سندھ کا تھر اور پنجاب کا چولستان‘ ملک کے پس ماندہ ترین خطوں میں سے ہیں۔ تھر کا معاملہ زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ شدید خشک سالی کے سبب فصلیں کم ہوتی ہیں۔ یہاں قلت غذا کی بھی ہے اور غذائیت کی بھی۔ معاشی اور معاشرتی کمزوریاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ ایسے میں حکومت کی غیر معمولی توجہ ناگزیر ہے۔ تھر کے عوام کو شدید افلاس اور غذا و غذائیت کی قلت کے چنگل سے نکالنے کے لیے حکومتی سطح پر جو اقدامات کیے جاتے ہیں اُن کے خاطر خواہ نتائج بوجوہ برآمد نہیں ہو پاتے۔ حکومتی مشینری کی خامیاں اور کمزوریاں اپنی جگہ مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ تھر کے عوام کی اکثریت بیشتر بنیادی معاملات میں یا تو شعور سے نابلد ہے یا پھر شعور کی سطح بہت پست ہے۔ یہی سبب ہے کہ حکومتی اقدامات کی قبولیت کم ہے اور اُن کے مطابق کچھ کرنے کا عزم و ارادہ اور بھی کم۔
تھر میں بنیادی مسئلہ زچہ و بچہ کی ابتر حالت ہے۔ غذا اور غذائیت کی شدید کمی کے باعث خواتین خاصے کمزور بچوں کو جنم دیتی ہیں۔ ماؤں کی شدید کمزوری پیدائش سے قبل اور پیدائش کے بعد بچوں کی نشو و نما پر شدید اثر انداز ہوتی ہے۔ غذائیت کی کمی سے دوچار ماؤں کے بچے کمزور پیدا ہوتے ہیں اور اُن میں بہت سی خامیاں پیدائشی ہوتی ہیں مثلاً جسم کا کمزور رہ جانا اور خاص طور پر پست قامتی (سٹنٹنگ)۔ دودھ پلانے والی ماؤں کو خود بھرپور غذا نہیں مل پاتی اس لیے اُن کے بچے بھی غذائیت کی کمی سے دوچار رہتے ہیں۔ تھر کی خواتین اور اُن کے بچوں میں بہت سی خامیوں کا وجود حکومت کے لیے بھی تشویش کا باعث رہا ہے۔ پست قامتی اور غذائیت کی کمی دور کرنے کے لیے سندھ حکومت نے ایکسیلریٹیڈ ایکشن پلان ترتیب دیا ہے۔ سندھ کے جن 23 اضلاع میں بچے پست قامتی کا زیادہ شکار ہیں اُن میں اس پروگرام کے تحت 2021 کے آخر تک اس مسئلے کو 48 فیصد سے 30 فیصد کی سطح تک لانے کی تیاری کی گئی ہے۔ ویسے مجموعی طور پر یہ پروگرام سندھ کے 29 اضلاع میں شروع کیا جارہا ہے۔ اس پروگرام کے تحت متاثرہ خواتین کی بہبود یقینی بنانے کے لیے صحت، لائیو سٹاک، تعلیم، بہبودِ آبادی، زراعت، فشریز اور مقامی حکومت کے محکموں کو ہدف بنایا گیا ہے۔ تھر کی خواتین کے حالاتِ زندگی بہتر بنانے بالخصوص زچہ و بچہ کی صحت کا معیار بلند کرنے کے لیے صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں اور عالمی اداروں کے تحت کام کرنے والے گروپ بھی متحرک ہیں۔ عالمی بینک نے بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ عالمی بینک ہی کے تعاون سے صوبائی حکومت نے ''سندھ انہانسنگ رسپانس ٹو ریڈیوس سٹنٹنگ پروجیکٹ (ایس ایس آر آر ایس پی) کی داغ بیل ڈالی ہے۔ اس پروگرام کے تحت اُن علاقوں پر خصوصی توجہ دی جائے گی جہاں زچہ و بچہ‘ دونوں ہی غذائیت کی شدید کمی سے دوچار ہیں۔ معاشرت اور رویوں میں تبدیلی سے متعلق ابلاغ کی مہم (ایس بی سی پی) بھی اِسی سلسلے کی کڑی سمجھیے۔ مقصود یہ ہے کہ تھر میں صحتِ عامہ کے بنیادی مسائل سے دوچار خواتین کی بہبود کے لیے سوچ تبدیل کی جائے۔ ماؤں کے ساتھ ساتھ نوجوان لڑکیوں کو بھی بتایا جائے کہ بچوں کی صحت کے لیے ماں کا صحت مند ہونا کس حد تک لازم ہے۔ اگر زچہ ہی شدید الجھنوں کا شکار ہو تو بچہ کیونکر صحت مند اور خوش و خرم رہ سکتا ہے۔ وسائل کی قلت اپنی جگہ مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ سوچ تبدیل نہیں ہو پارہی۔ اس حوالے سے لوگوں میں زیادہ سے زیادہ شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ تھر میں غذائیت کی شدید کمی سے دوچار ماؤں اور اُن کے نوزائیدہ و کم سِن بچوں کے مسائل کے حل کے لیے جو کچھ کیا جانا ہے اُس میں متعلقہ گھرانے اور خاندان کے افراد، متعلقہ حکام، صحافیوں، لکھاریوں، اینکرز، سیاست دانوں، پالیسی میکرز، قانون سازوں، مخیر صاحبان اور غیر سرکاری تنظیموں کو بھی ریڈار پر رکھنا لازم ہے۔ اِن سب کی اجتماعی کوششیں ہی معاملات کو درستی کی طرف لے جاسکتی ہیں۔
بہت سے معاملات ہیں جن پر فی الفور متوجہ ہونا لازم ہے۔ تھر کے پس ماندہ ماحول میں پلنے والی خواتین اور اُن کے اہلِ خانہ بہت سے بے بنیاد اور سُنی سُنائی باتوں کو درست سمجھنے کے عادی ہیں۔ اس حوالے سے شکوک دور کرنے کی ضرورت ہے۔ صحتِ عامہ سے متعلق درست اور جامع رہنمائی کا حصول لازم ہے۔ زچگی سے قبل، دوران اور بعد میں بھی ماہرین سے مشاورت سے گریز کیا جاتا ہے۔ ملک کے دوسرے بہت سے حصوں کے دیہی ماحول کی طرح تھر میں بھی صنفی امتیاز نمایاں ہے۔ لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔ کبھی کبھی یہ معاملہ بہت شدت اختیار کرلیتا ہے مثلاً لڑکوں کو زیادہ کھانے کو ملتا ہے، لڑکیوں کو کم۔ لڑکوں کے لیے اچھے کپڑے بنائے جاتے ہیں، لڑکیوں کو جیسا تیسا لباس دینا کافی سمجھا جاتا ہے۔ سیر سپاٹے کے معاملے میں بھی لڑکیوں کو دوسری تو کیا تیسری، چوتھی ترجیح میں بھی نہیں رکھا جاتا۔ تھر کی خواتین کا ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ اعتماد کی کمی کے باعث سرکاری طبی خدمات سے خاطر خواہ حد تک مستفید نہیں ہو پاتیں۔ سرکاری مشینری کی غفلت سے اگر کسی معاملے میں کمی رہ جائے تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ پوری مشینری ہی کمزور ہے اور یہ کہ کسی پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے۔ کبھی کبھی ڈاکٹرز اور پیرا میڈکس کی عدم توجہ سے خواتین بددل ہوکر سرکاری طبی خدمات سے استفادہ ترک کردیتی ہیں۔ اس حوالے سے بدگمانیاں دور کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اِس روش کا حتمی نقصان تو آنے والی نسل کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔
بہت سے دور افتادہ علاقوں کی خواتین شدید افلاس کے باعث صحتِ عامہ کی سہولتوں سے بروقت مستفید نہیں ہو پاتیں کیونکہ اُنہیں کلینک یا ہسپتال تک لانے میں خاصی تاخیر ہو جاتی ہے۔ اس کا ایک آسان حل یہ ہے کہ کم و بیش تمام علاقوں میں زچہ و بچہ سے متعلق بنیادی طبی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اس حوالے سے کام کرنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ نوزائیدہ بچوں کی صحت کا گراف بلند کرنے کے لیے لازم ہے کہ ماؤں کو اچھی طرح معلوم ہو کہ وہ معیاری کھانا کیسے تیار کرسکتی ہیں۔ خوراک کے شعبے میں ممکن بنائی جانے والی پیشرفت سے انہیں آگاہ کرنا بھی لازم ٹھہرا۔ حکومتی کوششیں اپنی جگہ مگر عوام کو بھی اپنے حصے کا کام کرنا ہے یعنی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بہبود یقینی بنانا ہے۔ جہاں خواتین غذائیت کی شدید کمی کا شکار ہوں وہاں پیدائش میں وقفہ لازم ہے۔ کمزور جسمانی حالت میں ماں بننا بچے کی نشو و نما کے حوالے سے بہت سے مسائل پیدا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں ضبطِ تولید کے طریقوں سے متعلق پائی جانے والی بدگمانیاں بھی دور کی جانی چاہئیں۔ بسا اوقات اولادِ نرینہ کی شدید خواہش کے زیر اثر خواتین کو معقول وقفے کے بغیر زچگی کے مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ زچہ و بچہ دونوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ تھر کی خواتین کو صفائی کے حوالے سے بنیادی نکات سمجھانا بھی اشد ضروری ہے۔ ہاتھوں کی صفائی، صاف ستھرے بیت الخلا کی موجودگی، صاف پانی کی معقول فراہمی اور پانی ذخیرہ کرنے سے متعلق ہدایات کے بارے میں بنیادی امور کا خاصی تفصیل سے بتایا جانا لازم ہے۔ غذائیت کی کمی کا حتمی تدارک معیاری خوراک سے ممکن ہے۔ خواتین کو معلوم ہونا چاہیے کہ کس طور کھانا پکانے سے غذائیت زیادہ ملتی ہے۔ علاوہ ازیں فصلوں پر چھڑکی جانے والی کیڑے مار دواؤں کے مابعد اثرات سے انہیں آگاہ کرنا بھی لازم ہے۔
یہ نکتہ بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ دیہی ماحول میں ماں بننے کے مرحلے سے گزرنے والی ماؤں کو بھی باہر یعنی کھیتوں میں کام کرنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے تاکہ ایسی خواتین پر کام کا زیادہ بوجھ نہ پڑے۔ تھر میں آنے والی نسل کو پیدائشی خامیوں سے بچانے کے لیے ان تمام امور کا خیال رکھنا لازم ہے اور ایسا نہ کرنے کا خمیازہ بالآخر بچوں ہی کو بھگتنا پڑے گا جو جسمانی کمزوری کے ساتھ ساتھ ذہنی استعداد کی کمی پر بھی مشتمل ہوسکتا ہے۔