انسان کو متوازن رکھنے میں بہت سے عوامل کلیدی کردار ادا کرتے ہیں مگر سب سے بڑا اور فیصلہ کن کردار مطالعے کا ہوتا ہے۔ جو پڑھتے ہیں وہی ڈھنگ سے جینے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ کسی بھی انسان کے لیے پیش رفت کی گنجائش اگر پیدا ہوتی ہے تو محض مطالعے سے۔ مطالعے کے بغیر بھی لوگ جیتے ہیں اور تھوڑی بہت کامیابی حاصل کرلیتے ہیں مگر اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ مطالعے کے بغیر حاصل ہونے والی کامیابی بالعموم نمائشی نوعیت کی ہوتی ہے جسے برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔
کیا واقعی مطالعہ بہتر زندگی کے لیے ناگزیر ہے؟ یہ سوال اُن سبھی لوگوں کے ذہنوں میں ابھرتا رہتا ہے جو یا تو بالکل مطالعہ نہیں کرتے یا پھر برائے نام کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو جب مطالعے کا مشورہ دیا جاتا ہے تو وہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ مطالعہ آخر اتنا ضروری کیوں ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بڑی عمر کے لوگوں کو مطالعے کی طرف مائل کرنے پر زور نہیں دینا پڑتا کیونکہ وہاں سکول کی سطح ہی پر یہ بات ذہن نشین کرادی جاتی ہے کہ مطالعے کے بغیر انسان ڈھنگ سے جینے کے قابل نہیں ہو پاتا۔ جو یہ چاہتا ہے کہ اپنی زندگی کامیاب بنائے اور دوسروں کے لیے بھی مثال بنے‘ اُس کے لیے لازم ہے کہ مطالعے کی عادت اپنائے۔ جیف براؤن اور جیسی وزنیوئسکی نے اپنی کتاب ''ریڈ ٹو لیڈ‘‘ میں لکھا ہے کہ کسی بھی انسان کو شاندار کیریئر کے لیے تیار کرنے اور قابلِ رشک انداز کی زندگی بسر کرنے کے قابل بنانے میں مطالعہ کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ مطالعے ہی سے انسان میں قائدانہ بالغ نظری پیدا ہوتی ہے۔ معیاری کتب کا مطالعہ انسان کو ذہن سے کام لینا، سوچنا اور اعمال کا معیار بلند کرنا سکھاتا ہے۔ ہر دور میں وہی لوگ زیادہ کامیاب رہے ہیں جنہوں نے دوسروں کی دانش سے بہت کچھ پانے کی کوشش کی ہے۔ ایک دور تھا کہ مطالعے کے لیے کتب اور جرائد کے حصول کی خاطر بہت کوشش کرنا پڑتی تھی۔ اب یہ مسئلہ حل ہوچکا ہے۔ آج انٹرنیٹ پر لاکھوں کتابیں اور جرائد موجود ہیں جن کا آسانی سے مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
جو لوگ کسی خاص شعبے میں کچھ کر دکھانے کے عزم اور مقصد کے ساتھ عملی زندگی شروع کرتے ہیں انہیں بہت مطالعہ کرنا پڑتا ہے کیونکہ مطالعے ہی سے اُن کے ذہن میں وسعت پیدا ہوتی ہے، خیالات میں گہرائی اور گیرائی پیدا ہوتی ہے اور وہ اچھا سوچنے کے ساتھ ساتھ اپنی بات ڈھنگ سے بیان کرنے کے قابل بھی ہو پاتے ہیں۔ کیریئر کو مستحکم کرنے میں مطالعے کا کلیدی کردار اس لیے ہے کہ ہر شعبے میں لوگ سوچ رہے ہیں اور اپنے خیالات کو مضامین اور کتب کی شکل دے کر شائع بھی کر رہے ہیں۔ کتب، جرائد اور مقالوں کی اشاعت سے متعلقہ شعبے میں قدم رکھنے والوں پر لازم ٹھہرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مطالعہ کریں تاکہ دوسروں کی محنت اور پیش رفت کا اندازہ ہو اور کچھ نیا کرنے کی تحریک ملے اور طریقہ بھی سُوجھے۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان مطالعہ کس طرح کرے۔ واضح منصوبہ سازی کے بغیر مطالعہ کچھ زیادہ نہیں دے پاتا۔ بہت سی کتب کے صفحات الٹ کر کہیں سے بھی کچھ پڑھنے کی صورت میں انسان کچھ زیادہ نہیں پاتا۔ مطالعے کی عادت پروان چڑھانے کے ساتھ ساتھ منصوبہ سازی بھی کرنا پڑتی ہے۔ مطالعے کے اوقات مقرر کرنا پڑتے ہیں تاکہ دیگر مشاغل اور اعمال متاثر نہ ہوں۔ منظم مطالعہ ہی انسان کو فکری اعتبار سے پختہ کرتا ہے۔ جو لوگ واضح منصوبہ سازی کے بغیر بہت مطالعہ کرتے ہیں اُن کے ذہن بالآخر دنیا بھر کے افکار کے گودام بن کر رہ جاتے ہیں۔ منظم مطالعے میں بھی اس بات کا خیال رکھنا پڑتا ہے کہ جو کچھ پڑھا جارہا ہے وہ ہضم بھی کیا جائے۔ بہت کچھ پڑھ کر اُسے ہضم کرنے اور اُس کے بارے میں سوچنے سے گریز کی صورت میں ذہن کا ارتقا نہیں ہو پاتا۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی ٹرین میں سفر کر رہا ہو اور شہر، قصبے، دیہات، سٹیشن گزرتے چلے جائیں۔ صرف دیکھنے سے ہم کسی بھی مقام کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جان پاتے۔ سرسری انداز سے کیا جانے والا مطالعہ بھی ٹرین کے سفر جیسا ہی ہے۔ جو لوگ اس تصور کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں کہ جو کچھ پڑھ رہے ہیں‘ وہ ہضم ہو اور زندگی میں معنویت بھی پیدا کرے۔ ایسے افراد کے افکار و اعمال سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ مطالعہ انہیں بہت کچھ دیتا ہے۔
مصنفین نے مذکورہ کتاب میں لکھا ہے کہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ اپنے شعبے میں قیادت کا فریضہ انجام دے تو اُسے بہت زیادہ پڑھنا پڑے گا کیونکہ زیادہ پڑھنے سے وہ دوسروں کو کچھ بتانے، اُنہیں راہ دکھانے کے قابل ہو پاتا ہے۔ مطالعے کا صرف وسیع ہونا کافی نہیں، یہ عمیق یعنی گہرا بھی ہونا چاہیے۔ آج کل ہر معاملے میں ''سمارٹ نیس‘‘ کا بہت چرچا ہے یعنی ہر کام اِس طور کیا جائے کہ اُس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ مطالعے کا بھی یہی معاملہ ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں مطالعے کا معیار بلند کرنے پر خاص توجہ دی جارہی ہے تاکہ کم وقت میں زیادہ اور کارآمد مطالعہ کیا جاسکے۔ تیزی سے مطالعہ کرنے کی صفت بھی انسان کو بہت تیزی سے بہت کچھ جاننے کے قابل بناتی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں سکول اور کالج کی سطح پر اس حوالے سے تربیت بھی دی جاتی ہے اور رہنمائی بھی کی جاتی ہے۔ چھوٹی عمر سے جو کچھ سکھایا جاتا ہے وہ زیادہ بارآور ثابت ہوتا ہے۔ بچوں کو تیزی سے مطالعے کا فن سکھایا جائے تو مطالعہ اُن کی زندگی میں زیادہ معنویت پیدا کرتا ہے۔ ایسے میں اُن کے ذہن کام کی بہت سی باتیں بہت تیزی سے قبول اور ہضم کرتے ہیں اور یوں اُن میں وہ بالغ نظری پیدا ہوتی ہے جو عام آدمی میں چالیس یا پچاس سال کی عمر بھی پیدا نہیں ہو پاتی۔
مذکورہ کتاب میں اس نکتے پر بھی وقیع بحث کی گئی ہے کہ بلیغ مطالعہ ہی انسان کو معیاری زندگی کی طرف لے کر جاتا ہے یعنی انسان کو وہی کچھ پڑھنا چاہیے جو اُس کے لیے کسی نہ کسی اعتبار سے پُرکشش ہو۔ دوسروں کو متاثر کرنے کے لیے کیا جانے والا مطالعہ کسی کام کا نہیں۔ اگر کوئی موسیقی سے شغف رکھنے کے ساتھ ساتھ عملاً اِسی شعبے سے وابستہ ہے تو اُسے موسیقی اور دیگر متعلقہ فنون سے متعلق کتب یا جرائد کے مطالعے کو واضح ترجیح دینا چاہیے۔ جب اپنے شعبے کے بارے میں بہت کچھ جان لیا جائے تب دوسرے شعبوں سے متعلق مطالعہ کرنے میں بھی کچھ حرج نہیں۔ بہت سے لوگ واضح رجحان نہ ہونے پر بھی ایسی چیزیں پڑھتے ہیں جن کا اُن کے کیریئر، شخصیت یا شعبے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، مثلاً یہ بات سراسر غیر منطقی ہے کہ کوئی اداکار یا گلوکار ٹھوس جواز یا ضرورت کے بغیر انجینئرنگ کی کتب کا مطالعہ کرے۔ یہ خالص پیشہ ورانہ مطالعہ ہے جو شخصیت کو عمومی سطح پر پروان چڑھانے میں کوئی بھی کردار ادا نہیں کرتا۔
فی زمانہ کم وقت میں زیادہ پڑھنے کا ایک اچھا طریقہ معیاری کتب کے خلاصے پڑھنا بھی ہے۔ ڈھائی تین سو صفحات کی کتاب کو محض ہزار بارہ سو الفاظ میں تو نمٹایا اور بھگتایا نہیں جاسکتا۔ ہاں! کسی بڑی کتاب کا آٹھ تا دس ہزار الفاظ میں خلاصہ تیار کرنے سے پڑھنے والوں کو اصل کتاب کے بارے میں بہت کچھ جاننے کو ملتا ہے۔ بڑے خلاصے کے ذریعے اصل کتاب سے اقتباسات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں اور یوں مصنف کے اُسلوبِ بیان اور زبان پر اُس کے عبور کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے۔ مطالعے کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنے کردار و مزاج کی تطہیر ممکن بنانے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی خامیوں اور خرابیوں کو سمجھنے اور اُنہیں برداشت کرنے کے قابل بھی ہو پاتا ہے۔ مطالعے کا حتمی مقصد ہونا بھی یہی چاہیے کہ انسان اپنے آپ کو دوسروں کے لیے زیادہ سے زیادہ مفید بنائے اور دوسروں کو سمجھنے کے قابل ہوکر اُنہیں اپنائے۔ کتب کی شکل میں ہر دور کی دانش ہمارے سامنے ہے۔ ہم جس قدر چاہیں مستفید ہوسکتے ہیں اور ہونا ہی چاہیے۔ آج مطالعے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ سوشل میڈیا کے ذریعے اُتھلے پانی جیسی معلومات ہمارا فکری معیار پست کرتی جارہی ہیں۔