پاکستان ایسے محلِ وقوع کا حامل ہے جس کی تمنا کی جاتی ہے اور جسے رشک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ ہم ایک طرف وسطی ایشیا کے لیے مرکزی دروازے کا درجہ رکھتے ہیں اور دوسری طرف چین کے لیے بہترین راہداری ہیں۔ ہم متمول عرب دنیا سے بھی زیادہ دور نہیں۔ کم و بیش چار عشروں کے دوران خلیج کو مضبوط تر بنانے کے لیے کراچی سمیت پورے پاکستان کو کمزور رکھنے پر خاصی توجہ دی گئی اور یہ حقیقت اب کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یو اے ای کی جان دبئی میں ہے اور دبئی اب ''پک‘‘ چکا ہے یعنی اُس میں مزید پنپنے کی زیادہ گنجائش نہیں۔ دبئی کو ہر دور میں پورے خطے کے لیے سب سے زیادہ پُرتعیش مقام کا درجہ حاصل رہا ہے۔ جو لوگ شاندار طرزِ رہائش یقینی بنانے کے لیے یورپ نہیں جاسکتے تھے وہ یو اے ای کا رخ کرکے اپنا دل بہلا لیا کرتے تھے۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ سلسلہ پھیلتا ہی گیا۔ دبئی میں چونکہ saturation point آچکا ہے اِس لیے اب کراچی پر توجہ دینے کی گنجائش پیدا ہوئی ہے۔ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کی نظر کراچی پر ہے۔ کراچی ایک حقیقی بین الاقوامی شہر کا درجہ پاسکتا ہے مگر یہ سب کچھ خود بخود نہیں ہوگا بلکہ منصوبہ سازی کے ذریعے ممکن ہے۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ ضرورت عزمِ محکم کی ہے۔ اہلِ اقتدار کو پوری سنجیدگی کے ساتھ کراچی کے حوالے سے کچھ سوچنا ہے تاکہ یہ شہر فی الواقع ملک کے لیے سونے کی کان ثابت ہو۔
خطے میں بہت کچھ بدل رہا ہے۔ ایک طرف ہم چین کی ضرورت ہیں، دوسری طرف بھارت بھی مخمصے کی حالت میں ہے۔ وہاں اندرونی سیاست نے پورے ملک کا سماجی نظام بگاڑ دیا ہے۔ انتہا پسندی بدمست ہاتھی کی سی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ بھارت نے افغانستان کے معاملے میں بھی منہ کی کھائی ہے۔ بھارتی قیادت کو مختلف حوالوں سے دباؤ میں لینے کا یہ بہترین وقت ہے مگر اس کے لیے پہلے خود مستحکم ہونا لازم ہے۔ ہماری قیادت کو اس سنہرے موقع سے فائدہ اٹھانے کو ہر حال میں اولین ترجیح دینا ہو گی۔ سیاسی بے چینی اور غیر یقینی کی کیفیت نے ملک کو عجیب خلجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ مہنگائی کی لہر ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ اشیائے خور و نوش کا معاملہ انتہائی خطرناک شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ ملک عملاً ہر شعبے کے مافیا کے ہاتھوں میں ہے۔ حکومت کی عملداری روز بروز کمزور پڑتی جارہی ہے۔ جب تک یہ سب کچھ ہے‘ ہم خطے میں کوئی بڑا یا اہم کردار ادا کرنے کے بارے میں سوچ بھی کیسے سکتے ہیں؟
جنوبی ایشیا میں بھی بہت کچھ تیزی سے بدل رہا ہے۔ افغانستان کی بدلی ہوئی صورتِ حال نے وسطِ ایشیا تک الجھنیں پیدا کردی ہیں۔ روس کے لیے بھی اپنے کردار پر نظرِ ثانی کرنا لازم ہوگیا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وسطی ایشیا میں اُس کا قائدانہ کردار متاثر نہ ہو۔ ساتھ ہی ساتھ وہ بحیرۂ بالٹک کے خطے میں بھی اپنی قائدانہ حیثیت برقرار رکھنے کا خواہشمند ہے۔ افغانستان میں حقیقی امن و استحکام کا قیام یقینی بنانے کی خاطر جو کوششیں کی جارہی ہیں اُن میں روس خوب حصہ لے رہا ہے۔ چین کے لیے جنوبی ایشیا کبھی ایسا خطہ نہیں رہا جسے نظر انداز کردیا جائے۔ آج بھی چینی قیادت پاکستان کو جنوبی ایشیا میں اپنا سب سے بڑا حلیف مانتی ہے اور اس حوالے سے جو کچھ بھی کیا جاسکتا ہے‘ وہ کرنے کو تیار ہے۔ چین نے بہت سے سفارتی مناقشوں میں کھل کر پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ خطے میں امریکی اثر و رسوخ محدود کرنے کی چینی کوششیں بھی بہت حد تک بارآور ثابت ہوتی جارہی ہیں۔ بھارتی قیادت بھی اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ چین کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ بھارت کی علاقائی پوزیشن کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ وہ امریکا کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہے مگر امریکا کے لیے اب تمام معاملات میں بھارت کا کھل کر ساتھ دینا ممکن نہیں رہا۔ ایک طرف یو اے ای میں مزید نمو کی گنجائش کا نہ ہونا اور دوسری طرف جنوبی ایشیا میں مجموعی طور پر دگرگوں صورتِ حال‘ ایسے میں پاکستان حالات کی زد میں ہونے کے باوجود اپنے لیے بہت کچھ کرسکتا ہے۔ چین اُس کے ساتھ ہے۔ امریکا اب جنوبی ایشیا میں زیادہ کچھ نہیں کرنا چاہتا۔ سفارتی اور سٹریٹیجک معاملات میں ٹائمنگ بہت اہمیت رکھتی ہے۔ ہمیں یہ اہمیت سمجھنی ہے۔
جنوبی ایشیا میں بہت سے معاملات کی نوعیت وہ نہیں رہی جو اب تک دکھائی دی۔ ہر ملک کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں جو بدلتی رہتی ہیں اور بدلتی ترجیحات کے تناظر میں پالیسیاں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی دوبارہ آمد یعنی حکومت سازی خطے کے بہت سے ممالک کے ارمانوں پر پانی پھیرنے والی حقیقت ہے۔ بھارت نے اس معاملے میں بہت کچھ کھویا ہے۔ بہت کوشش کے باوجود وہ افغانستان میں اپنے لیے سٹریٹیجک ڈیپتھ پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ اُس کی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ طالبان نے اب تک نرمی کا مظاہرہ کیا ہے اور بھارتی قیادت کو بھی خیرسگالی کے اشارے دیے ہیں مگر بھارتی قیادت اچھی طرح جانتی ہے کہ اب افغانستان میں اُس کی دال گلنے والی نہیں۔ پاکستانی بیرونی دباؤ کی زد میں ہے اور اندرونی سطح پر بھی کچھ زیادہ اچھا دکھائی نہیں دے رہا۔ سیاسی جماعتیں اب تک باہم دست و گریباں ہیں۔ ملک شدید مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔ عام آدمی کا جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ ملک کو معیاری افرادی قوت کی ضرورت ہے جس کی فراہمی ممکن بنانے میں اب تک کامیابی حاصل نہیں ہو پارہی۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ سوچا جائے۔ ایوان ہائے اقتدار میں بیٹھے ہوئے بزرجمہروں کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق جامع حکمتِ عملی تیار کرنا ہے تاکہ ملک کو بحرانوں کی دلدل سے نکالا جاسکے۔ خطے میں جو نئی حقیقتیں ابھر رہی ہیں اُن کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا لازم ہے۔ اور معاملہ محض جاننے تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ تفہیم کی منزل تک بھی پہنچنا چاہیے۔ ہماری ہر پالیسی اور حکمتِ عملی حالات کے مطابق ہونی چاہیے۔ یہ سب کچھ صرف اُس وقت ممکن ہے جب ہم اندرونی طور پر مستحکم ہوں۔ اندرونی بحرانوں کے ہوتے ہوئے بیرونی محاذ پر زیادہ کامیابی کا سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ سوال صرف جنوبی ایشیا میں بدلتی ہوئی حقیقتوں کا نہیں بلکہ پوری دنیا میں بدلتے ہوئے حالات و معاملات کا ہے۔ ہر خطہ غیر معمولی تبدیلیوں کی لپیٹ میں ہے۔ قومی سطح پر ترجیحات بدل رہی ہیں۔ سٹریٹیجک ڈائنامکس بھی کچھ کی کچھ ہوتی جارہی ہیں۔ امریکا نے وار تھیٹر تبدیل کرنے کی ٹھان لی ہے۔ جنوبی ایشیا سے توجہ ہٹاکر اب وہ چین کی راہ روکنے کی خاطر اوشیانا کی طرف متوجہ ہو رہا ہے۔ آسٹریلیا، برطانیہ، بھارت اور جاپان کے ساتھ مل کر اُس نے دو اتحاد تشکیل دیئے ہیں جو QUAD اور AUKUS کے نام سے معروف ہیں۔ ایسا نہیں کہ جنوبی ایشیا پر سے توجہ ہٹالینے سے امریکا جو کچھ کرے گا وہ اِس خطے پر اثر انداز نہیں ہوگا۔ اوشیانا یعنی بحرالکاہل کے ایشیائی خطے میں جو کچھ ہوگا وہ پاکستان، بھارت اور خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی شدید مشکلات پیدا کرنے کا باعث ہوسکتا ہے۔
افغانستان سے جان چھڑانے کے بعد امریکا نے کھل کر چین کے مقابل آنے کی ٹھانی ہے۔ یہ مناقشہ ایک کمزور پڑتی ہوئی طاقت اور ایک ابھرتی ہوئی طاقت کے مابین ہے۔ مغرب کے ثقافتی اثرات غیر معمولی ہیں۔ اس معاملے میں چین خاصا کمزور ہے مگر اُس نے معاشی قوت کی بدولت عسکری قوت بھی بڑھالی ہے۔ اب وہ سفارتی اور سٹریٹیجک معاملات میں اپنی بات منوانے کی راہ پر گامزن ہے۔ ایسے میں امریکا کے لیے ناگزیر ہوگیا ہے کہ اپنی ساکھ بچانے کے لیے اُس کی راہ میں مزاحم ہو۔ اگر امریکا میدان کھلا چھوڑ دے گا تو اُس کی کمزور پڑتی ہوئی ساکھ زیادہ تیزی سے کمزور ہوتی جائے گی۔ پاکستان کو جنوبی ایشیا اور اوشیانا کے بدلتے ہوئے معاملات پر نظر رکھتے ہوئے اپنے لیے جامع اور متوازن حکمتِ عملی تیار کرنا ہے۔ اس معاملے میں کوتاہی اور تاخیر‘ دونوں کی گنجائش نہیں۔ پالیسی میکرز کو طے کرنا ہے کہ ملک کس طرف جائے گا اور بدلتے ہوئے حالات سے ہم کس حد تک فائدہ اٹھاسکیں گے۔