کورونا کی وبا کے دوران بچوں کو گھر بیٹھے پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ آن لائن کلاسز سے بچوں کو تھوڑا بہت سیکھنے کو ضرور ملا۔ سکول بند تھے تو تعلیم جاری رکھنے کا کوئی اور طریقہ تھا ہی نہیں۔ ہمارے ہاں تعلیمی ادارے کھلے بھی ہوں تو تعلیم کس نوعیت اور کس درجے کی ہو پاتی ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات تو ہے نہیں۔ سرکاری سکولوں کا حال سب سے بُرا ہے۔ بچوں کو آن لائن پڑھنے کا موقع ملا تو امتحانات کی تیاری کسی حد تک ممکن ہوسکی۔ یہ اطمینان بخش بات تھی۔ اگر پڑھائی کا سلسلہ بالکل ختم ہو جائے تو بچے الجھ جاتے ہیں۔ پھر انہیں دوبارہ پڑھائی کی طرف لانا بہت مشکل ہوتا ہے۔ ٹیچرز کے لیے بھی یہ بات اطمینان بخش تھی کہ آن لائن کلاسز کے ذریعے طلبہ سے اُن کا رابطہ برقرار رکھنے کا اہتمام ہو پایا۔ نویں اور دسویں جماعت والوں کے لیے آن لائن پڑھائی زیادہ کام کی تھی کیونکہ اُنہیں بورڈ کے امتحانات کی تیاری کرنا تھی۔ چھوٹی جماعتوں کے بچے زیادہ پریشان رہے۔
خیر‘ کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران جو خرابی پیدا ہوسکتی تھی وہ ہوئی اور گزر بھی گئی۔ اب ہر سطح کے تعلیمی ادارے معمول کے مطابق کھل گئے ہیں۔ کالجوں میں داخلے بھی ہوچکے ہیں۔ ایسے میں والدین اور ٹیچرز‘ دونوں ہی سکون کا سانس لینے کے قابل ہو پائے ہیں۔ طلبہ بھی خوش ہیں کہ سکول یا کالج جانے کا معمول بحال ہوچکا ہے۔ یہ معمول اُن میں زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے اور مستقبل کی تیاری اچھے طریقے سے کرنے کا جذبہ پھونکتا ہے۔ ہر عمر کے طلبہ جب سکول، کالج یا جامعہ جاتے ہیں تب اُن میں اچھی طرح پڑھنے کی لگن توانا رہتی ہے۔ سماجی معاملات کی ہماہمی اُن میں کچھ کرنے کی خواہش کو جوان رکھتی ہے۔ یہاں تک تو معاملہ ٹھیک ہے مگر آن لائن تعلیم نے بچوں میں چند ایک ایسی خرابیاں بھی پیدا کی ہیں جن سے بہت سے معاملات کا بگاڑ بڑھ گیا ہے۔ آن لائن کلچر ہی کے باعث بچے اب سمارٹ فون کے غیر معمولی حد تک استعمال کے عادی ہوچکے ہیں۔ کسی بھی سہولت کا کوئی نہ کوئی ایسا منفی پہلو ضرور ہوتا ہے جس سے اُس پر انحصار بڑھنے پر زندگی کے کئی پہلو متاثر ہونے لگتے ہیں۔ معاملات اِس طور بگڑتے ہیں کہ تادیر پتا ہی نہیں چل پاتا اور جب پتا چلتا ہے تب تک پلوں کے نیچے سے اچھا خاصا پانی بہہ چکا ہوتا ہے۔
پاکستان کی نئی نسل بہت سی سہولتوں سے مستفید ہو رہی ہے۔ خاصی چھوٹی عمر سے زندگی کو آسان اور رنگا رنگ بنانے والی بہت سی سہولتیں موجود ہیں۔ اِن سہولتوں نے نئی نسل کو مستقبل کے حوالے سے پُرامید رہنے کا حوصلہ بخشا ہے۔ دنیا بھر میں نئی نسل کو ایسا بہت کچھ ملا ہے جو اُن کے بزرگوں کو کسی بھی سطح پر اور کسی بھی درجے میں میسر نہ تھا۔ یہی سبب ہے کہ آج کے بچوں میں ذہانت کا گراف بلند ہو نہ ہو‘ ماحول کے حوالے سے بیدار مغزی کا گراف ضرور بلند ہے۔ آج کے بچے اپنے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگاتے۔ ایسے میں اُنہیں بہتر مستقبل کے لیے تیار کرنا بھی کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں رہا۔ ہر سہولت کے ساتھ چند ایک ایسے معاملات بھی ہوتے ہیں جو خرابیاں پیدا کرتے ہیں۔ کسی بھی سہولت کو غیر ضروری طور پر استعمال کرنے سے محض خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ آن لائن تعلیم سے بھی بہت سی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں۔ آن لائن کلچر نے بچوں میں سمارٹ فون اور انٹرنیٹ کا استعمال بڑھادیا ہے۔ ٹک ٹاک، وٹس ایپ اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی شکل میں بچوں کے لیے پہلے بھی مشکلات کم نہ تھیں۔ چار پانچ سال تک کی عمر کے بچے بھی سمارٹ فون کے ایسے عادی ہوچکے ہیں کہ اُنہیں تعلیم میں دلچسپی لینے کی تحریک دینا ایک بڑے دردِ سر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بچوں کے معمولات میں تیزی سے تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ بہت کچھ ہو رہا ہے جو غیر محسوس طور پر تبدیل ہوتے ہوتے اب ایک بہت بڑے چیلنج کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
سمارٹ فون کے استعمال کی عادت نے بچوں کو آن لائن کلچر کا عادی بنادیا ہے۔ خاصی چھوٹی عمر سے سمارٹ فون کے ذریعے انٹرنیٹ کی دنیا سے بخوبی آگاہ ہو جانے والے بچوں میں اور کچھ پروان چڑھے نہ چڑھے، آن لائن کلچر ضرور پروان چڑھتا ہے۔ آج بارہ سے پندرہ سال کے لڑکوں میں آن لائن کلچر اس حد تک داخل ہوچکا ہے کہ اُن کی نفسی ساخت اِس کے بغیر ادھوری ہے۔ جس عمر میں بچوں کو مستقبل کے لیے تیار کرنے پر توجہ دینا ہوتی ہے اُسی عمر میں وہ آن لائن کلچر کی بھول بھلیوں میں گم ہوکر رہ گئے ہیں۔ یہ کلچر اُن کے آج کو اِس طور کھارہا ہے کہ کل کہیں دکھائی ہی نہیں دے رہا۔ آج کے بچے اور لڑکے کل جب عملی زندگی شروع کریں گے تو اُن کے ذہنوں میں اچھا خاصا خلا موجود ہو گا۔ یہ خلا دور کرنا تب اُن کے لیے ممکن نہ ہو گا۔ والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو سمارٹ فونز اور لیپ ٹاپ‘ کمپیوٹرز کے معقول استعمال کا عادی بنائیں۔ ایک طرف تو اُنہیں آن لائن کلچر سے قدرے دور رکھنا ہے اور دوسری طرف اُنہیں اس کلچر کے معیاری استعمال کا عادی بھی بنانا ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ہر چیز اس قابل نہیں ہوتی کہ اُس پر غیر معمولی توجہ دی جائے۔ زندگی کا حصہ بنانا تو خیر بہت دور کا معاملہ ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس کا معقول استعمال تو سب کے لیے لازم سا ہے مگر غلاموں کی طرح اِن ویب سائٹس کا عادی ہو جانا کسی بھی اعتبار سے کوئی دانش مندانہ معاملہ نہیں۔
آن لائن کلچر میں دو چیزیں بہت نمایاں ہیں؛ ایک طرف تو بچے آن لائن گیمنگ کے خطرناک حد تک عادی ہوکر رہ گئے ہیں‘ دن رات گیمنگ میں گم رہنا عادت سی بن چکی ہے۔ آن لائن گیمنگ کی پختہ عادت بچوں کو تعلیم و تعلّم سے دور کردیتی ہے۔ ایسے میں انہیں بہتر زندگی کے لیے تیار کرنا انتہائی دشوار ہوتا ہے۔ دوسری طرف بہت سے ابھرتی ہوئی عمر کے بچے آن لائن کلچر کو اپناتے اپناتے آن لائن خریداری کے بھی عادی ہوچکے ہیں۔ ہوم ڈلیوری کا کلچر اتنی تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے کہ اس کا استعمال خاصی حد تک بڑھ چکا ہے۔ بچوں کو بہت چھوٹی عمر سے یہ معلوم ہوچکا ہے کہ گھر بیٹھے بہت کچھ خریدا اور منگایا جاسکتا ہے۔ اس معاملے میں والدین راہ نمائی کا فریضہ انجام نہیں دیتے۔ آن لائن خریداری کا تیزی سے پنپتا ہوا رجحان گھریلو بجٹ کو غیر متوازن کرنے کا بھی باعث بن رہا ہے۔ آن لائن خریداری کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ انسان بازار سے زیادہ قیمت ہی ادا نہیں کرتا بلکہ غیر ضروری اشیا بھی منگوالیتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ لوگ محض ہوم ڈلیوری کا شوق پورا کرنے کے لیے بعض ایسی اشیا بھی منگوا لیتے ہیں جن کی اُنہیں بظاہر کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ آٹھ سے دس سال کے بچوں کو بھی اب آن لائن خریداری کا چسکا پڑچکا ہے‘ وہ بہت سی چیزیں محض تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر منگوالیتے ہیں۔ آن لائن کلچر ہماری سہولت کے لیے ہے نہ کہ مشکلات میں اضافہ کرنے کے لیے۔ والدین اور اساتذہ‘ دونوں کی ذمہ داری ہے کہ بچوں کو آن لائن کلچر کے حوالے سے تربیت دیتے رہیں اور اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ آن لائن کلچر میں کھوئے رہنے کا دورانیہ اتنا زیادہ نہ ہو کہ اُن کے لیے اپنے اہم ترین تعلیمی امور پر توجہ دینا ممکن نہ رہے۔ سمارٹ فون ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ اس کے ذریعے بچے انٹرنیٹ کے گھوڑے پر سوار ہوکر پوری دنیا کی سیر کرتے پھرتے ہیں۔ یہ ورچوئل دنیا اُن کی حقیقی دنیا میں خرابیاں پیدا کر رہی ہے۔ انٹرنیٹ بھی ہمارے لیے لازم ہے اور سمارٹ فون بھی مگر اِس سے کہیں بڑھ کر ہمارے لیے ناگزیر ہے معقولیت اور توازن۔ بچوں کو سمارٹ اور آن لائن کلچر کی غلامی سے بچانا ہم سب کا بنیادی فریضہ ہے۔ معاملہ صرف بچوں تک محدود نہ رہے، ہمیں خود بھی آن لائن کلچر کی خرابیوں سے بچنا ہے۔