ہم پر محض سات دہائیوں میں کئی ادوار گزر چکے ہیں اور اِس دوران دل و دماغ پر خدا جانے کیا کیا گزر چکی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ملک میں بنیادی سہولتیں بنیادی مسئلہ نہیں تھیں۔ بجلی نہ صرف یہ کہ ہوا کرتی تھی بلکہ جھٹکے بھی دیا کرتی تھی۔ اب بجلی کم ہے اور اُس کے نرخوں سے لگنے والے جھٹکے زیادہ! کچھ ایسا ہی معاملہ اب پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں کا ہوگیا ہے۔ ایک زمانے سے سُنتے آئے تھے کہ پٹرولیم مصنوعات آتش گیر ہوتی ہیں مگر اب معلوم ہوا کہ پٹرولیم مصنوعات سے زیادہ آتش گیر تو اُن کے نرخ ہیں! اور آگ بھی یہ ایسی لگاتے ہیں ع
کہ لگاتے ہی لگے اور بجھائے نہ بنے
حالت یہ ہے کہ جب موٹر سائیکل یا گاڑی میں ایندھن ختم ہو جائے تو فلنگ سٹیشن کی طرف بڑھتے ہوئے دل و دماغ میں شدید تپش محسوس ہونے لگتی ہے! پٹرول کے بڑھتے ہوئے نرخوں نے موٹر سائیکل چلانے والوں کو اچھا خاصا ''سائیکولوجیکل‘‘ بنادیا ہے یعنی جیب پر پڑنے والے بوجھ کے باعث وہ دوبارہ سائیکل کا آپشن اختیار کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں!
مرزا تنقید بیگ ہمارے اُن احباب میں ہیں جنہوں نے طے کرلیا ہے کہ جو کچھ باقی سب سوچ رہے ہیں وہ نہیں سوچنا اور اُن کی مخالفت بھی خوب کرنی ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ موٹر سائیکل سے سائیکل پر آنا تنزل نہیں بلکہ کسی حد تک ترقی کی علامت ہے! ہم اُن کی یہ بات سُن کر ذرا بھی حیران نہیں ہوئے کیونکہ مرزا مارکیٹنگ کا ہنر جانتے ہیں اور عموماً ایسی (اوٹ پٹانگ) باتیں کرتے ہیں جنہیں سُن کر لوگ خواہ مخواہ متوجہ ہوں! ایک زمانے سے ہم دیکھتے آئے ہیں کہ مجمع سوگواروں کا ہو یا کہیں باراتی جمع ہوں‘ مرزا اپنی مرضی کا راگ الاپتے ہیں اور بالعموم لوگوں کی توجہ پانے میں کامیاب رہتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے، زمانہ ہی کچھ ایسا ہے کہ لوگ ہر اوٹ پٹانگ بات کو توجہ سے سُنتے ہیں۔ مرزا کی بات سُن کر آپ بھی ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ موٹر سائیکل سے سائیکل پر آنے میں ترقی کا کون سا راز یا اشارا چھپا ہوا ہے۔
مرزا کا استدلال ہے ''چین سمیت کم وبیش تمام ہی ترقی یافتہ ممالک میں کروڑوں افراد باقاعدگی سے سائیکل چلاتے ہیں۔ یورپ کے ترقی یافتہ ممالک میں لوگ چھوٹے فاصلوں کے لیے سائیکل کے استعمال کو ترجیح دیتے ہیں۔ دور کیوں جائیے‘ بھارت ہی کو دیکھیے کہ کئی حکومتیں ری سائیکل ہوگئی ہیں مگر مگر لوگ آج تک سائیکل کو اپنے سے جُدا نہیں کر پائے‘‘۔ ہم نے عرض کیا کہ روز افزوں مہنگائی کے زمانے میں حکومت پٹرولیم کے نرخ بڑھاکر ہماری موٹر سائیکلوں کو ناکارہ بنانے اور ہمیں ''ری سائیکل‘‘ کرنے یعنی دوبارہ سائیکل کے زمانے میں بھیجنے پر تُلی ہوئی ہے اور آپ اِس اقدام کو ترقی کی علامت گرداننے پر کمر بستہ ہیں۔ مرزا نے تو گویا دلیل بازی کا ٹِِھیا لگالیا ''ہماری تو بس عادت سی ہوگئی ہے کہ حکومت جو کچھ بھی کرے اُس میں صرف کیڑے ہی نکالنے ہیں۔ ہر مشکل میں کچھ آسانی بھی چھپی ہوتی ہے۔ ہر بحران کی کوکھ سے کوئی نہ کوئی سہولت بھی تو برآمد ہوتی ہے‘‘۔
ہم حیران ہوئے اور مثال چاہی تو مرزا نے خاصی شانِ بے بنازی سے سلسلۂ استدلال آگے بڑھایا ''غریبوں کی زندگی میں الجھنیں ہی الجھنیں ہیں۔ اُنہیں روزانہ دو تین وقت کے کھانے کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ حکومت کی مہربانی سے اشیائے خور و نوش کے دام اُس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ غربا ایک وقت کی روٹی کا بندوبست کرنے کو بھی کارنامہ سمجھنے لگے ہیں! کل کو لوگ اپنی آنے والی نسلوں کو بہادری کے ذیل میں شیر کے شکار کا قصہ سُنانے کے بجائے بہت فخر سے بتائیں گے کہ وہ اس دور میں بھی زندہ رہے! بہت سوں کا یہ حال ہے کہ ماہرینِ نفسیات سے مشورہ کر رہے ہیں کہ کچھ نہ کھانے پر بھی پیٹ کس طور بھرا بھرا محسوس کیا جائے! یہ گویا نفسی امور کے ماہرین کے لیے روزی روٹی کا نیا بندوبست ہوا‘‘۔
''ٹھیک ہی تو ہے۔ غریب بے چارے ہر وقت پیٹ بھرنے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انہیں ڈھنگ سے جینے کا وقت ہی نہیں مل پاتا۔ اچھا ہے کہ وہ صرف ایک وقت پیٹ بھرنے کا بندوبست کریں اور بچ رہنے والا وقت جدید علوم و فنون کے سیکھنے اور کائنات کے بارے میں غور و خوض میں صرف کریں! اب اگر کوئی خواہ مخواہ دو یا تین وقت پیٹ بھرنے کا سوچے تو یہ اِسے ذہن کی کجی کہیے‘‘۔ ہم نے عرض کیا اگر یہی حال رہا تو لوگ ایک وقت کی روٹی کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیں گے! مرزا بولے ''یہ بھی حکومت کی مہربانی ہی ہوگی۔ روحانیت کا ایک بلند درجہ یہ بھی ہے کہ انسان پیٹ بھرنے کی سوچ سے بہت حد تک آزاد ہو جائے۔ حکومت ہمارے لیے بلند روحانی درجات کا اہتمام کرنا چاہتی ہے اور ہم ہیں کہ ناشکرے پن کا مظاہرہ کر رہے ہیں!‘‘
ہم نے عرض کیا محترم! یہ بھی مہنگائی ہی کا اعجاز ٹھہرا کہ لوگ خود کشی پر مجبور ہیں۔ جن کے گھروں میں چولھا نہیں جل پارہا وہ خود کو جلا کر زندگی کا اندھیرا دور کر رہے ہیں!
مرزا کب ماننے والے تھے (اور ہیں!)۔ جب وہ کسی کی بات نہ ماننے پر تُل جائیں تو اُن کے منہ سے دلائل کا سیلاب اُمڈنے لگتا ہے۔ حکومت کے دفاع پر مزید کمر بستہ ہوکر فرمایا ''چند عاقبت نا اندیش لوگوں نے حکومت کو اِس مغالطے میں مبتلا کردیا تھا کہ غربت بڑھانے سے غربت ختم ہو جایا کرتی ہے۔ حکومت کے ''اہلِ دانش‘‘ کو جلد اندازہ ہوگیا کہ یہ تو جاہلانہ روش ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ غریب مہنگائی کا خیال اپنے دل سے نکال دیں۔ اسی لیے اگر عوام پر مہنگائی کی چھڑی برس رہی ہیں تو دوسری جانب انہیں ریلیف کی گاجریں بھی متواتر میسر آ رہی ہیں۔ ویسے بھی یہ حکومت کی دور اندیشی ہی تھی کہ اس نے مہنگائی کے خطرے کے پیش نظر پہلے ہی پناہ گاہوں اور موبائل کچن منصوبوں کا آغاز کر دیا تھا تاکہ کوئی بھوکا نہ سوئے۔
مرزا سے بحث کرنا گویا کسی دیوار کو اپنی بات کا قائل کرنا ہے۔ وہ جب اپنی پر آتے ہیں تو کسی بھی غلط بات کو بالکل درست ثابت کرکے دم لیتے ہیں۔ مہنگائی میں ریکارڈ اضافے کو بھی جائز اور درست قرار دینے کے لیے اُن کے پاس سو دلائل ہوسکتے ہیں۔ کوئی کہاں تک دیوار سے سَر پھوڑے؟ ہمیں تو ڈر ہے کہ یہی حال رہا تو لوگ موٹر سائیکل تو کیا، سائیکل چلانے کے قابل بھی نہ رہیں گے اور سڑک چھاپ لیول پر آجائیں گے۔ اِس پر مرزا کہیں گے حکومت لوگوں کو پیدل چلنے کی تحریک دے رہی ہے تاکہ صحت کا عمومی معیار بلند رہے۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ اگر کسی کو مہنگائی کے ہاتھوں دشواری محسوس ہوتی ہو تو ذرا مرزا سے ملے۔ مرزا کو اِس بات کا ذرا بھی احساس نہیں کہ جب وہ اپنی کسی بھی (ظاہر ہے بے ڈھنگی!) بات کو درست ثابت کرنے کے لیے دلائل پر دلائل دیتے جاتے ہیں تو لوگ پورے وجود کو آگ کی لپٹوں میں گِھرا ہوا محسوس کرتے ہیں!
بہت عجیب وقت چل رہا ہے۔ کوئی بھی حکومت خواہ کچھ کرے، اُسے ہاں میں ہاں ملانے والے مل ہی جاتے ہیں۔ حکومت کے اچھے کاموں کو غلط قرار دینے کی روش بھی عام ہے۔ بالکل اِسی طور کچھ لوگوں کو بس ضِد سی ہوتی ہے کہ حکومت کے غلط کاموں کو بھی ہر حال میں اپنے جیسے تیسے دلائل کی مدد سے درست ثابت کرکے دم لیتے ہیں۔ مرزا کو اُسی قبیل سے سمجھیے۔ ہمیں نہیں معلوم اُنہیں ایسا کرنے کا کچھ معاوضہ ملتا ہے یا نہیں۔ ویسے مرزا جب اپنی پر آ جائیں تو معاوضے کے بغیر بھی کسی کے ہو جائیں اور اُس کے مخالفین کی وہ ذہنی حالت کردیں کہ پھر وہ کسی کام کا نہ رہے!