔ چین سے بھارت کی نہیں بنتی‘ اس لیے وہ امریکا اور یورپ کا ساتھ دینے پر بضد ہے۔ زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت آگ میں ہاتھ ڈال رہا ہے۔ افغانستان کے حوالے سے ناقص پالیسی اور بھونڈی حکمتِ عملی نے نئی دہلی کے پالیسی میکرز کی اہلیت کو بے نقاب کرکے اُنہیں شدید الجھنوں سے دوچار کیا ہے۔
افغانستان میں ایک بار پھر لنگر کی دیگ کھلی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کسے کیا ملے گا۔ امریکا رخصت ہو رہا ہے مگر یہ سوچنا سادہ لوحی کی انتہا کہلائے گا کہ وہ اس خطے سے مکمل کنارہ کشی اختیار کرلے گا۔ امریکا نے یہاں مجاہدین کے ذریعے سوویت یونین کو شکست دی تھی اور یہ شکست اُس کی شکست و ریخت کا باعث بھی بن گئی تھی۔ روس نے زخم کھایا‘ وہ کس طور امریکا اور یورپ کے کردار کو بھول سکتا ہے؟ امریکا کسی کے لیے میدان مکمل طور پر کھلا نہیں چھوڑ سکتا۔
چین کے لیے بھی افغانستان بہت اہم بلکہ ناگزیر حیثیت رکھتا ہے۔ افغانستان کا امن چینی اموال کو وسطی ایشیا اور یورپ تک پہنچنے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ چین چاہتا ہے کہ افغانستان اور اُس سے جُڑے ہوئے ممالک میں امن و استحکام رہے تاکہ تجارت کی راہ مسدود نہ ہو۔ پاکستان اور افغانستان کے ساتھ مل کر چین نے تاجکستان سے بھی بات کی ہے۔ تاجکستان کا امن بھی چین کے لیے ناگزیر ہے کیونکہ وہاں کے خراب حالات چینی برآمدات پر منفی اثرات کے حامل ہوں گے۔ تاجکستان کی برآمدی تجارت اور بیرونی سرمایہ کاری میں چین کا کلیدی کردار ہے۔ ایسے میں چین بھی تاجکستان سے غیر معمولی فوائد بٹورنا چاہے گا۔
کابل کے بدلے ہوئے حالات کے تناظر میں چین بہت کچھ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ امریکا و یورپ اور چین میں بنیادی فرق یہ ہے کہ چین عسکری قوت پر انحصار سے گریز کی پالیسی پر گامزن ہے۔ بیجنگ کے پالیسی میکرز چاہتے ہیں کہ صنعتی و تجارتی سرگرمیوں اور سرمایہ کاری کے ذریعے خطے میں لوگوں کے دل جیتے جائیں۔ پاکستان میں بھی اس کی اچھی خاصی سرمایہ کاری ہے اور بنگلہ دیش کو بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی پیشکش کی جاچکی ہے۔ افغانستان میں چین کی سرمایہ کاری اب تک زیادہ نہیں اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مفرور صدر اشرف غنی اور اُن کے رفقائے کار نے چین کو شک کی نظر سے دیکھا اور اُس کی طرف سے بڑی سرمایہ کاری وصول کرنے میں دلچسپی نہیں لی۔ افغانستان میں تانبے کی ایک بڑی کان کا ٹھیکہ چین کو مل چکا ہے مگر اس پر کام اب تک شروع نہیں ہو پایا۔
افغانستان کے طول و عرض میں امن و استحکام چین کے مفاد میں ہے کیونکہ اُسے بیلٹ اینڈ روڈ اینی شیٹو کے لیے یہ سب کچھ درکار ہے اور دوسری طرف پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) سے وابستہ منصوبوں کی تکمیل بھی ناگزیر ہے۔ یہ بھی اُسی وقت ہوسکتا ہے جب افغانستان کے بدلے ہوئے حالات میں طالبان قیادت سے چین کے تعلقات بہت اچھے ہوں۔ دس‘ بارہ دن قبل طالبان کے کلیدی رہنما ملا عبدالغنی برادر نے چین جاکر وزیر خارجہ سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کو خطے کے حالات کے تناظر میں بہت اہم قرار دیا گیا ہے۔ مغربی تجزیہ کاروں کی اکثریت نے چین کے خلاف راگنی الاپنے کا عمل شروع کردیا ہے۔ چین کے عزائم کی دہائی دی جارہی ہے۔ مغربی تجزیہ کاروں کو یہ فکر لاحق ہے کہ امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں کی افواج کے نہ ہونے سے چین کو کھل کر کھیلنے کا موقع ملے گا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنے شدید نوعیت کے معاشی عزائم پر عمل بھی کر گزرے گا۔ افریقہ میں چین نے قدم جمالیے ہیں۔ اب افغانستان کے ذریعے وسطی ایشیا کی باری ہے۔ وسطی ایشیا کو بھی چین جیسی کسی قوت کی طرف سے بھرپور مدد درکار ہے۔ روس اس پوزیشن میں نہیں کہ وسطی ایشیا کی ریاستوں کو مضبوط بننے میں زیادہ مدد دے سکے۔ ایسے میں چین ہی مرکزِ امید ٹھہرتا ہے۔ اب روسی قیادت بھی اس بات کے لیے بظاہر تیار ہے کہ چین اِس خطے کو مضبوط بنانے کے لیے آگے بڑھے۔
چین اور افغانستان کو ملانے والا واحد علاقہ واخان راہداری ہے۔ 127 میل لمبی اور 9 میل چوڑی اِس راہداری کی مجموعی آبادی چودہ‘ پندرہ ہزار ہے۔ بیشتر علاقہ بے آب و گیاہ ہے۔ راہداری کے آخر میں مشرق کی سمت درّۂ وخجر واقع ہے۔ یہ درّہ کوہِ ہندو کش کے دامن میں پڑتا ہے۔ چین واخان راہداری کے ذریعے تجارت چاہتا ہے تاکہ اس کا مال بحیرۂ عرب تک آسانی سے پہنچے اور وہاں سے اُسے بحرِ ہند کے خطے میں پہنچانا بھی ممکن ہوسکے۔ یہ سب کچھ امریکا اور یورپ کے مفادات کے منافی ہے۔ ایسے میں وہ کچھ نہ کچھ تو ایسا ضرور کریں گے جس سے چین کے لیے اپنے معاشی عزائم پر عمل کرنا آسان نہ رہے۔
سوال یہ ہے کہ ایسے میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ ہماری حیثیت مجموعی طور پر ہاتھ پر ہاتھ دھرے یہ سب دیکھنے والے سے زیادہ کی نہیں ہے۔ ہاں! آگے بڑھ کر چین اور روس کے ہاتھ مضبوط کرتے ہوئے خطے کی تقدیر بدلنے میں کوئی مثبت اور بڑا کردار ادا کرنے کی کوشش کی صورت میں ہمیں بھی کچھ نہ کچھ ضرور ملے گا۔ چین بھی یہی چاہتا ہے کہ پاکستان دو کشتیوں کا سفر ترک کرکے اپنی ایک حتمی سمت متعین کرلے۔ یہاں ایک طرف تو بیجنگ سے دوستی اور اشتراکِ عمل کی بات کی جاتی ہے تو دوسری طرف واشنگٹن، لندن، پیرس اور برلن وغیرہ سے بھی تعلقات کا بگاڑ نہیں چاہیے۔ تعلقات کیا؟ یہ تو سیدھا سادہ حاشیہ برداری کا معاملہ ہے۔ ہماری اشرافیہ نے عالمی برادری سے معقول تعلقات یقینی بنائے ہوتے تو آج کچھ نہ کچھ حاصل بھی ہوا ہوتا۔ جب معاملہ برابری کی سطح کا ہی نہیں تو کس طور بہتری کی امید رکھی جائے؟
افغانستان کا حقیقی استحکام کئی ریاستوں کے مفاد میں ہے۔ چین اور روس تو خیر افغان سرزمین پر امن چاہتے ہی ہیں، وسطی ایشیا کی بیشتر ریاستوں کا مفاد بھی اِسی بات میں مضمر ہے کہ افغانستان کے طول و عرض میں حقیقی امن و استحکام یقینی بنایا جائے۔ امریکا اور یورپ نے بظاہر بیک سیٹ پکڑی ہے مگر کوئی اس گمان میں نہ رہے کہ انکل سام معاملات کو بہ آسانی اپنے ہاتھوں سے جانے دیں گے۔ بہت سے معاملات امریکا اور یورپ کے ہاتھوں سے نکل چکے ہیں۔ چین نے اپنی غیر معمولی آبادی سے غیر معمولی فوائد حاصل کیے ہیں اور یوں اپنی عالمی پوزیشن مستحکم تر کرلی ہے۔ روس بھی تیزی سے نمایاں ہونا چاہتا ہے۔ ایسے میں امریکا اور اس کے یورپی حاشیہ برداروں کے لیے کچھ زیادہ کرنے کی گنجائش نہیں رہی۔ ہاں! منفی انداز سے کچھ نہ کچھ کرتے رہنے کی عادت آسانی سے ختم نہیں ہوسکتی‘ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
خطے کی بدلی ہوئی صورتِ حال کے تناظر میں پاکستان کو تحمل اور دانش کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ افغانستان کے ذریعے علاقائی سطح پر اپنی پوزیشن بہتر بنانے کا اِس سے اچھا موقع بھلا کب ملے گا؟ چین کے ساتھ مل کر افغانستان سے ہوتے ہوئے وسطی ایشیا تک تجارت و سیاحت راہ ہموار کرنے پر ہمارے پالیسی میکرز کو خاص توجہ دینی چاہیے۔ طالبان نے اب تک جن عزائم کا اظہار کیا ہے وہ قابلِ قبول ہیں۔ ایسے میں کسی بھی نوع کی مہم جُوئی سے گریز کرتے ہوئے چین، روس، ترکی اور ایران سے معقول طریقے سے معاملت کی جائے تاکہ ہم آہنگی بڑھے اور پورے خطے کو حقیقی معاشی امکانات کا گڑھ بنانے میں مدد مل سکے۔ وقت کم ہے اس لیے جو کچھ بھی کرنا ہے وہ عقل و دانش کے ساتھ نمایاں تیزی سے بھی کرنا ہے۔