"MIK" (space) message & send to 7575

یہ پنجرہ توڑنا پڑے گا

ملک مسائلستان میں تبدیل ہوچکا ہے۔ معاشرے میں ہر طرف شکست و ریخت دکھائی دے رہی ہے۔ سب سے زیادہ ٹوٹ پھوٹ حوصلوں میں ہوئی ہے۔ کسی بھی لشکر کی حقیقی شکست اُس وقت شروع ہوتی ہے جب اُس کا مورال گرنے لگتا ہے۔ ہمارا معاملہ بھی مورال گرنے کا ہے۔ ڈھنگ سے جینے کی ہرکوشش دھیرے دھیرے دم توڑتی جارہی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہم نے حقیقی معرکہ آرائی سے قبل اور اپنی فتح کے امکانات کا جائزہ لینے سے پہلے ہی شکست تسلیم کرلی ہے۔ کیا واقعی ہمارا معاشرہ اُتنی ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے جتنی ہمیں دکھائی دے رہی ہے؟ کیا واقعی معاملات و حالات اِتنے بگڑ چکے ہیں کہ اب کسی بھی صورت اصلاحِ احوال ممکن نہیں؟ کیا واقعی ایسا ہے کہ اب ہم اپنے لیے ڈھنگ سے جینے کا سامان نہیں کر سکتے؟ ان تمام سوالوں کا جواب ملا جُلا ہے مگر ایک بات طے ہے کہ معاملات اُس مقام تک ہرگز نہیں پہنچے جہاں انسان ہمت ہار کر ایک طرف بیٹھ رہے اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر حالات و معاملات کے خود بخود درست ہونے کا انتظار کرے۔ ہر طرف مشکلات دکھائی دے رہی ہیں اور محض دکھائی نہیں دے رہیں بلکہ حقیقی وجود رکھتی ہیں اور ہم پر اثر انداز بھی ہو رہی ہیں۔ جو کچھ ہمیں دکھائی دے رہا ہے وہ قدم قدم پر حوصلہ شکنی کا باعث بن رہا ہے۔ ایسے میں حواس باختہ ہونا فطری امر ہے۔ جب انسان حواس باختہ ہو تو سمجھنے اور سوچنے کی صلاحیت بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔ پاکستانی معاشرہ بھی اس وقت حواس باختہ ہے اس لیے ڈھنگ سے سمجھنا اور سوچنا اُس کے بس کی بات نہیں۔ مگر کوئی نہ گمان نہ کرے کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ حواس باختہ ہوکر جینے کا مرحلہ ہر انسان اور ہر معاشرے کے مقدر میں لکھا ہوتا ہے۔ معاملات کی کچھ خرابی تو ہماری اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہوتی ہے اور کچھ قدرت کی طرف سے بھی آزمائش ہوتی ہے۔ ہاں! اپنی کوتاہیوں کے نتیجے اور آزمائش کے طور پر وارد ہونے والی پریشانی میں فرق کرنے کے لیے دیدۂ بینا کا ہونا لازم ہے۔ جس مرحلے سے ہم گزر رہے ہیں اُسی سے یا ویسے ہی مرحلے سے‘ دوسرے بہت سے معاشرے بھی گزرتے رہے ہیں۔ ایسے معاشرے دنیا کے ہر خطے میں ہیں۔ افریقہ کی مثال بہت نمایاں ہے کیونکہ اِس خطے نے پسماندگی کو مقدر سمجھ کر یوں قبول کر لیا کہ اب اُن کے ابھرنے کی کوئی سبیل دکھائی نہیں دیتی۔ افریقی معاشرے صدیوں سے شدید انحطاط کا شکار ہیں۔ اُن کی حالت دیکھ کر دوسرے بہت سے معاشرے بھی ہمت ہار بیٹھے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ پر افریقہ کے حالات زیادہ اثر انداز ہوئے ہیں۔
ہم جنوبی ایشیا کے مکین ہیں۔ اس خطے میں بھی بہت کچھ الٹتا پلٹتا رہا ہے۔ پاکستان سمیت خطے کے کم و بیش تمام ہی معاشرے شدید نوعیت کی معاشی اور معاشرتی الجھنوں سے دوچار ہیں۔ یہ الجھنیں سیاسی خرابیوں کے بطن سے ہویدا ہوئی ہیں۔ خطے میں پائی جانے والی سیاسی کشیدگی نے معاملات کو اِس نہج تک پہنچادیا ہے کہ اب ہر طرف صرف دل شکستگی ہے۔ الو العزمی بیک سیٹ پہ دکھائی دے رہی ہے۔ شدید نوعیت کی مایوسی نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھالی ہوئی ہے۔ زندگی کی گاڑی اب مایوسی اور پژمردگی پر مبنی سوچ کے رحم و کرم پر ہے۔ کیا ہم نے طے کرلیا ہے کہ اپنے معاملات کی درستی یقینی بنانے کے لیے کچھ بھی نہیں کریں گے؟ حالات کی روش دیکھ کر پژمردہ ہونا بہت حد تک فطری ہے مگر ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایسے مراحل سے ہر معاشرہ گزرتا رہا ہے اور شدید خرابیوں کے بطن ہی سے مثالی نوعیت کی اولو العزمی پیدا ہوئی ہے اور مثبت سوچ نے ابھر کر معاملات اپنے ہاتھ میں لیے ہیں۔ یورپی معاشرے اس حوالے سے روشن مثالوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ اِن معاشروں نے صدیوں کی بے حسی، بے علمی اور بے عملی کو ختم کرنے کی ٹھانی تو ختم کرکے دم لیا۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوا۔ کم و بیش تین صدیوں کی بے مثال قربانیوں کے بعد اہلِ یورپ نے زندگی کا معیار بلند کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ بعد میں امریکا نے بھی اس عمل کو آگے بڑھایا۔ یوں مغرب کی بھرپور مادّی ترقی کی راہ ہموار ہوئی۔ کیا ہم اپنی بے حسی اور بے عملی کو ترک نہیں کرسکتے؟ کیا ہمارے لیے اب یہ ممکن نہیں رہا کہ شدید پسماندگی کو شکست سے دوچار کرکے زندگی کو حقیقی رفعت سے ہم کنار کریں؟ ان سوالوں کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ انسان اگر ٹھان لے تو کیا نہیں ہوسکتا۔ امکانات کی دنیا میں بہت کچھ کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ اللہ نے انسان کو بے مثال صلاحیتوں اور قوت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ ان صلاحیتوں اور سکت کو بروئے کار لاکر انسان اپنی مرضی کی دنیا پیدا کر سکتا ہے۔ ہر انسان اپنی مرضی کا ماحول چاہتا ہے مگر ایسا ماحول ممکن اس لیے نہیں ہو پاتا کہ خواہش محض خواہش کی منزل میں پھنس کر رہ جاتی ہے، جذبۂ عمل سے ہم کنار نہیں ہو پاتی۔
کسی بھی معاشرے کو انتہائی نوعیت کی پیچیدگیوں کے گڑھے سے نکالنے کے لیے مثبت طرزِ فکر بنیادی شرط ہے۔ سوچ منفی ہو تو کوئی بھی انسان، کوئی بھی معاشرہ کچھ نہیں کرسکتا۔ مثبت سوچ کے بہت سے مفاہیم ہیں۔ ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ انسان پورے ماحول یا معاشرے کے مفاد کے لیے اپنے مفاد سے ایک خاص حد تک محروم ہونے کے لیے بھی بخوشی تیار ہو۔ کوئی بھی معاشرہ جب اصلاحِ احوال کی طرف بڑھتا ہے تو ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جن کے نتیجے میں کسی کو کچھ زیادہ ملتا ہے اور کسی کا کچھ کم ہو جاتا ہے۔ ایڈوانٹیج اور ڈِس ایڈوانٹیج کا سلسلہ تو ہمیشہ سے رہا ہے۔ نارمل حالات میں بھی کبھی کبھی کچھ ایسا ہو جاتا ہے جس سے کسی کو اُس کی کسی بھی نوعیت کی ذاتی محنت کے بغیر ہی بہت کچھ مل جاتا ہے۔ انسانوں کی طرح معاشروں کو بھی کبھی کبھی غیر معمولی ایڈوانٹیج ملتا ہے اور وہ ایک ہی جست میں بہت سی مشکلات عبور کر جاتے ہیں۔
وقت کسی کا نہیں اور سب کا ہے۔ جو معاملات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنے معاملات درست کرنے کی راہ پر گامزن ہو‘ وقت اُسی کا ہے۔ جس نے وقت کو نظر انداز کیا وقت نے اُسے زیادہ شدت سے نظر انداز کیا۔ ہردور میں وہی لوگ اپنی کامیابی یقینی بنا پائے جنہوں نے بدلتے ہوئے حالات سے مطابقت رکھنے والی طرزِ فکر و عمل اپنائی۔ آج بھی یہی چیلنج درپیش ہے۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر وقت کی پکار پر لبیک کہنا ہے۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ اس کا کام گزر جانا ہے۔ اور یہ بھی طے ہے کہ گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ ایسا ہی ہوتا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا۔ معاشرے جب بے حسی اور بے عملی کے پنجرے میں قید رہنے کو اپنا مقدر سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں تب زندگی کا دریا تھم جاتا ہے۔ سانسوں کے تسلسل کو زندگی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ خالص حیوانی سطح ہے۔ انسان کو اللہ نے صلاحیت و سکت اور امکانات کے ساتھ خلق کیا ہے۔ ہر مشکل کو چیلنج سمجھ کر قبول کرنے اور زندگی کو زیادہ سے زیادہ آسان بنانے کی روش پر گامزن ہونا ہم سب کے لیے ناگزیر ہے۔ حالات کی خرابیوں کے ہاتھوں پیدا ہونے والے پنجرے میں قید رہنا ہمارا مقدر نہیں۔ اِس پنجرے کو ہر حال میں توڑنا ہے۔
شدید پژمردگی کی کیفیت سے دوچار معاشرے خود بخود بہتری کی طرف نہیں آتے۔ اُنہیں عمومی حالت میں لانے کے لیے کلیدی کردار اُنہیں ادا کرنا ہوتا ہے جن کے حوصلے بلند ہوں۔ زندگی قدم قدم آسانی اور قدم قدم مشکل کا نام ہے۔ ہم کس چیز کو کس طور پر لیتے ہیں اِس کا مدار اصلاً ہماری طرزِ فکر پر ہے۔ اگر ہم ہر معاملے میں صرف ناکامی کا سوچیں تو ناکام ہوں گے۔ کسی بھی مشکل کے تدارک کی راہ امکانات کے بارے میں سوچنے سے ہموار ہوتی ہے۔ مسائل و مصائب کا وجود پنجرے کے مانند ہوتا ہے۔ اِن میں گھر کر ہمیں دَم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں اصلاحِ احوال کی طرف مائل ہونا بنیادی معاملہ ہے جسے کسی بھی حال میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہر کامیاب معاشرے کی یہی تاریخ ہے۔ الجھنوں کا پنجرہ تبھی ٹوٹا ہے جب اُسے توڑنے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچا اور کچھ کیا گیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں