ہجوم پسندی یا جھمیلے کی نفسیات ہے کہ دم توڑنے کا نام نہیں لے رہی۔ ہر شخص باقی دنیا سے جُڑنے کے چکر میں اپنی زندگی کو داؤ پر لگانے کے لیے بے تاب ہے۔ زندگی ہماہمی کا مرقع ہوکر رہ گئی ہے۔ ہجوم پسندی آج کے انسان کی نفسی ساخت کا حصہ بن گئی ہے۔ بھیڑ میں گم رہنے کی خواہش انفرادی سطح پر زندگی کو بے رنگ کیے دیتی ہے مگر لوگ کچھ دیکھنے، سوچنے، سمجھنے اور سیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ بھارت کے نامور شاعر وسیمؔ بریلوی نے خوب کہا ہے :
قطرہ اب احتجاج کرے بھی تو کیا ملے
دریا جو لگ رہے تھے سمندر سے جا ملے
ہر شخص دوڑتا ہے یہاں بھیڑ کی طرف
پھر یہ بھی چاہتا ہے اُسے راستا ملے
جی ہاں! ہجوم پسندی مزاج کا حصہ ہے۔ لوگ بھیڑ میں گم رہنا چاہتے ہیں اور پھر یہ خواہش بھی ہے کہ انفرادیت برقرار رہے۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ اِس دنیا کا ایک بنیادی اصول یہ بھی تو ہے کہ جس نے بھی کچھ بننے کا سوچا ہے اُس نے پہلے مرحلے میں خود کو بھیڑ سے الگ کرنے پر توجہ دی ہے۔ دوسروں سے جُڑ کر رہنے اور اُن میں گم ہوکر اپنی انفرادیت کھو دینے میں بہت واضح فرق ہے۔ یہ فرق ایسا نہیں کہ آسانی سے سمجھ میں آ جائے۔ ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں لوگ قدم قدم پر میلے، جھمیلے چاہتے ہیں۔ اور پھر یہ بھی چاہتے ہیں کہ اُنہیں الگ سے پہچانا جائے ؎
اِک تو اہلِ جہاں میں گم رہنا ؍ اور پھر آرزوئے یکتائی!
کسی بھی معاشرے میں نمایاں ہونے کی بنیادی شرط ہے بھیڑ سے الگ ہونا۔ بھیڑ میں گم رہتے ہوئے کچھ کرنا عام طور پر انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ اس نوعیت کے تجربوں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ معاشرہ بھیڑ کا نام ہے۔ اس بھیڑ سے جُڑے رہنا بھی لازم ہے اور اِس سے اشتراکِ عمل کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کوئی بھی انسان جزیرہ نہیں۔ معاشرہ ایک سمندر ہے جس میں ہم سب تیر رہے ہیں۔ کوئی الگ تھلگ رہ کر جی نہیں سکتا۔ ایسا ممکن ہی نہیں۔ جو لوگ معاشرے سے نالاں و آزردہ رہتے ہیں اور اپنی الگ دنیا بسانے پر یقین رکھتے ہیں وہ بالآخر اس روش پر گامزن رہنے کا خمیازہ بھی بھگتتے ہیں مگر خیر! بھیڑ میں رہتے ہوئے بھی خود کو اُس سے الگ رکھنا ایسا چیلنج ہے جو انسان سے بہت سے معاملات میں غیر معمولی قربانیاں مانگتا ہے۔ جو ایثار کرسکتا ہے، قربانیاں دے سکتا ہے وہی کامیاب رہتا ہے۔
آج کا پاکستانی معاشرہ ہجوم پسندی کی نفسیات کا مرقّع ہے اور شاندار مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ اِسی کو بھیڑ کی نفسیات بھی کہا جاسکتا ہے یعنی لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ بھیڑ میں گم ہوکر اپنی ذمہ داریوں سے بہت حد تک جان چھڑائی جاسکتی ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اس سوچ نے کسی کو کچھ نہیں دیا۔ پس ماندہ ترین اور ترقی یافتہ ترین معاشروں کا جائزہ لیجیے اور معاملات کا تجزیہ کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ کامیاب وہی رہے ہیں جنہوں نے اپنے وجود کو اولیت دی ہے۔ ماحول سے جُڑے رہنے کی دُھن میں اپنے وجود کو نظر انداز کرنے والے بالآخر ناکامی کا منہ دیکھتے ہیں۔
ہر عہد میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو انسان کے انہماک پر پوری شدت کے ساتھ اثر انداز ہوتا ہے۔ ہر معاشرے میں ایسا بہت کچھ پایا جاتا ہے یا واقع ہوتا رہتا ہے جو مختلف حوالوں سے بہتری یا خرابی کے باعث انفرادی کارکردگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر ماحول میں بہت کچھ اچھا چل رہا ہو تو فرد کو آگے بڑھنے کی تحریک ملتی ہے اور اگر خرابیاں زیادہ ہوں تو قدم قدم پر فرد کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ بہت کوشش کے باوجود کام کرنے کی حقیقی لگن اپنے اندر پیدا کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ ہجوم پسندی کم و بیش ہر انسان میں پائی جاتی ہے۔ ہاں! اس فطری رجحان یا میلان کو قابو میں رکھنے کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ اگر انسان شعوری کوشش نہ کرے تو ہجوم پسندی کی نفسیات بالآخر زندگی کے ہر معاملے کو تلپٹ کردیتی ہے۔ اپنے معاملات کو بھلاکر، اُن سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ہجوم پسندی کی نفسیات کے تحت دوسروں کے معاملات میں زیادہ گم رہنا کم و بیش ہر انسان کے بنیادی رجحانات کا حصہ ہے۔ سوال یہ نہیں کہ اس بنیادی رجحان کو ختم کیسے کیا جائے۔ اسے ختم نہیں کیا جاسکتا، ہاں! اِس پر قابو پانا لازم ہے تاکہ معاملات خرابی کی نذر نہ ہوں اور انسان وہ سب کچھ کرسکے جس کے انجام دینے کی اُس میں صلاحیت و سکت پائی جاتی ہے۔ خاقانیٔ ہند شیخ ابراہیم ذوقؔ نے کہا تھا ع
تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو
یہ شاہکار مصرع ہر اُس انسان کے لیے بنیادی سبق کا درجہ رکھتا ہے جو کچھ کرنے کی سوچ رکھتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو پہلے مرحلے میں اپنے کام سے کام رکھنا ہے۔ جب ہم اپنے معاملات سے فارغ ہو جائیں اور وقت یا وسائل کے اعتبار سے تھوڑی بہت گنجائش پیدا ہو جائے تو دوسروں کے معاملات میں بھی دلچسپی لینے میں کوئی قباحت نہیں۔ اپنے معاملات کو پسِ پشت ڈال کر دوسروں کے معاملات پر بہت زیادہ توجہ دینے کی صورت میں انہماک متاثر ہوتا ہے اور ہم جو کچھ کرسکتے ہیں وہ بھی نہیں کر پاتے۔ ہم سب کو ایک ایسی صدی میں زندگی بسر کرنے کا موقع ملا ہے جو فطری علوم و فنون میں پیش رفت کے حوالے سے انتہائی عروج کا دور ہے۔ آج عام آدمی کی زندگی میں سہولتیں ہی سہولتیں ہیں۔ کسی بھی کام کو تیزی سے نمٹانے کی ہر سہولت اتنی آسانی سے میسر ہے کہ یقین نہیں آتا۔ اس کے باوجود کام کا معیار بلند نہیں ہو پارہا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم اپنے وجود کو اولیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ ہر دور میں دنیا ایک میلے کی سی حیثیت کی حامل رہی ہے۔ اس میلے کی سیر کرنے میں کچھ قباحت نہیں مگر اس میلے میں گم ہو رہنا دانش مندی نہیں۔ آج کی دنیا میلے کی انتہائی شکل ہے۔ ہر طرف ایسا بہت کچھ ہے جو انسان کو اپنی طرف متوجہ رکھنے کے لیے بے تاب ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے لیے ہے بھی اور نہیں بھی۔ ہے اس لیے کہ اس کے بغیر ہماری زندگی ادھوری اور پھیکی ہے۔ نہیں اس لیے کہ اِسی کو سب کچھ سمجھ کر جینا نہیں ہے۔ جس طور انسان زندہ رہنے کے لیے کھاتا ہے، کھانے کے لیے زندہ نہیں رہتا بالکل اُسی طور یہ دنیا، یہ ماحول ہماری معاونت کے لیے ہیں نہ کہ اِس کے لیے کہ ہم ان میں جذب یا گم ہوکر رہ جائیں۔
فی زمانہ کم و بیش ہر انسان کے لیے ایک بنیادی چیلنج اپنی شناخت قائم کرنے اور اپنے وجود کو دوسروں سے منوانے کا ہے۔ یہ چیلنج انسان کو نچوڑ لیتا ہے۔ جسے کچھ کرنا اور اپنی صلاحیت کا لوہا منوانا ہے اُسے انتہائی جاں گُسل مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اب یہ سب کچھ ناگزیر ہے۔ اجتماعیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ماحول کم و بیش ہر انسان پر انتہائی خطرناک بلکہ ہلاکت خیز حد تک اثر انداز ہوتا جارہا ہے۔ آج کا فرد چومکھی لڑائی لڑنے پر مجبور ہے۔ اُسے اپنی انفرادیت بھی برقرار رکھنی ہے، ماحول سے ہم آہنگ بھی رہنا ہے اور دوسروں کو یقین بھی دلانا ہے کہ وہ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اُن کے لیے بھی جیتا ہے۔ یہ سب کچھ الگ الگ نہیں بلکہ بیک وقت کرنا ہے۔ ہاں! اپنی ترجیحات کو ہر صورت میں دوسروں کی ترجیحات پر مقدم رکھنا ہے۔ اپنے اہداف و مقصد کو اولیت دیے بغیر ڈھنگ سے جینے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔
شخصی ارتقا کے موضوعات پر لکھنے والوں نے ہمیشہ اِس نکتے پر زور دیا ہے کہ انسان کو اپنی ترجیحات کے سامنے کسی اور کو اولیت نہیں دینی چاہیے۔ انفرادی سطح پر اہداف و مقاصد کا تعین کرنے کے بعد اجتماعیت کو اولیت دینا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ معاشرے کو اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ آپ میں کیا ہے اور آپ کیا کرسکتے ہیں۔ یہ کام آپ کو اپنی تشفی کے لیے کرنا ہے۔ زندگی کا حُسن اِس بات میں مضمر ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ بامعنی و موثر بنانے پر متوجہ رہے۔