"MIK" (space) message & send to 7575

یورپ کا مخمصہ ختم ہونا چاہیے

یورپ اِس وقت اُسی مخمصے کا شکار ہے جو بیسویں صدی کے اوائل میں پیدا ہوا تھا۔ یورپی اقوام نے استعماریت کو بڑھاوا دیا، نو آبادیاتی دور شروع کیا اور اپنی طاقت کے ذریعے محض ممالک ہی نہیں‘ پورے پورے خطوں کو روند ڈالا۔ ڈھائی‘ تین صدیوں کے اس قبیح عمل کے بعد یورپ نے بیسویں صدی کے ابتدائی ایام میں اپنا راستہ بدلنے کی کوشش کی۔ یہ کوشش بہت حد تک ناگزیر تھی کیونکہ ایک دنیا کو یہ توقع تھی کہ یورپ اپنی بے مثال مادّی ترقی سے دوسروں کا بھی بھلا کرے گا، اُنہیں بہتر زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ یورپ کی اقوام اگر طاقتور تھیں تو عسکری مہم جوئی کی عادت کے سہارے۔ بیسویں صدی کے آتے آتے یہ تمام اقوام تھک چکی تھیں۔ صدیوں تک دور افتادہ خطوں میں عسکری مہم جوئی نے اُن کے اعصاب شل کردیے تھے۔ وہ چاہتی تھیں کہ راستہ بدلا جائے، ہر معاملے کو طاقت کے ذریعے درست کرنے کے بجائے کوئی اور راستہ اپنایا جائے۔ یورپ کی بیشتر اقوام چاہتی تھیں کہ عسکری مہم جوئی ترک کرکے ''نرم قوت‘‘ کی راہ پر گامزن ہوا جائے۔ یورپ نے فطری علوم و فنون میں غیر معمولی پیش رفت یقینی بنانے کے بعد چاہا کہ باقی دنیا کو بھی اس سے مستفید ہونے کا موقع دیا جائے مگر یہ ایسا آسان نہ تھا کہ محض سوچنے سے ہو جاتا۔
برطانیہ یورپ کا طاقتور ترین ملک ہونے کی حیثیت سے اپنی پوزیشن منوانے کی فکر میں غلطاں رہتا تھا۔ وہ یہ نہیں چاہتا تھا کہ باقی دنیا پر جو تصرّف پایا گیا ہے وہ ہاتھ سے جاتا رہے۔ فرانس بھی لڑنے بھڑنے کے معاملے میں اپنی ذہنیت کو زیادہ تبدیل کرنے کے حق میں نہ تھا۔ ایسے میں مفادات کا تصادم تو ہونا ہی تھا۔ برطانیہ نے امریکا کا دامن تھام کر نئی راہ چُن لی۔ اِنہی اندرونی اختلافات اور تنازعات کی کوکھ سے پہلی جنگِ عظیم نے جنم لیا۔ پہلی جنگِ عظیم میں جرمنی سے جو بدسلوکی کی گئی اُس نے دوسری جنگِ عظیم کو جنم دیا۔ امریکا کے ساتھ چلنا یورپ کی ایک بڑی مجبوری رہی ہے۔ اِس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ نرم قوت کو بنیاد بناکر چلنے کی ذہنیت نے یورپ کو عسکری معاملات میں بہت پیچھے کردیا ہے۔ آج یورپ کی بیشتر اقوام وہ سب کچھ نہیں کرنا چاہتیں جو انہوں نے ڈھائی تین صدیوں کے دوران کیا یا بیسویں صدی میں امریکا کا ساتھ دینے کی پاداش میں کرنا پڑا۔ کئی خطوں کی تباہی اور بربادی میں یورپ کو امریکا کا ساتھ دینا پڑا۔ یہ سب کچھ یورپ کی تمام اقوام کی مرضی کے مطابق نہیں تھا مگر امریکا کا ساتھ دینے کے سوا چارہ بھی نہ تھا۔ اب یورپ اپنا راستہ بدلنے کے موڈ میں ہے اور اس کی تیاری بھی اُس نے کرلی ہے۔ اس وقت یورپ کے لیے سب سے بڑا مسئلہ امریکا سے اشتراکِ عمل کی نوعیت تبدیل کرنا ہے۔ یورپ کی بیشتر اقوام چونکہ نرم قوت کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتی ہیں اس لیے وہ امریکا کے چنگل سے نکلنے کے لیے بے تاب ہیں۔ اس وقت یورپ کے بیشتر فیصلے امریکا کی مرضی کے محتاج ہیں۔ بہت کوشش کرنے پر بھی یہ سلسلہ منقطع نہیں ہو پارہا۔
نائن الیون کے بعد امریکا نے جو کچھ کیا‘ اُس کے نتیجے میں یورپ میں امریکا سے جان چھڑانے کی سوچ تیزی سے پروان چڑھی۔ برطانیہ نے ہر معاملے میں امریکا کا پورا ساتھ دے کر اپنا راستہ باقی یورپ سے الگ کرلیا ہے۔ فرانس اس معاملے میں اپنی پوزیشن کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔ وہ یورپ کا نیا قائد بن کر ابھرنا چاہتا ہے۔ جرمنی کا فی الحال اس دوڑ میں شریک ہونے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ایسے میں مقابلہ برطانیہ اور فرانس کے مابین ہے۔ برطانیہ نے اتحاد و اشتراک کے معاملے میں باقی یورپ سے الگ راہ چُن کر یعنی امریکا کو اپنا پیر و مرشِد تسلیم کرکے ایک ایسے یورپ کی راہ ہموار کی ہے جس میں اختلافات زیادہ اور نمایاں ہیں۔
نائن الیون کے بعد کی صورتِ حال میں امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو قتل و غارت برپا کی اور افغانستان، عراق، لیبیا اور شام کو تباہی سے دوچار کیا‘ اُس کی روشنی میں دیکھا جائے تو یورپ کی بیشتر اقوام امریکا سے نالاں ہیں اور اپنا راستہ الگ کرنے کا سوچ رہی ہیں۔ فرانس فیصلہ سازی کے عمل اور عسکری کارروائیوں کے حوالے سے پائے جانے والے خلا کو پُر کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ امریکا کے لیے اس وقت ایک بڑا مسئلہ نیٹو کی قوت برقرار رکھنے کا ہے۔ یورپ کی بیشتر اقوام اور یورپی یونین کے تقریباً تمام ہی ارکان چاہتے ہیں کہ اب یورپ کی اپنی فوج ہو جو فیصلوں کے معاملے میں آزاد و خود مختار ہو، بار بار امریکا کی طرف دیکھنا نہ پڑے۔ امریکا بھی اس بات کو اچھی طرح سمجھ رہا ہے کہ یورپ اپنا راستہ بدلنا چاہتا ہے۔ اور یہ بھی دیکھ رہا کہ فرانس نمایاں اور بہت حد تک قائدانہ کردار کا حامل ہے۔ اُس کی کوشش ہے کہ برطانیہ راضی نہ ہو تو اُسے ایک طرف ہٹاکر یورپ اپنی راہ الگ کرلے یعنی مشترکہ فوج تشکیل دے تاکہ کہیں بھی عسکری کارروائی کے لیے امریکا کی رضامندی کا حصول لازم نہ ٹھہرے اور یورپ اپنے طور پر بھی بہت کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہو۔
دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پر یورپ اندرونی یعنی آپس کی جنگوں کے نتیجے میں کمزور پڑچکا تھا‘ اس لیے اُس کی سلامتی کا ذمہ امریکا نے لیا۔ سوویت یونین کی شکل میں تب ایک بڑا حریف موجود تھا۔ ایسے میں امریکا کے ساتھ چلنا یورپ کے لیے سب سے بڑی مجبوری کا درجہ رکھتا تھا۔ اپنی سلامتی کی ذمہ داری امریکا کو سونپ کر یورپ نے امریکی پالیسیوں کے ہاتھوں بہت کچھ برداشت کیا۔ نرم قوت کا آپشن اپنانے پر یورپ کم و بیش چار عشروں تک سوچتا رہا۔ گزشتہ ڈیڑھ عشرے کے دوران یورپ میں یہ سوچ تیزی سے پروان چڑھی ہے کہ ہر معاملے میں امریکا کا اندھا دھند ساتھ دینے کے بجائے ہوش مندی کے ساتھ خود مختاری پر مبنی فیصلے کرنے چاہئیں تاکہ باقی دنیا کو دشمن بنائے رکھنے کی روش ترک کرنے کی گنجائش پیدا ہو۔ یورپ اب افریقہ اور اسلامی دنیا سے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے۔ اسلامو فوبیا کی لہر یورپ میں ضرور اٹھی مگر ساتھ ہی ساتھ یہ سوچ بھی پائی جاتی ہے کہ زمینی حقیقتوں کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ یہی سبب ہے کہ یورپ اپنی فوج بنانے کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہے تاکہ دفاع کے معاملات میں امریکا کی طرف دیکھنے کی مجبوری دم توڑے۔
امریکا کے لیے اس سے وقت سب سے بڑا چیلنج نیٹو کو مضبوط بنائے رکھنے کا ہے۔ افغانستان کی صورتِ حال نے یورپ میں یہ سوچ تیزی سے پروان چڑھائی ہے کہ ہر معاملے میں امریکا کا ساتھ دینا کوئلے کی دلالی میں ہاتھ کالے کرنے جیسا معاملہ ہے۔ یورپ نے دیکھ لیا ہے کہ امریکا اب بھی نرم قوت کے آپشن پر غور نہیں کر رہا۔ دوسری طرف چین نرم قوت کے ذریعے آگے بڑھنے کا طرف دار ہے۔ وہ معاشی معاملات اور ٹیکنالوجی کے ذریعے کئی خطوں میں اپنی پوزیشن مضبوط کر رہا ہے۔ ایسے میں یورپ کے پاس بھی اپنی تکریم میں اضافے کا یہی ایک راستہ بچا ہے کہ نرم قوت کو دل و جان سے اپنائے، بے مقصد عسکری مہم جوئی سے گریز کرے، ہر معاملے میں نمایاں بے عقلی کے ساتھ امریکا کا ساتھ دینے سے گریز کرے اور بالخصوص برطانیہ جیسا رویہ تو ہرگز نہ اپنائے۔
طاقت سے کمزوروں کا ناک میں دم کرنے والے ممالک یورپ سے سبق سیکھیں جو روش تبدیل کرکے معاشی معاملات، معاشرتی اشتراکِ عمل اور فطری علوم و فنون میں پیش رفت کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ اُسے امریکا کی بے عقلانہ رفاقت کی زنجیر توڑنی ہے۔ یہ بات بھی اب یورپ کے قائدین کی سمجھ میں آتی جارہی ہے کہ امریکی پالیسی میکرز خاصی تیاری کے ساتھ ایسے حالات پیدا کرتے ہیں کہ یورپ کو امریکا کی طرف صرف دیکھنا ہی نہ پڑے بلکہ اشتراکِ عمل پر بھی مجبور ہونا پڑے۔ یہ کھیل زیادہ دیر جاری رہا تو امن و سلامتی کے ماحول کو پروان چڑھانے کے حوالے سے یورپ میں جو سوچ ابھری ہے وہ برقرار نہیں رہ پائے گی۔ اب یورپ کو تیزی سے اور کارگر فیصلے کرنا ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں