آج ہر معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کی زندگی صرف اور صرف مغالطوں سے عبارت ہے۔ جو معاملات سمجھ میں نہیں آتے اُن کے درست کیے جانے سے متعلق محض خوش گمانیاں پروان چڑھالینے کو کافی سمجھ لیا جاتا ہے۔ مسائل کا حق ہے کہ انہیں حل کرنے کے بارے میں سوچا جائے۔ یہ معاملہ محض سوچنے تک محدود نہیں رکھا جاسکتا۔ کسی بھی مسئلے کے حل سے متعلق سوچنے کے بعد عمل کی دنیا میں بھی سانس لینا پڑتا ہے۔ ہمارا یعنی آج کے انسان کا معاملہ یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں محض پریشان ہونے کو سوچنے پر محمول کرلیا گیا ہے۔ لوگ دن رات پریشان رہتے ہیں اور یہ سوچ سوچ کر خوش رہتے ہیں کہ اُنہوں نے سوچنے کا حق ادا کردیا۔ چلیے‘ اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ محض پریشان ہونا بھی کچھ معنی رکھتا ہے تب بھی عمل کی اہمیت تو اپنی جگہ ہے اور تسلیم شدہ ہے۔ محض سوچ لینے سے تو کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔
آج کے انسان کا ایک انتہائی بنیادی المیہ یہ ہے کہ یہ فہم کی منزل سے گزر چکا ہے یعنی اچھی طرح جانتا ہے کہ مسائل کیا ہیں‘ اُن کی نوعیت اور شدت کیا ہے اور یہ بھی کہ مسائل کو بروقت حل نہ کرنے کی صورت میں کن مضمرات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ مسائل کو شمار کرلینا اور اُنہیں ''ٹو ڈو لسٹ‘‘ میں شامل کرلینا ہی کافی سمجھ لیا گیا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے کہ مسائل کے فہم سے ہم اُنہیں حل بھی کرلیتے ہیں؟ فہم ہماری راہنمائی کرتا ہے کہ مسائل کے حل کے لیے کب‘ کیا اور کیسے کرنا ہے۔ عمل کا سوال تو اپنی جگہ ہے۔ مسائل چھوٹے ہوں یا بڑے‘ ہم سے پوری توجہ کے ساتھ فکر و عمل چاہتے ہیں۔ فکر و عمل! یعنی محض سوچ لینا کسی بھی درجے میں کافی نہیں‘ عمل بھی لازم ہے۔
ہم دن رات مسائل کا رونا روتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اصلاحِ احوال کی بات بھی کی جاتی ہے۔ اصلاحِ احوال یعنی حالات کو درست کرنے کا عمل۔ کیا واقعی ہم اصلاحِ احوال چاہتے ہیں؟ ہم میں سے کتنے ہیں جو اپنی زندگی میں نمایاں یا غیر معمولی نوعیت کی بہتری دیکھنے کے خواہش مند ہیں؟ آپ کا جواب ہوگا ایسا تو کم و بیش ہر انسان چاہتا ہے۔ ٹھیک ہے‘ بات غلط بھی نہیں۔ مگر یہ معاملہ محض خواہش کرلینے کا تو نہیں۔ اگر حالات درست کرنے کی خواہش ہے تو اُس خواہش پر عمل بھی کیا جانا چاہیے۔ محض سوچنے یا خواہش کرلینے سے تو کوئی بھی مسئلہ حل نہی ہوتا‘ حالات کے درست ہونے کی سبیل نہیں نکلتی۔ عام آدمی کا افسانہ یہ ہے کہ وہ حالات کے بارے میں سوچنے اور انہیں سمجھنے سے زیادہ انہیں دیکھ دیکھ کر کڑھتا ہے۔ اس جلن اور کڑھن ہی کو اصلاحِ احوال کا راستہ سمجھ لیا گیا ہے۔ کسی بھی معاملے میں محض روتے رہنے اور واویلا مچانے سے تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ اگر صورتِ حال ناموافق ہو تو اُسی وقت موافق ہوسکتی ہے جب ہم اُسے اچھی طرح سمجھ کر درستی کا راستہ سوچیں اور پھر اُس راستے پر گامزن بھی ہوں۔ یہ پورا عمل ہمیں اُسی وقت کچھ دے سکتا ہے جب ہم اپنے آپ سے مخلص ہوں‘ اپنا بھلا چاہتے ہوں‘ ہر چیلنج کو محض دل پشوری کا آئٹم سمجھ کر نہیں بلکہ چیلنج سمجھ کر قبول کریں۔ جب ہم کسی بھی صورتِ حال کو چیلنج سمجھتے ہیں تب ہی اُسے درست کرنے کی طرف جانے کی ہمت پیدا ہوتی ہے۔
آئیے‘ ہم اپنے ماحول کی بات کرتے ہیں۔ باقی دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس کے بارے می کڑھنے اور سوچنے سے کہیں زیادہ سود مند ہے اپنے معاشرے اور قریب ترین ماحول کے بارے میں متفکر ہونا۔ یہی عمل ہمارے لیے اصلاحِ احوال کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج ہمارا معاشرہ بیشتر معاملات میں ایسی پستی میں گرا ہوا ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ کم و بیش تمام ہی معاملات کسی نہ کسی حد تک خرابی کا شکار ہوچکے ہیں۔ بعض معاملات پر تو ہمارا بالکل اختیار نہیں۔ عام آدمی ان معاملات میں کچھ بھی نہیں کرسکتا مثلاً مہنگائی روکنا عام آدمی کے بس کی بات کبھی تھی نہ ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ مہنگائی پر قابو پانا اب حکومت کے بس میں بھی نہیں رہا۔ کاروباری دنیا نے کارٹیل اور مافیا کی راہ پر چلنا شروع کردیا ہے۔ گٹھ جوڑ قائم کرکے کاروباری ادارے اتنے مضبوط ہوگئے ہیں کہ اب حکومت کو بلیک میل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب حکومت اور انتظامی مشینری کی صفوں میں گھس کر غیر معمولی اثر و رسوخ کے حامل چند افراد کو اپنے ساتھ ملا لیا جائے‘ اپنے اور اُن کے مفادات کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جائے۔ جب معاملات حکومتی شخصیات اور کاروباری دنیا کے گٹھ جوڑ تک پہنچ جائیں تب عام آدمی کیا‘ حکومت بھی کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہتی۔ ہمارا معاملہ تو یہ ہے کہ اب پارلیمنٹ کی حیثیت بھی ربر سٹیمپ کی سی رہ گئی ہے۔ ہاں‘ جو کچھ عام آدمی کرسکتا ہے وہ بھی اُس سے نہیں ہو پارہا۔ جب حالات کی ناموافق نوعیت نے حواس باختہ کردیا ہو تب انسان اپنے حقیقی آپشن یعنی انفرادی سطح کی اصلاحِ احوال کے قابل بھی نہیں رہتا۔ یہی وہ خامی یا خرابی ہے جو معاشروں کو دیمک کی طرح چاٹتی رہتی ہے۔ عام آدمی کے ہاتھ میں بظاہر کچھ خاص نہیں ہوتا مگر یہ بھول جاتا ہے کہ اپنے وجود پر تو اُس کا اختیار ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔ معاشرہ چاہے کسی بھی سمت جارہا ہو‘ حکومت اور انتظامی مشینری کی جہت چاہے کوئی بھی ہو‘ کوئی بھی انسان اپنے بہت سے معاملات درست کرنے کی پوزیشن سے آسانی سے محروم نہیں ہوتا۔ جہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہو وہاں بہترین آپشن ہوتا ہے اپنی اصلاح۔ یہ آپشن صرف اُس وقت بے آزمایا رہ جاتا ہے جب انسان خود ایسا چاہے۔ اب آئیے اس سوال کی طرف کہ پاکستان میں عام آدمی کا اصل مسئلہ کیا ہے‘ وہ کیا چاہتا ہے۔ آج کے پاکستان کا عام آدمی اپنے وجود کے سوا تمام ہی معاملات کے بارے میں سوچتا اور پریشان ہوتا رہتا ہے۔ گویا ؎
یوں سمجھنے کو تو سب کچھ این و آں سمجھا تھا میں
جو سمجھنا چاہیے تھا وہ کہاں سمجھا تھا میں!
مہنگائی‘ افلاس اور بے روزگاری کی چَکّی میں پسنے والوں کے پاس صرف ایک آپشن بچتا ہے ... کسی سے کوئی امید وابستہ کیے بغیر اپنے معاملات کی درستی کے لیے سنجیدہ ہونا اور پورے اخلاص و تیاری کے ساتھ میدانِ عمل میں اترنا۔ یہ آپشن صرف اُس وقت چھنتا ہے جب انسان خود ایسا ہونے دے۔ ہمارے ہاں معاملہ یہ ہے کہ اس آپشن کے بارے میں سنجیدہ ہونے کے بارے میں اب تک نہیں سوچا گیا۔ عام آدمی اب بھی کہانیوں کی دنیا میں رہتا ہے یعنی خوش فہمی یہ ہے کہ کہیں سے کوئی آئے گا اور تمام معاملات درست کردے گا۔ امکانات کے بارے میں سوچنا بھی غلط تو نہیں مگر محض اتنا کرلینے سے تو کچھ نہی ہو جاتا۔ پاکستان کا محلِ وقوع انتہائی سودمند اور کارگر ہے مگر ہم نے کیا پایا ہے۔ محلِ وقوع سے جو کچھ ہمیں حاصل ہوسکتا تھا وہ اب تک ملا نہیں اور اگر تھورا بہت ملا بھی ہے تو وہ ایک خاص طبقے تک محدود رہا ہے‘ عام آدمی تک تو ثمرات کا عشرِ عشیر بھی نہیں پہنچا۔ آپشن کو بہ طریقِ احسن بروئے کار نہ لایا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ عام آدمی کا بھی بنیادی المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے کسی بھی آپشن کو بہ طریقِ احسن بروئے کار نہیں لاتا۔ اب اسی بات کو لیجیے کہ مہنگائی اور افلاس کا سامنا کرنے کے حوالے سے عام آدمی کے پاس سب سے اچھا آپشن ہے زیادہ محنت کرنے کا‘ مہارت حاصل کرنے کا یعنی اپنے وجود کو مقدار و معیار دونوں کے حوالے سے اَپ گریڈ کرنے کا مگر اس آپشن کو بروئے کار لانے کے بارے میں کم ہی لوگ سوچتے ہیں۔ ہر دور میں ہر انسان کے لیے آسان ترین آپشن رہا ہے حالات کا رونا روتے رہنے کا۔ عام آدمی صرف اس آپشن کی چَکّی میں پستا رہتا ہے۔ حالات کے بارے میں رونے‘ کڑھنے اور واویلا مچانے سے مسائل حل ہوا کرتے تو آج دنیا میں کہیں بھی قِلّتِ خوراک‘ بے روزگاری‘ مہنگائی اور غربت سمیت کوئی بھی مسئلہ نہ پایا جاتا۔ قصہ مختصر ؎
حل کرنے سے حل ہوتے ہیں پیچیدہ مسائل
ورنہ تو کوئی کام بھی آساں نہیں ہوتا