یہ بات بھی کوئی سمجھنے یا سمجھانے کی ہے کہ ہر چیز اپنے مقام پر اچھی لگتی ہے؟ کھانا کب اچھا لگتا ہے؟ سیدھی سی بات ہے، جب بھوک لگے تبھی کھانا اچھا لگتا ہے۔ کسی بھی چیز کا حقیقی لطف اُسی وقت محسوس ہوتا ہے جب اُس کی ضرورت ہو یعنی طلب محسوس ہو۔ پیاس لگنے پر انسان پانی پیتا ہے۔ ایک گلاس پانی سے پیاس نہ بجھے تو ایک گلاس پانی اور پیا جائے۔ بالعموم دو گلاس پانی پینے سے پیاس بجھ جاتی ہے، تشفّی ہو جاتی ہے۔ سَیر ہو جانے کے بعد بھی پانی پینے سے جسم کو کچھ فائدہ پہنچتا ہے نہ پانی سے کچھ لطف ہی مل پاتا ہے۔ کوئی بھی چیز بلا ضرورت بروئے کار لائی جائے تو نقصان پہنچائے یا نہ پہنچائے‘ فائدہ بہرحال نہیں پہنچا پاتی۔ ہم بہت سی ایسی عادات پروان چڑھا بیٹھتے ہیں جن سے ہمیں ''ککھ‘‘ فائدہ نہیں پہنچ رہا ہوتا مگر پھر بھی ہم اُن عادات اور معمولات کے دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ سُنا تو آپ نے بھی ہوگا کہع
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
عادات کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ جب ہم کوئی کام یومیہ بنیاد پر کرتے ہیں تو اُس کی وقعت کم ہوتے ہوتے نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔ اگر کسی مشہور شخصیت سے کبھی کبھار ملیں تو بہت لطف آتا ہے اور اُس سے بات کرنے میں بھی کچھ الگ ہی بات ہوتی ہے۔ اور اگر اُس شخصیت سے روزانہ ہی ملاقات ہو تو؟ ظاہر ہے ملنے کا مزا جاتا رہے گا۔ روزانہ دیکھنے اور ملنے سے اُس شخصیت میں ہمارے لیے کچھ خاص کشش باقی نہ رہے گی۔ کم و بیش ہر انسان کے لیے مل بیٹھنا ایک لازمی ضرورت ہے۔ ورچوئل ملاقات یعنی آئی ٹی ٹولز اور آلات کے ذریعے ہونے والی ملاقات حقیقت نہیں، حقیقت نما ہوتی ہے۔ ایسی ملاقات سے وہ تسکین کسی طور نہیں ملتی جو بالمشافہ ملاقات کے نتیجے میں ملتی ہے۔ مل بیٹھنے سے ما فی الضمیر بیان کرنے میں آسانی رہتی ہے اور ہم اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اور اگر دل پر کوئی بوجھ ہی نہ ہو تو؟ ایسے میں دل سے کیا اُتاریں؟ غیر ضروری طور پر باقاعدگی سے بزم آرائی سکون تو کیا دے گی، اِس کے برعکس بیزاری پیدا کرتی ہے۔ کسی واضح مقصد، جواز یا ضرورت کے بغیر یومیہ بنیاد پر بیٹھک جمانے سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ بالعموم کچھ بھی نہیں۔ ایسی حالت میں کام کی باتیں کم ہوتی ہیں اور اِدھر اُدھر کی فضول باتوں میں وقت زیادہ ضائع ہوتا ہے۔
آج کا پاکستانی معاشرہ عجیب و غریب خطوط پر استوار ہے۔ آج ہر طرف ایسی بہت سی عادات دکھائی دیتی ہیں جن کا ہماری زندگی کا عمومی معیار بلند کرنے سے بہت دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔ لوگ ایسا بہت کچھ کر رہے ہیں جو دانش کا نتیجہ ہے نہ کسی مجبوری کا۔ بہت کچھ یوں اپنالیا گیا ہے گویا اُس کے بغیر ہم جی ہی نہیں سکتے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ سب کچھ ہماری ضرورت نہیں۔ آج کے پاکستانی معاشرے میں سوشل لائف کے نام پر کم و بیش روزانہ مل بیٹھنے کو لازم تصور کرلیا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی مہربانی ہے کہ بہت سے معاملات کو ذہنی ساخت کا حصہ بنادیا ہے۔ اسی باعث یہ بھی فرض تصور کرلیا گیا ہے کہ دنیا بھر کی باتیں سُنی، پڑھی اور دیکھی جائیں اور اِس کے نتیجے میں ذہن میں جو کچھ بھی پروان چڑھے اُسے نکال باہر کرنے اور داد پانے کے لیے کسی کو تلاش کیا جائے۔ یہی سبب ہے کہ یومیہ بنیاد پر بزم آرائی اب ہمارے معاشرے کی ایک بنیادی خصوصیت ہے۔ شہر ہوں یا دیہات، بہت سوں کا یہ حال ہے کہ شام کو کام سے واپسی کے بعد گھر میں ایک گھنٹہ بھی نہیں گزارتے اور باہر دوستوں کے ساتھ کئی گھنٹے بیٹھے رہتے ہیں۔ دیہات میں یہ دورانیہ دو تین گھنٹے کا ہوتا ہے، شہروں میں پانچ گھنٹے سے بھی زیادہ کا ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔
یومیہ بنیاد پر بزم آرائی کرنے والوں کو خود بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ خالص میکانیکی انداز کا حامل ہوتا ہے جس میں شعور کارفرما ہوتا ہے نہ احساس۔ جذبات بھی سطحی سے رہ جاتے ہیں۔ یہ بات ناقابلِ فہم نہیں کہ کسی بھی انسان کے پاس ہر روز تو کوئی ایسا موضوع نہیں ہوسکتا جس پر کھل کر، بلکہ رَج کر بات کی جائے۔ یہی سبب ہے کہ یومیہ بنیاد پر جمائی جانے والی بیٹھکوں میں لوگ لاحاصل موضوعات پر دماغ پاشی کر رہے ہوتے ہیں اور جب محفل برخاست ہوتی ہے تب سبھی کو یہ احساس ستا رہا ہوتا ہے کہ حاصل تو کچھ بھی نہ ہوا۔ ہوٹل کی کرسیوں، گلی کے کسی کونے میں‘ چبوترے پر یا پھر سڑک کے کنارے یومیہ بنیاد پر آباد کی جانے والی یہ محفلیں ''کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے‘‘ کا عملی نمونہ ہوتی ہیں۔ کئی گھنٹے ساتھ بیٹھنے والے جب گھر کی طرف روانہ ہوتے ہیں تب اِتنا ضرور محسوس ہوتا ہے کہ اِتنی دیر بیٹھنا کسی کام کا نہ تھا، اچھا تھا کہ کوئی ڈھنگ کا کام ہی کرلیا جاتا۔ سوشل لائف کے معاملے میں ترقی یافتہ دنیا سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہاں لوگ ہفتہ بھر ڈٹ کر محنت کرتے ہیں۔ اس دوران کوئی کسی سے بلا ضرورت ملنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ وہاں یومیہ بنیاد پر مل بیٹھنے کا رواج پایا ہی نہیں جاتا۔ اگر سرِ راہ ملاقات ہو بھی جائے تو چند لمحات کی یعنی دو چار رسمی جملوں کے بعد اپنی اپنی راہ لی جاتی ہے۔ بھرپور محنت کے بعد جب انسان تھک جاتا ہے تب ہفتے میں دو دن کا آرام ملتا ہے۔ مغرب میں ہفتے اور اتوار کو چھٹی ہوتی ہے۔ گھومنے پھرنے اور ملنے ملانے کا دن ہفتے کا ہے۔ ہفتہ بھر تھکن سے چُور کردینے والی مشقّت کے بعد جب نیند پوری کرکے پورے اہتمام سے دوستوں کی محفل سجائی جائے تو واقعی ''سواد‘‘ آجاتا ہے! اتوار کو گزشتہ دن کی تھکن اتاری جاتی ہے اور پھر رات کو جلد سویا جاتا ہے تاکہ پیر کی صبح کام پر جاتے وقت تھکن ہو نہ بے سُکونی۔
آٹھ، دس یا پندرہ دن میں ایک بار سجائی جانے والی بزم دل و جاں کو تقویت بہم پہنچاتی ہے۔ ایسی محفل میں کام کی باتیں ہوتی ہیں، حالات کا دُکھڑا رونے کے بجائے اپنی اپنی مشکلات ڈھنگ سے بیان کرکے اُن کا حل تلاش کیا جاتا ہے اور مثبت سوچ کے ساتھ زندگی کا معیار بلند کرنے کا عزم پروان چڑھایا جاتا ہے۔ کسی نے بتایا تھا کہ ڈائجسٹ کے مشہور مصنف ایم اے راحت بھی اپنے گھر اتوار کے اتوار دو‘ تین گھنٹے کی محفل سجاتے تھے۔ اس محفل کے بیشتر شرکا کہنہ مشق مصنف ہوتے تھے یا پھر مبتدی۔ بہر حال یہ محفل شرکا کے لیے دِلی تسکین کا باعث بنتی تھی۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل بھی اپنے گھر ہر اتوار کو دن کے ایک بجے تک ایسی ہی بیٹھک جمانے کے عادی رہے۔ اب شاید کورونا کی وبا کے باعث یہ سلسلہ رک گیا ہے۔
سوشل لائف انسان کی ایک بنیادی ضرورت ہے مگر یہ بھی تو طے ہونا چاہیے کہ انسان کو کتنی سوشل لائف درکار ہے۔ انسان کی اصل ضرورت ہے کام پر توجہ دینا۔ جب ہم اپنے اپنے حصے کا کام کرنے پر متوجہ رہتے ہیں تب زندگی کا معیار بلند کرنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ مقصد حاصل ہو جائے تو مل بیٹھنے کا بھی حقیقی لطف محسوس ہوتا ہے۔ کسی واضح ضرورت کے بغیر یا میکانیکی انداز کا مل بیٹھنا کس کام کا؟ سوشل لائف اس لیے ہوتی ہے کہ دل و جاں کو راحت نصیب ہو، اخلاقی و روحانی تربیت کا موقع ملے اور باطن کی بالیدگی ممکن بنائی جاسکے۔ اگر یہ مقاصد حاصل نہ ہوں اور معاملہ لاحاصل گفتگو تک محدود رہے، محض دُکھڑے ہی روئے جائیں یا بات غیبت سے شروع ہوکر غیبت پر ختم ہو تو ایسے مل بیٹھنے سے نہ ملنا بہتر۔ سوشل لائف کا ایک بنیادی مقصد یہ ہونا چاہیے کہ جب ہم دوبارہ کام پر جائیں تو ذہن تازہ ہو، سوچنے پر مائل ہو اور کام میں جی لگے۔ سوشل لائف کے نام پر سجائی جانے والی کسی بھی محفل سے اگر یہ مقصد حاصل نہ ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ سوشل لائف کے نام پر ہم اپنا وقت ہی ضائع نہیں کر رہے بلکہ اپنے آپ کو دھوکا بھی دے رہے ہیں۔