"MIK" (space) message & send to 7575

اثبات و امکان

سخت نامساعد حالات میں جب کوئی کسی سے ملتا ہے تو اِس بات کی توقع رکھتا ہے کہ کوئی نہ کوئی ایسی بات ضرور سُننے کو ملے گی جس سے دل بستگی ہوگی، حوصلہ ملے گا۔ یہ توقع کچھ ایسی غیر ضروری اور بے بنیاد بھی نہیں۔ ہر طبقے کا انسان توقع یا امید ہی کے سہارے جیتا ہے۔ جن کے اندر توقع یا امید مرگئی ہو وہ خود بھی پریشان رہتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی پریشانی کا سامان کرتے ہیں۔ اِس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اُمید سے محروم ہو جانے کی حالت انسان کو خود کشی کی طرف لے جاتی ہے۔ ہمارا معاشرہ اس وقت سخت نامساعد حالات سے دوچار ہے۔ لوگوں کی پریشانی کا گراف بلند تر ہوتا جارہا ہے۔ حوصلہ ہار بیٹھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ماحول ہی کچھ ایسا ہے کہ دل و دماغ شکستگی اور شکست خوردگی سے دوچار ہیں۔ ایسی باتیں کم ہی سُنائی دے رہی ہیں جن سے دل حوصلہ اور تقویت پائیں۔ پریشانی اور بدحواسی میں اضافہ کرنے ایک کلیدی عامل ہے ہر وقت دُکھڑے روتے رہنے کی عادت۔ لوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ پریشانی کو ہر وقت بیان کرتے رہنے سے مسائل حل ہوجائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے مسائل کا رونا ہر وقت روتے رہنے سے وہ مزید توانا ہو جاتے ہیں اور پھر اُن کا حل تلاش کرنے خاصا مشکل ہوتا چلا جاتا ہے۔
یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ مختلف النوع مسائل کا سامنا کرنے کے حوالے سے ہم انوکھے نہیں۔ آج دنیا بھر کے معاشرے شدید نوعیت کی الجھنوں سے دوچار ہیں۔ سوال صرف مادّی مشکلات کا نہیں ہے۔ ذہنی اور روحانی مشکلات بھی تو ہیں۔ اگر کوئی معاشرہ مادّی اعتبار سے ترقی یقینی بنانے میں کامیاب ہو جائے تو کسی اور حوالے سے اُس میں کھوکھلا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ کھوکھلا پن بسا اوقات مادّی ترقی کے فوائد سے بھی بہرہ مند نہیں ہونے دیتا۔ مغرب کی مثال ہمارے سامنے ہے جس نے ہر طرح کی مادّی ترقی کو یقینی بنانے کے نام پر اپنی روح کو زخمی کرلیا ہے۔ آج مغربی معاشرے میں دنیا ہی سب کچھ ہے۔ سوال صرف رب کے وجود سے انکار کا نہیں۔ روحانی و اخلاقی اقدار کا بھی انکار کردیا گیا ہے۔ اِس کے نتیجے میں دوسروں کا دکھ محسوس کرنے کا وصف بھی جاتا رہا۔ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اب زندگی صرف اپنی ذات تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ شخصی آزادی کے حوالے سے حد سے بڑھی ہوئی سوچ ایسے ہی گُل کھلاتی ہے۔ ہمارے معاشرے شدید الجھن کی حالت میں ہیں۔ مغربی معاشروں نے اور کچھ نہ سہی، مادّی ترقی تو یقینی بنالی ہے۔ ہمارے ہاں اب تک یہ بھی نہیں ہوسکا۔ ہم اُس مقام پر کھڑے ہیں جہاں سے کئی راستے نکلتے ہیں اور ہم ہر راستے پر چلنے کے خواہش مند ہیں۔ ایسا کبھی ہوسکا ہے نہ ہوگا۔ ہاں! ایسی کوشش کے انجام کے طور پر ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔
سخت مشکل صورتحال سے دوچار ہونے پر جب کوئی کسی کے پاس جاتا ہے تو ڈھارس بندھانے والی بات سُننے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں پڑھنے والے کم رہ گئے ہیں۔ باقاعدگی سے پڑھنے والے تو اور بھی کم ہیں۔ پڑھنے والوں میں بھی واضح اکثریت اُن کی ہے جو زندگی کے مختلف النوع مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ وہ اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے مختلف طریقے آزماتے ہیں۔ پڑھنا بھی ایک ایسا ہی طریقہ ہے۔ کوئی بھی لکھاری کسی بھی مسئلے کا حل براہِ راست تو نہیں بتاسکتا مگر ہاں! وہ تھوڑی کوشش کرے اور اپنے فکر کی سمت درست رکھے تو بہت کچھ کرسکتا ہے، بہت سے دلوں کی ڈھارس بندھا سکتا ہے۔ ایک اچھے لکھاری کو اصلاً تو یہی کرنا چاہیے۔ فی زمانہ کوئی شخص کسی کو پڑھتا ہے تو مقصود محض وقت گزارنا نہیں ہوتا۔ وقت گزارنے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔ سوشل میڈیا ہی کو لیجیے جو اپنے صارف کے کئی گھنٹے یوں ضائع کرتا ہے کہ دیکھتے بنتی ہے۔ ایسے میں کوئی بھی شخص محض وقت گزارنے کے لیے پڑھنے کی طرف کیوں مائل ہوگا؟ آج لکھنے والوں کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ معاشرے میں ہر طرف شدید منفی رجحانات کا چلن ہے۔ سوچ روز بروز منفی سے منفی تر ہوتی جارہی ہے۔ کوئی اس حقیقت کو تسلیم کرے یا نہ کرے، آج کا پاکستانی معاشرہ شدید منفی رجحانات کی زد میں ہے۔ ایسے میں حوصلے پست ہوتے جارہے ہیں۔ نئی نسل میں بالعموم بہت کچھ کر گزرنے کا عزم ہوتا ہے اور طاقت بھی۔ پاکستان کی نئی نسل بے سَمت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ منفی رجحانات کی حامل بھی۔ پڑھنے کا رجحان بہت کم رہ گیا ہے اور نئی نسل میں تو یہ رجحان اور بھی کم ہے۔ ایسے میں لکھنے والوں کی ایک بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ قارئین میں فکر و عمل کی روح پھونکنے کی بھرپور کوشش کریں۔ ہماری نئی نسل کو مثبت سوچ کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ لکھنے والا خود بھی حوصلہ مند ہو اور دوسروں کے حوصلے بلند رکھنے میں معاونت کی ذہنیت بھی رکھتا ہو تو اِسے اللہ کا کرم سمجھیے۔ ایسی حالت میں تیار ہونے والی ہر تحریر حوصلہ دے گی، ڈھارس بندھائے گی۔
کسی بھی معاشرے کو پروان چڑھانے میں سب سے بڑا کردار مثبت سوچ کا ہوتا ہے۔ مثبت سوچ خود بخود نہیں پنپتی۔ اِسے پروان چڑھانا پڑتا ہے۔ مغربی دنیا کو ڈھائی‘ تین صدیوں کے دوران ایسے سینکڑوں مفکرین و مصنفین ملے ہیں جو مثبت سوچ کے حامل تھے اور اپنے پڑھنے والوں کو بھی مثبت طرزِ فکر کا حامل دیکھنے کے متمنی تھے۔ کہانیوں، ناولوں اور مضامین کی شکل میں انہوں نے معاشرے کی ذہنی تربیت کی۔ آپ بیتیوں نے بھی مثبت سوچ کو پروان چڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ان مفکرین و مصنفین نے معاشرے میں پڑھنے کا رجحان نہ صرف یہ کہ زندہ رکھا بلکہ پروان بھی چڑھایا۔ اُنہوں نے وہ سب کچھ دیا جس کی معاشرے کو اشد ضرورت تھی۔ اِس کے نتیجے میں لوگ بھی اُن کی طرف متوجہ رہے۔ آج کے ہمارے معاشرے کو بھی ایسے لکھنے والوں کی اشد ضرورت ہے جو اپنے پڑھنے والوں میں مثبت سوچ پروان چڑھائیں۔ لکھنے والوں کی اکثریت محض تجزیہ کرتی ہے اور قارئین کو کسی بھی موڑ پر چھوڑ کر اچانک غائب ہو جاتی ہے۔ بیشتر تحریروں کا یہ حال ہے کہ قارئین پڑھنے کے بعد سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ مصنف آخر چاہتا کیا ہے۔ جن کی اپنی کوئی واضح سمت نہ ہو وہ کیونکر راہ دکھا سکتے ہیں؟ بیشتر لکھنے والوں کا بھی یہی حال ہے۔ وہ خاصے چیختے چنگھاڑتے انداز سے لکھتے ہیں مگر قارئین کو بھول بھلیوں میں چھوڑ کر چل دیتے ہیں۔ یہ روش بالکل غلط ہے۔ کسی بھی تحریر کا بنیادی مقصد راہ نمائی ہے۔ اگر لکھنے والا کسی مسئلے کا حل تجویز نہیں کرسکتا یا قارئین کو کسی حل کی طرف بڑھنے کی تحریک نہیں دے سکتا تو پھر اُسے لکھنا ہی نہیں چاہیے۔ ہمارے ہاں ناول بھی لکھے گئے ہیں اور کہانیاں لکھنے والوں کی بھی کمی کبھی نہیں رہی۔ ناول آج بھی لکھے جارہے ہیں مگر اُن میں سے بیشتر کا حال یہ ہے کہ پلپلا پن چھپائے نہیں چھپتا۔ سطحی نوعیت کے موضوعات پر لکھنے سے فائدہ؟ عشق و محبت اور گل و بلبل کی داستانیں سُنانے سے معاشرے کو کیا ملے گا؟ شخصی یا انفرادی محبت کے معاملات کو بھی اِتنے بودے انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ پڑھنے والے خود کو مختلف حوالوں سے احساسِ جرم کے دائرے میں پاتے ہیں۔ سطحی ٹی وی ڈراموں کا لچر پن اب افسانوں اور ناولوں میں در آیا ہے۔ ناول بہت بڑی اور خاصی مفید صنفِ ادب ہے۔ کئی معاشروں میں ناولوں نے وسیع البنیادی اصلاح اور انقلاب کی راہ ہموار کی ہے۔ ایسی مفید صنف کو ہمارے ہاں بالکل سطحی قسم کے موضوعات پر ضائع کیا جارہا ہے۔ اِسے بھی ایک طرح کا قومی زیاں ہی گردانیے۔
آج کے پاکستانی لکھاریوں کو اپنی پسند و ناپسند ایک طرف رکھتے ہوئے معاشرے کی ضرورت کا احساس کرنا ہے۔ لوگ الجھے ہوئے ہیں۔ انہیں مثبت سوچ سرکار ہے۔ جو کچھ وہ نہیں کرسکتے وہ تو انہیں اچھی طرح معلوم ہے۔ جو کچھ کیا جاسکتا ہے‘ اُس کے بارے میں بتانے کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں