"MIK" (space) message & send to 7575

قصہ روٹی کا !

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں غذا اور غذائیت کا مسئلہ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ مہنگائی بڑھنے سے اشیائے خور و نوش کے دام بھی بڑھتے ہیں اور یوں اُن کیلئے یومیہ بنیاد پر کھانے پینے کا اہتمام کرنا اور بھی دشوار ہو جاتا ہے جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہے ہوتے ہیں۔ خوراک چونکہ انسان کی انتہائی بنیادی ضرورت ہے اس لیے اِس کا معقول طریقے سے اہتمام یقینی بنانا حکومت کے بنیادی فرائض میں سے ہے۔ آج دنیا بھر میں خوراک کی رسد کا معاملہ چند بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ گزرتا وقت اس صورتحال کو پیچیدہ سے پیچیدہ تر بناتا جارہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں چونکہ خوراک اور معیاری زندگی کے تعلق کو اچھی طرح سمجھتی ہیں اس لیے وہ عوام و خواص‘ سب کیلئے معیاری خوراک کی معقول نرخوں پر فراہمی ممکن بنانے پر غیر معمولی توجہ دیتی ہیں۔ خوراک جیسا انتہائی بنیادی مسئلہ ڈھنگ سے حل کرلیا جائے تو بہت سے فضول نوعیت کے مسائل کا سدباب ممکن ہو جاتا ہے۔ افریقہ، مشرق وسطیٰ، جنوبی امریکا، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے بعض ممالک میں خوراک آج بھی ایک حل طلب مسئلہ ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کیلئے خوراک کا معقول طریقے سے انتظام کرنا حکومتوں کے لیے دردِ سر بنا ہوا ہے۔ افریقہ میں صورتحال بہت خراب ہے۔خانہ جنگی کے ہاتھوں تباہی سے دوچار متعدد ممالک میں عوام ایک طرف بے امنی اور دوسری طرف بھوک کا عذاب جھیلنے پر مجبور ہیں ع
جیسے دہری دھار کا خنجر چلے
کوئی بھی حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کی طرف متوجہ نہیں ہوتی اور عالمی برادری نے تو جیسے پورے افریقہ کو طاقِ نسیاں ہی پر رکھ دیا ہے۔ عالمی سیاست و معیشت میں ایک پورے براعظم کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے۔ یہ کوئی آج کی بات نہیں۔ افریقہ صدیوں سے دنیا کے طاقِ نسیاں پر ہے۔ اِس خطے سے جڑے قدرے خوشحال بلکہ ترقی یافتہ خطے بھی اِس کے معاملات درست کرنے پر توجہ دینے کیلئے تیار نہیں۔ افریقہ کے معاملے میں دنیا نے جو روش اختیار کر رکھی ہے وہ بہت حد تک مجرمانہ ہے اور اُس سے عالمی سطح پر واقع ہونے والی اخلاقی گراوٹ کا بھی بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ 2006ء سے گلوبل ہنگر انڈیکس مرتب کیا جارہا ہے۔ یہ انڈیکس مرتب کرنے کا بنیادی مقصد پوری دنیا میں خوراک کی قلت سے دوچار ممالک کے بارے میں بھی عالمی برادری کو اُس کی ذمہ داری کا احساس دلانا ہے۔ افریقہ کی طرح جنوبی ایشیا کے ممالک بھی اس انڈیکس میں قابلِ رشک مقام پر نہیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان اور نیپال خاصی افسوسناک حالت میں ہیں۔ گلوبل ہنگر انڈیکس 2021ء میں 135 ممالک سے لیے گئے اعداد و شمار کی بنیاد پر 116 ممالک کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ بھارت کا نمبر 102 اور افغانستان کا 103 ہے۔ پاکستان کا نمبر 92 رہا جبکہ بنگلہ دیش اور نیپال کا نمبر 76 ہے۔ سری لنکا قدرے بہتر حالت میں‘ 65 ویں پوزیشن پر ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ لگ بھگ اسی خطے کا ہوتے ہوئے‘ خوراک کی رسد اور معیار یعنی غذائیت کے حوالے سے ایران 35 ویں پوزیشن پر ہے! بھارت میں غذا کے ساتھ ساتھ غذائیت کا مسئلہ بھی سنگین شکل اختیار کرچکا ہے۔ اگرچہ پاکستان میں بھی خوراک کا معاملہ بہت اچھا نہیں؛ تاہم بھارت میں معیاری خوراک کی قلت سے دوچار افراد کی تعداد پاکستانیوں کے مقابلے میں 6 گنا یعنی 600 فیصد ہے۔ بھارت کے مقابلے میں چین کی پوزیشن بہت اچھی ہے۔ وہ پہلے 18 ممالک میں شامل ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں پہلے 18 ممالک کو برابری کی پوزیشن دی گئی ہے۔ ان میں ترکی اور کویت بھی شامل ہیں۔ آبادی بھارت سے کہیں زیادہ ہونے پر بھی چینی قیادت اپنے باشندوں کیلئے معیاری خوراک کا اہتمام کرنے کے معاملے میں بھارت سے بہت آگے ہے۔ اب آئیے جنوبی ایشیا کی طرف! پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں خوراک کا معاملہ پریشان کن تو ہے مگر اتنا خطرناک نہیں کہ سبھی کچھ داؤ پر لگ جائے۔ افغانستان کی صورتحال زیادہ پریشان کن ہے۔ بنگلہ دیش اور نیپال کی حالت بہتر ہے مگر اتنی بھی نہیں کہ وہ بے فکر ہو رہیں۔ ہاں! ایران کا معاملہ ضرور غور طلب ہے۔ وہ متعدد سیاسی و معاشی الجھنوں کا شکار رہا ہے‘ اس کے باوجود ایرانی قیادت نے اپنی آبادی کے بڑے حصے کو خوراک کے معاملے میں قابلِ رشک حالت میں رکھنے پر توجہ دی ہے اور اس کوشش میں وہ بہت حد تک کامیاب رہی ہے۔
خوراک چونکہ انتہائی بنیادی معاملہ ہے اس لیے اُس کے بارے میں فکر مند ہونا انفرادی اور اجتماعی‘ دونوں ہی سطحوں پر لازم ہے۔ حکومتوں کے لیے بڑی الجھن فوڈ سکیورٹی یقینی بنانا ہے یعنی ہر موسم اور ہر طرح کی صورتحال میں لوگوں کو بنیادی خوراک آسانی سے میسر رہے۔ طاقتور اور مالدار حکومتیں اِس حوالے سے خاطر خواہ اقدامات کرتی ہیں۔ ترقی پذیر دنیا میں بھی اس حوالے سے سوچا جاتا ہے تاکہ عوام کو بے جا طور پر الجھنوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ پسماندہ ممالک کی حکومتیں فوڈ سکیورٹی کو خاطر خواہ اہمیت دینے کے لیے اب تک تیار نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اس حوالے سے سوچنے کا رجحان ہی پیدا نہیں ہوا۔ سری لنکا، نیپال، بنگلہ دیش، پاکستان، بھارت اور افغانستان کو اپنے ہی خطے میں موجود ایران سے بہت کچھ سیکھنا چاہیے۔ سوال صرف یہ نہیں کہ کوئی بھی قوم کیا کھارہی ہے‘ بلکہ اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ وہ کیسا کھارہی ہے۔ ایران میں لوگ سادہ خوراک پسند کرتے ہیں۔ وسطی ایشیا کے بیشتر ممالک کی طرح ایران میں بھی لوگ اُبلا ہوا، کم تیل‘ کم گھی‘ کم مرچ مسالے والا کھانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ یومیہ خوراک میں پھلوں کا تناسب بھی معقول ہے۔ بعض سبزیاں کچی کھائی جاسکتی ہیں اور کھائی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی دیہات میں بعض کچی سبزیاں یومیہ خوراک کا حصہ ہیں۔ ٹماٹر، مولی، گاجر، شلجم، چقندر اور دوسری بہت سی چیزوں کو سلاد کی شکل میں کھانے کا رواج ہے۔ شہروں میں معاملہ بہت مختلف ہے۔ چقندر جیسی میٹھی اور کچی حالت میں بھی آسانی سے ہضم ہو جانے والی سبزی کو پکانے کی روایت ہے۔ ایران اور وسطی ایشیا کی ریاستوں میں لوگ گوشت خوری کے عادی نہیں۔ نمک‘ مرچ اور گرم مسالوں کا استعمال بھی محدود ہے۔ یہی سبب ہے کہ صحتِ عامہ کا معیار خاصا بلند ہے۔ پاکستان اور بھارت میں کھانے پینے کی روایات اب بھی خاصی خرچیلی اور مضر ہیں۔ لوگ محض بسیار خور نہیں بلکہ زود خور بھی ہیں۔ ضرورت ''خوب خوری‘‘ کی ہے یعنی اِتنا اور ایسا کھایا جائے کہ جسم بہتر حالت میں رہے، مطلوب توانائی بھی ملے اور گھر کا بجٹ بھی متاثر نہ ہو۔ دنیا بھر میں لوگ بالعموم ناشتہ بھرپور کرتے ہیں، دن کے اوقات میں کچھ کھانے سے گریز کرتے ہیں اور شام کو ڈٹ کر کھاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ناشہ بھی بھرپور کیا جاتا ہے اور پھر دن کے ڈیڑھ دو بجے کھانا بھی ڈٹ کر کھایا جاتا ہے۔ اِسی طور رات کا کھانا بھی سیر ہوکر کھایا جاتا ہے۔ اِس خطے میں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ہمیں دنیا میں کھانے پینے کیلئے ہی بھیجا گیا ہے۔ کھانا اس لیے ہوتا ہے کہ ہمیں زندہ رکھ سکے‘ یہاں حال یہ ہے کہ ہم اس لیے زندہ ہیں کہ کھاتے رہیں۔ اس روش پر گامزن رہنے کا یہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ ہر گھرانے کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ کھانے پینے کے اخراجات پر صرف ہو جاتا ہے۔ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں لوگوں کیلئے لازم ہوچکا ہے کہ کھانے پینے کے معاملات میں نئی سوچ اپنائیں۔ سوچ سمجھ کر صرف وہ چیزیں کھائی جائیں جو معیاری بھی ہوں یعنی توانائی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ جسم کو درست حالت میں رکھیں اور گھر کے بجٹ پر منفی اثرات بھی مرتب نہ کریں۔ اس حوالے سے حکومت کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہے تاکہ کم از کم ایک بنیادی مسئلہ تو حل ہو اور لوگ فوڈ سکیورٹی سے متعلق پریشانی سے نجات پائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں