"MIK" (space) message & send to 7575

… اپنی نبیڑ تُو

جو فطرت فرد کی ہوتی ہے وہی پوری قوم یا معاشرے کی بھی ہوتی ہے۔ فرق چونکہ حجم کا ہے اِس لیے ہم بالعموم اس یکسانیت کو سمجھنے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ کسی کی جیب میں سو روپے ہوں اور وہ بیس روپے اللہ کی راہ میں دے تو اُس کا موازنہ اُس شخص سے کیا جاسکتا ہے جس کے پاس ایک لاکھ روپے ہوں اور وہ بیس ہزار روپے اللہ کی راہ میں دے دے۔ دونوں نے اپنے پاس موجود رقم کا 20 فیصد اللہ کی راہ میں دیا۔ بیس ہزار روپے اللہ کی راہ میں دینے والا ہمیں زیادہ سخی معلوم ہوتا ہے۔ ایسا صرف حجم کے باعث دکھائی دیتا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ فرد اور معاشرے کی سوچ کا بھی ہے۔ فرد جو کچھ کرتا ہے‘ عمومی طور پر معاشرہ بھی وہی کچھ کر رہا ہوتا ہے مگر ہم اِس حوالے سے سوچتے نہیں‘ زیادہ غور نہیں کرتے۔ بات صرف اتنی ہے کہ معاشرے کا حجم بڑا ہے اور ہم معاملے کو اچھی طرح سمجھتے ہوئے بھی کچھ اور سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی بھی فرد میں جو اوصاف پائے جاتے ہیں‘ وہی اوصاف معاشرے کا بھی حصہ ہوتے ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ معاشرہ کوئی الگ چیز نہیں ہے بلکہ یہ افراد ہی سے تو مل کر بنتا ہے۔
انسان کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے معاملات درست کرنے سے فارغ نہیں ہو پاتا کہ دوسروں کے معاملات درست کرنے کی راہ پر چل پڑتا ہے۔ کیوں؟ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ یہ کوئی راکٹ سائنس تو ہے نہیں کہ ہم سمجھنا چاہیں اور آسانی سے سمجھ نہ پائیں۔ جب اپنے مسائل ڈھنگ سے حل نہیں ہو پاتے تب انسان دوسروں کے معاملات درست کرنے کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔ اِسی لیے تو شیخ ابراہیم ذوقؔ نے کہا ہے ؎
رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو
جب کوئی معاشرہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ بہت ترقی کرچکا اور تمدن و شائستگی کے حوالے سے بہت کچھ پا چکا ہے‘ تب دوسروں کو سیدھا کرنے کی راہ پر چل پڑتا ہے۔ فرد کی بھی تو یہی سوچ ہوتی ہے۔ وہ جب یہ محسوس کرتا ہے کہ بہت کچھ کرچکا ہے، پاچکا ہے تب اِس خبط میں مبتلا ہوتا ہے کہ دوسروں کو بھی کچھ دے۔ دوسروں کا دینے کا یہ عمل فیاضی کے ذیل میں نہیں بلکہ اصلاح کے نام پر ہوتا ہے۔ انفرادی سطح پر دوسروں کو مستفید کرنے کا عمل دراصل اپنی دھاک بٹھانے کا عمل ہوتا ہے یعنی‘ میں کچھ ہوں، مجھ سے کچھ سیکھو، اپنی اصلاح یقینی بناؤ۔ دوسروں کو سدھارنے کی راہ پر گامزن ہونے والوں کو صرف منہ کے فائر کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ اُن کے منہ سے بہت کچھ نکلتا ہے مگر جیب سے کچھ بھی نہیں نکلتا۔ کیوں؟ اس لیے کہ اصلاح کے نام پر دوسروں کے معاملات کو محض مزید خرابی کی طرف لے جانا مقصود ہوتا ہے۔ حقیقی اصلاح تو یہ ہے کہ انسان کسی کو نصیحت کرے، کامیابی کی راہ سُجھائے اور اپنی جیب بھی تھوڑی ڈھیلی کرے تاکہ سدھرنے والوں کو راہِ راست پر آنے کی حقیقی تحریک ملے۔ ایسا بالعموم ہوتا نہیں۔ زبانی فائر کرنے والے عملی سطح پر کچھ نہیں کرتے۔
ریاستوں کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ جب کوئی ریاست مادّی ترقی کے حوالے سے منزلیں مارتی جاتی ہے تو دماغ میں دوسروں کی اصلاح کے حوالے سے تھوڑی سی ہوا بھر جاتی ہے۔ ایسے میں دوسروں کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا جاتا ہے۔ ایسا صرف اُس وقت ہوتا ہے جب مادّی ترقی سے ہم کنار ہونے والے معاشرے میں یہ سوچ پروان چڑھتی ہے کہ وہ انتہائی مہذب اور شائستہ ہے اور اب باقی دنیا کو بھی کچھ تہذیب و شائستگی سکھائی جانی چاہیے! تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں جتنی بھی خرابیاں پائی جاتی ہیں وہ سب مضبوط معاشروں میں پیدا ہونے والی ''اصلاح پسندی‘‘ کی دَین ہیں۔ جب بھی کسی ریاست نے بہت مضبوط ہو جانے کے بعد کمزوروں کو تمدن اور علم و فن کے معاملے میں کمزور جان کر اُنہیں سُدھارنے کی کوشش کی‘ تب ایسی خرابیاں پیدا ہوئیں جن کا قلع قمع کرنے میں صدیاں کھپ گئیں۔
چشمِ فلک نے ایسے کئی معاشرے دیکھے ہیں جن میں دوسروں کے معاملات درست کرنے کا خبط خطرناک حد تک پایا گیا اور جب انہوں نے اِس خبط سے مغلوب ہوکر باقی دنیا کو (اپنی دانست میں) راہِ راست پر لانے کی کوشش کی تب بہت سے علاقے تاراج ہوئے اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت کا بازار بھی گرم ہوا۔ کئی معاشروں نے اپنی حدود سے نکل کر دوسروں کو بھی لپیٹ میں لیا اور سُدھارنے کے نام پر انہیں مزید خرابیوں سے دوچار کیا۔ جب بھی کوئی معاشرہ اپنی حدود سے نکل کر دوسروں کو بھی اپنے دائرۂ اثر میں لینے کی راہ پر گامزن ہوتا ہے تب وہ سلطنت کا درجہ حاصل کرتا ہے۔ معاملہ دوسروں پر قابض و متصرف ہونے تک محدود رہے تو کوئی بات نہیں۔ خرابیوں کی راہ اُس وقت ہموار ہوتی ہے جب کوئی بھی طاقتور معاشرہ دوسروں کو محض مادّی طور پر نہیں بلکہ فکری، نفسی، اخلاقی اور روحانی طور پر بھی کمزور گردانتے ہوئے اُس کی اصلاح پر بضد ہوکر من مانی کرنے لگتا ہے۔ ہر معاشرے کے اپنے اصول ہوتے ہیں، اپنی روایات ہوتی ہیں اور معاملات کو اُنہی کے تناظر میں دیکھنا اور سمجھنا ہوتا ہے۔ ہر معاشرے کے لوگ اپنے حساب سے جی رہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنی خرابیوں کو خود ہی دور کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔
کوئی بھی طاقتور معاشرہ دوسروں کو تمدّن اور تہذیب سکھانے کی راہ پر اُسی وقت گامزن ہوتا ہے جب اُس کے اپنے ڈھانچے میں خرابیاں جڑ پکڑنے لگتی ہیں۔ اس بات کو سمجھنا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ طاقتور معاشروں میں جب خرابیاں پیدا ہوتی ہیں تب وہ اپنے معاملات پر نظر ڈال کر شرمندہ ہونے سے بچنے کے لیے دوسروں کو پس ماندہ اور غیر مہذب قرار دے کر اُن کی اصلاح پر تُل جاتے ہیں۔ دوسروں کی ذہنی، علمی، اخلاقی، تہذیبی، روحانی اور مادّی پس ماندگی دور کرنے کے نام پر وہ اصل میں اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت سے بچنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔ اب ذرا غور کیجیے کہ گزشتہ چار‘ پانچ سو سال کے عرصے میں امریکا اور یورپ نے مادّی سطح پر جو کچھ پایا ہے اُس کی قیمت کیا ادا کی ہے۔ امریکا کا معاملہ یہ ہے کہ اُس نے بہت کچھ ایجاد و دریافت تو کیا مگر اخلاقی سطح پر گراوٹ کی بھی انتہا کردی۔ آج باقی دنیا کو تہذیب و شائستگی سکھانے کے خبط میں مبتلا امریکا میں صدیوں غلامی کا چلن رہا۔ انیسویں صدی کے وسط تک امریکا بھر میں غلامی عام تھی۔ غلاموں کی منڈیاں لگتی تھیں۔ سیاہ فام باشندوں سے امتیازی سلوک کی ''درخشاں روایت‘‘ امریکی معاشرے میں کہاں تک سرایت کرچکی تھی اس کا اندازہ اِس بات سے بھی لگائیے کہ محض پچاس‘ ساٹھ سال پہلے تک بھی امریکا میں ایسے ریستوران موجود تھے جن میں سیاہ فام افراد کا داخلہ ممنوع تھا! اس شرم ناک امتیازی سلوک کا سامنا 1960ء کے اولمپکس میں سونے کا تمغہ جیتنے والے عظیم باکسر محمد علی کو بھی کرنا پڑا تھا اور اُنہوں نے شدید غصے کی حالت میں اپنا تمغہ دریا میں پھینک دیا تھا۔ یورپ نے بھی بہت کچھ بلکہ سب کچھ کھوکر مادّی ترقی ممکن بنائی۔ امریکا اور یورپ کے پاس بہت کچھ ہے مگر صرف مادّی سطح پر۔ دونوں خطے روحانی سطح پر کھوکھلے پن کا شکار ہیں۔ اصلاحِ نفس کے بجائے وہ دوسروں کو سُدھارنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ جو خود بگڑا ہوا ہو‘ وہ جب دوسروں کی اصلاح پر بضد ہو تو معاملات انتہائی نوعیت کی خرابی سے دوچار ہوتے ہیں۔ دیکھ لیجیے کہ امریکا اور یورپ نے جہاں جہاں قدم جمائے اور تہذیب و تمدن کی سطح پر خود کو برتر ثابت کرنے کی کوشش کی وہاں شدید نوعیت کی خرابیاں ہی پیدا ہوئیں اور معاملات بالآخر مکمل تباہی پر منتج ہوئے۔
بیسویں صدی خصوصی طور پر گواہ ہے کہ ہر بڑی طاقت کے لیے کرنے کا حقیقی کام یہی ہے کہ باقی دنیا کو مہذب بنانے پر کمر بستہ ہونے کے بجائے اپنی اصلاح پر مائل ہو تاکہ اُس کی مادّی ترقی سے باقی دنیا کماحقہٗ مستفید ہو اور زندگی کو زیادہ آسان بنایا جاسکے۔ ہر معاشرہ چند اصولوں اور چند روایات کا امین ہوتا ہے جو اُسے بہت عزیز ہوتی ہیں۔ اس حقیقت کا حقیقی احترام ممکن بنایا جانا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں