مہنگائی کی دلدل میں دھنستا جارہا ہے۔ اس حوالے سے مین سٹریم میڈیا میں تو کچھ خاص شور نہیں مچایا جارہا۔ اس کا سبب کچھ بھی ہوسکتا ہے‘ بعض ''ناگفتہ بہ‘‘ وجوہ یا پھر کاروباری مصلحتیں مگر سوشل میڈیا کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ ڈیسک ٹاپ پبلشنگ نے ہر آدمی کو اس قابل کردیا ہے کہ وہ اپنی رائے دے اور دوسروں کی آراء سے واقف ہو۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مہنگائی کے حوالے سے ہاہا کار مچی رہتی ہے۔ عام آدمی بنیادی ضرورت کی اشیا کے نرخوں میں پے در پے اضافے سے پریشان رہتا ہے۔ ایسے میں اُس کا شور مچانا‘ احتجاج کرنا بنتا ہے۔ اب اگر اُس سے سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم بھی چھین لیا جائے تو اُس کے پاس بچے گا کیا؟
ہر حکومت پر مہنگائی کنٹرول نہ کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ بات کچھ غلط بھی نہیں۔ کوئی بھی حکومت مہنگائی کنٹرول نہیں کرسکی ہے۔ ہر دور میں بنیادی ضرورت کی اشیا کے نرخ بڑھتے ہی گئے ہیں۔ پاکستان میں مہنگائی کا معاملہ فیشن اور رجحان جیسا رہا ہے۔ پاکستان ان چند ممالک میں سے ہے جہاں مہنگائی صورتحال میں تبدیلی کے نتیجے میں نہیں بلکہ محض رجحان کے طور پر یعنی دیکھا دیکھی بڑھتی ہے۔ بہت سے کاروباری ادارے کسی بھی ٹھوس جواز کے بغیر محض اپنی مرضی سے یا خود غرضی کے ہاتھوں مجبور ہوکر قیمتیں بڑھاتے رہتے ہیں۔ اُن کی دیکھا دیکھی دوسرے ادارے بھی قیمت بڑھانے کی ریس میں حصہ لینے لگتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں کم و بیش ہر چیز مہنگی ہوتی چلی جاتی ہے۔ ایک نادیدہ میکینزم ہے جو ہمہ وقت کام کرتا رہتا ہے۔ یہ میکینزم ہے لالچ اور بے حِسی کا۔ ایک زمانے سے ہم یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ منافع کی شرح بڑھاتے چلے جانا بھی فیشن کی سی حیثیت کا حامل ہوچکا ہے۔ یہ طے کرلیا گیا ہے کہ 10 یا 15 فیصد منافع کی حد میں رہنا ہی نہیں ہے۔ کھانے پینے کی اشیا ہی کا معاملہ لیجیے۔ ان اشیا پر منافع کی شرح بالعموم 100 تا 200 فیصد ہے۔ مثلاً کسی برگر کی لاگت اگر 30 تا 35 روپے ہے تو اُس کی قیمت بالعموم 80 تا 100 روپے رکھی جاتی ہے۔ پیکیجڈ جُوس بھی تقریباً 100 فیصد یا اس سے کچھ زائد منافع ہی پر فروخت کیا جاتا ہے۔ اسی طور بریانی کی لاگت 70 تا 90 روپے فی پلیٹ ہو تو قیمت 150 تا 200 روپے فی پلیٹ وصول کی جاتی ہے۔ خام مال کی قیمت آج بھی اتنی معقول ہے کہ گھر پر کوئی چیز تیار کرنے کی صورت میں کم از کم 50 فیصد بچت تو ہوتی ہی ہے۔ بہت سی چیزیں گھر میں بنائی جاسکتی ہیں مگر لوگ توجہ نہیں دیتے اور تیار شدہ مال خریدنے پر متوجہ رہتے ہیں۔ مثلاً آلو کے چپس گھر میں بنائے جاسکتے ہیں مگر لوگ تیار مال خریدتے ہیں تو 30‘ 40 روپے فی کلو کے نرخ پر ملنے والا آلو کم و بیش 200 روپے فی کلو پڑتا ہے۔ آج کل لَسّی تقریباً 80 روپے فی گلاس کے نرخ سے فروخت ہو رہی ہے۔ دہی 200 روپے فی کلو کے نرخ پر مل رہا ہے۔ اگر ایک کلو دہی سے گھر میں لسّی بنائی جائے تو پانچ گلاس لَسّی آسانی سے بنتی ہے۔ یعنی جتنی لَسّی کسی دکان سے 400 روپے میں آتی ہے اُتنی لَسّی گھر میں صرف 200 روپے میں تیار کی جاسکتی ہے۔
اب آئیے دیگر معاملات کی طرف۔ کپڑے بھی انسان کی بنیادی ضرورت ہیں مگر کیا آمدنی سے مطابقت نہ رکھنے والے مہنگے ملبوسات خریدنا ناگزیر ہے؟ کسی بھی درجے میں نہیں۔ ہر انسان کو اپنی آمدن سے مطابقت رکھنے والے ملبوسات ہی خریدنے چاہئیں۔ دانش یا عقلِ سلیم تو یہی کہتی ہے۔ یہ تو عام یا عمومی مشاہدے کی بات ہے کہ لوگ ملبوسات خریدتے وقت اپنی آمدن ذہن نشین نہیں رکھتے۔ کم آمدنی والا طبقہ بھی اس معاملے میں شدید لاپروائی کا ارتکاب کرتا ہے۔ کسی کی ماہانہ آمدن 35‘ 40 ہزار روپے ہو تو چار پانچ ہزار روپے والی برانڈڈ شرٹ یا پینٹ پہننے کا کیا جواز ہے؟ ایسے معاملات میں معمولی سی لاپروائی بجٹ بگاڑ دیتی ہے۔ ملبوسات ہماری ضرورت ہیں‘ مہنگے ملبوسات خریدنا کسی بھی درجے میں ہمارے لیے لازم نہیں۔ سمارٹ فون عصرِ حاضر کی ایک بڑی اور بنیادی ضرورت ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ 40‘ 50 ہزار روپے والا سمارٹ فون ہی خریدا جائے اور وہ بھی محض اس خیال سے کہ لوگوں میں اچھا تاثر قائم ہوگا۔ سوال ضرورت پوری کرنے کا ہے۔ جو کچھ آپ 40‘ 50 روپے والے سمارٹ فون کے ذریعے دیکھ اور سُن سکتے ہیں وہی کچھ آپ 15 تا 20 ہزار کے جدید سمارٹ فون کے ذریعے بھی دیکھ اور سُن سکتے ہیں۔
جب بھی مہنگائی بڑھتی ہے تب متعلقین پر ایک چیز تو تقریباً فرض ہو جاتی ہے اور یہ ہے بجٹنگ یعنی آمدن اور اخراجات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنا۔ یہ اس لیے لازم ہے کہ معاملے کو ڈھیلا چھوڑنے سے بعض ''بے فضول‘‘ کے اخراجات ہماری زندگی کا حصہ بنے رہتے ہیں۔ بجٹنگ کی مشق سے انسان سیکھتا جاتا ہے کہ آمدن سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کس طور ممکن ہے۔ اندھا دھند خرچ کرتے چلے جانے سے زندگی میں کوئی مثبت تبدیلی پیدا نہیں ہوتی۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بہت سی آسانیاں ہونے کے باوجود لوگ بجٹنگ کی مشق جاری رکھتے ہیں۔ ہم جیسے معاشروں میں تو یہ ناگزیر ضرورت ہے مگر افسوس کہ اس حوالے سے اب بھی خاصے کم لوگ سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں مہنگائی پر قابو پانا اصلاً حکومت کا کام ہے۔ عام آدمی اس حوالے سے کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ وہ تو صرف اپنی اصلاح کرسکتا ہے تاکہ حالات کا سامنا کرنے کے قابل ہوسکے۔ عام آدمی کو صورتحال کے مطابق بدلنا ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بھی کسی نہ کسی حوالے سے مہنگائی بڑھتی ہی رہتی ہے مگر لوگ چونکہ شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں اس لیے معاملات قابو میں رہتے ہیں۔ مہنگائی کا سامنا کرنے کی‘ انفرادی سطح پر‘ بنیادی شرط ہے آمدن میں اضافہ کرنا۔ ہمارے ہاں عام آدمی اپنی کمزور مالی حالت کا صرف رونا روتا ہے‘ بالعموم ایسا کچھ نہیں کرتا جس سے آمدن میں اضافہ ہو۔ اس نکتے پر کم لوگ غور کرتے ہیں کہ جب مہنگائی بڑھتی ہے تو آمدن کے ذرائع بھی بڑھتے ہیں۔ جی ہاں‘ ایسا ہی ہے۔ مہنگائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جو لوگ زیادہ کماتے ہیں وہ خرچ بھی تو کرتے ہیں۔ ایسے میں حالات پر نظر رکھنا پڑتی ہے تاکہ جن شعبوں میں لوگ زیادہ خرچ کر رہے ہیں اُس میں نئے معاشی امکانات تلاش کیے جائیں۔ آمدن میں ہونے والا اضافہ جائز ذرائع سے ہو یا ناجائز ذرائع سے‘ کہیں نہ کہیں تو کھپتا ہی ہے‘ خرچ کیا ہی جاتا ہے۔ ایسے میں دانا وہ ہے جو معاشی امکانات تلاش کرنے پر متوجہ ہو۔
مہنگائی پر قابو پانا فرد یا چند افراد کے بس کی بات کبھی تھی نہ ہوسکتی ہے۔ اور پاکستان جیسے معاشرے میں تو معاملہ اور بھی پیچیدہ ہے۔ کوئی ایک معاملہ بھی قابو میں نہیں۔ ایسے میں کسی بھی خرابی کو بڑھنے سے روکنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ جب کچھ بھی سمجھ میں نہ آرہا ہو تب اپنے آپ کو سمجھنے کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ انسان کسی اور کو معقولیت کی حدود میں رکھنے میں ناکام ہوسکتا ہے مگر اپنے معاملے میں تو کامیابی ممکن ہے۔ اوّل و آخر سوال ضبطِ نفس کا ہے۔ جس نے اپنی خواہشات کو قابو میں رکھا وہی کامیاب ہوا۔ روز افزوں مہنگائی کا مقابلہ ڈھنگ سے اُسی وقت کیا جاسکتا ہے جب ہم طے کرلیں کہ عقل سے کام لیتے رہیں گے اور دانائی کا دامن نہیں چھوڑیں گے۔ ایسے میں یہ بات کتنی عجیب ہے کہ مہنگائی میں اضافے کی رفتار بڑھنے پر بھی ہم اجتماعی طور پر وہ روش نہیں اپنارہے جس پر چل کر ہم معقولیت کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں اشیا و خدمات کے مہنگے ہوتے چلے جانے پر سوچا جاتا ہے‘ بجٹ کو قابو میں رکھنے پر توجہ دی جاتی ہے۔ مہنگائی بھی المیہ ہے مگر اُس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہوش اڑا دینے والی مہنگائی کو دم بہ دم سامنے پاکر بھی ہم ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں۔