"MIK" (space) message & send to 7575

بے ہنگم زندگی … مگر کیوں؟

آج کون ہے جو اپنے وجود اور اپنی زندگی سے پوری طرح مطمئن ہے؟ الجھنوں کی نوعیت الگ الگ سہی مگر الجھنیں سب کی زندگی میں ہیں۔ ہر شخص کسی نہ کسی حوالے سے مشکل میں ہے۔ زندگی مجموعی طور پر الجھ کر رہ گئی ہے۔ اہلِ نظر کہتے ہیں کہ زندگی تو ہردور میں الجھی ہوئی تھی۔ کسی بھی دور کا انسان سُکون سے جینے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ ہر دور اپنے ساتھ چند مشکلات اور الجھنیں لے کر آتا ہے۔ ہر دور کے انسان کو اِن مشکلات اور چیلنجز سے نبرد آزما ہونا پڑا ہے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ انوکھی بات تو یہ ہے کہ ہر دور میں جس نے منصوبہ سازی کے تحت زندگی بسر کی‘ وہی کامیاب رہا۔ ایسا نہیں ہے کہ مشکلات سبھی کو دبوچ رکھتی ہیں۔ جن میں قوتِ ارادی پائی جاتی ہو‘ وہ زندگی کی ہر مشکل کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں۔ آج کے انسان نے ہاتھ پاؤں ڈھیلے چھوڑ دیے ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی میدان یا اکھاڑے میں اترنے سے پہلے ہی شکست تسلیم کرلے۔ جو اندر سے ہار چکا ہو‘ وہ باہر سے بھی ہار جاتا ہے۔
آج کا انسان اندر سے ہار چکا ہے۔ یہ ہار باہر بھی جیتنے نہیں دیتی۔ دل و دماغ پر حملہ آور ہونے والے عوامل اور معاملات بہت ہیں۔ ہمارے ارد گرد ایسا بہت کچھ ہو رہا ہے جو زندگی کو ہمارے لیے زیادہ سے زیادہ مشکل کرتا چلا جاتا ہے۔ اکیسویں صدی کا انسان گوناگوں الجھنوں سے دوچار ہے۔ وہ ایسے اَن گنت معاملات کا خمیازہ بھگتتا ہے جن سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ زندہ رہنے کی قیمت خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ شہری زندگی انسان کے لیے سہولت سے زیادہ عذاب کی شکل ہوکر رہ گئی ہے۔ سوال صرف دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کا نہیں۔ زندگی اِس سے بہت آگے کا معاملہ ہے۔ بڑے شہروں میں جینے والوں ہی کو اندازہ ہے کہ فی زمانہ سانسوں کا تسلسل برقرار رکھنا کتنا بڑا دردِ سر ہے۔ غالبؔ نے ٹھیک ہی تو کہا ہے ع
صبح کرنا شام کا‘ لانا ہے جُوئے شیر کا
آج کا انسان متعدد الجھنوں میں یوں گِھرا ہوا ہے کہ باہر نکلنے کی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ ایسا کسی نہ کسی حد تک ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ گزرے ہوئے زمانوں میں ذہن بخوبی کام کرتے تھے۔ پریشانیاں زیادہ شدید نہیں ہوئی تھیں۔ لوگ کسی بھی الجھن کو اپنے مقابل پاکر حواس قابو میں رکھتے ہوئے کام کرتے تھے۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ زندگی میں ہر قدم پر کوئی نہ کوئی الجھن ہوتی ہی ہے۔ ایسے میں ہمت ہار بیٹھنے سے بات نہیں بنتی۔ ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ آج کا انسان پہلے قدم پر ہمت ہارنے کی بات کرتا ہے اور ہمت ہار بھی بیٹھتا ہے۔ یہ سب کچھ ذہنی دباؤ کے ساتھ ساتھ لاپروائی کے ہاتھوں بھی ہوتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے تمام معاملات ہاتھوں سے پھسلتے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ دن رات پریشانی رہتی ہے۔ معمولات میں کوئی نمایاں مثبت تبدیلی آسانی سے پیدا نہیں ہوتی۔ ذہن پر مرتب ہونے والا دباؤ متعدد معاملات کو شدید پریشانی سے دوچار کرتا چلاجاتا ہے۔ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی ایسے بہت سے کام کر بیٹھتا ہے جو اُس کی زندگی کو عدم توازن کی طرف لے جاتے ہیں۔ آج کی شہری زندگی میں انسان کولہو کے بیل کی طرح کام کرنے پر مجبور ہے۔ زندگی محض کمانے اور خرچ کرنے کا نام ہے۔ اِس سے آگے کچھ دکھائی دیتا ہے نہ سجھائی۔ اور کچھ دکھائی دے بھی تو وہاں تک پہنچنے کی ہمت کم کم پائی جاتی ہے۔ زندگی کو اعلیٰ مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کے بارے میں سوچنے کی توفیق کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔
سوچے اور سمجھے بغیر جینے کا یہی انجام ہوا کرتا ہے۔ اللہ نے ذہن اس لیے عطا فرمایا ہے کہ اِسے بروئے کار لایا جائے، اِس سے کام لیتے ہوئے زندگی کو زیادہ بامقصد اور آسان بنایا جائے۔ ہم نے ذہن سے کام لینا ترک ہی کردیا ہے۔ اس کا ایک واضح نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ ہم بند گلی میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ بدحواسی عام ہے۔ لوگ بات بات پر حواس سے محروم ہونے لگتے ہیں۔ معمولی الجھنیں بھی ذہن کو یوں جھنجھوڑتی ہیں کہ دیکھتے ہی بنتی ہے۔ جب ذہن سے کام لینے کا سلسلہ ختم کردیا جائے‘ تب زندگی کو دو وقت کی روٹی کا معاملہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ محض زندہ رہنے ہی کو زندگی سمجھ کر اطمینان کا سانس لیا جاتا ہے۔ کیا واقعی زندگی ایسی بے حقیقت چیز ہے کہ اُسے دووقت کی روٹی کا معاملہ سمجھ لیا جائے؟ یہ صریح مادّہ پرستی ہمیں مکمل تباہی کے گڑھے میں دھکیل رہی ہے۔ آج زندگی کے بلند مقاصد کے بارے میں سوچنے والوں کی تعداد برائے نام رہ گئی ہے۔ حد یہ ہے کہ جو زندگی کو رفعت سے ہم کنار کرنے کی بات کرے اُسے حیرت سے دیکھا جاتا ہے۔ اور پسند تو بالکل نہیں کیا جاتا۔
دنیا کی زندگی کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔ دن رات صرف کمانے اور خرچ کرنے کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ اسی زندگی کو سب کچھ سمجھنے اور مال و دولت کو کامیابی کی علامت سمجھنے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ اب آخرت کا تصور ذہنوں سے نکل گیا ہے۔ آخرت میں جواب دہی کا خوف اب برائے نام بھی نہیں رہا۔ یہ خوف اگر برقرار ہو تو معاملات میں جھلکتا بھی ہے، فکر و عمل کی راہ درست رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ آج کا پاکستانی معاشرہ آخرت کے خوف سے ایسا آزاد ہے کہ دلِ درد مند رکھنے والوں کے پاس یہ تماشا دیکھ کر صرف کُڑھتے رہنے کا آپشن رہ گیا ہے۔ ایک الجھن یہ ہے کہ دین کو چھوڑ کر دنیا کو اپنانے کی روش بھی ادھوری رہی ہے۔ مادّہ پرستی کا بھی ایک بنیادی تقاضا ہے‘ وہ یہ کہ دُنیوی زندگی کو زیادہ سے زیادہ بارآور بنانے پر توجہ دی جائے، جن علوم و فنون کی مدد سے زیادہ کمایا جاسکتا ہے اُن سے لگاؤ پیدا کیا جائے اور مہارت کا گراف بلند کرکے زیادہ سے زیادہ آسائشیں یقینی بنانے کی کوشش کی جائے۔ آج کے ہمارے معاشرے میں تو یہ بھی نہیں ہو رہا۔ دنیا بھر میں جو لوگ روحانیت، آخرت اور جزا و سزا کے تصور پر بالکل یقین نہیں رکھتے وہ کم از کم اتنا تو کرتے ہی ہیں کہ دُنیا کو دل و جان سے اپناتے ہیں۔ مادّہ پرستی کچھ اور دے نہ دے‘ بھرپور دُنیوی زندگی تو دیتی ہی ہے۔ ہمارا معاملہ تو یہ ہے کہ ع
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
دنیا کو اپنانے کے چکر میں آخرت کو نظر انداز کردیا گیا ہے اور دُنیا کو بھی پورے دل سے اپنایا نہیں گیا۔ وقت ہمیں اُس موڑ پر لے آیا ہے جہاں ہمیں اپنے لیے واضح سمت کا تعین کرنا ہے۔ ہم اب تک انفرادی سطح پر متوازن رہتے ہوئے جینے کے قابل نہیں ہوسکے۔ ایسے میں قومی زندگی کے بارے میں کچھ سوچنے کی گنجائش ہی کہاں ہے؟ یہ گنجائش ہمیں پیدا کرنا ہوگی۔ اس مرحلے سے ہمیں کامیاب گزرنا ہے۔
ہم اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں جی رہے ہیں۔ بہت کچھ بدل چکا ہے۔ بہت سے معاملات ہی نہیں، اُن کے تقاضے بھی بدل چکے ہیں۔ ایسے میں ناگزیر ہے کہ ہم اپنے تمام معاملات کا جائزہ لیں۔ بہت کچھ دیکھنا ہی نہیں، سوچنا بھی ہے۔ خود کو بدلنا ہے اور زندگی کو بھی نیا رنگ، روپ دینا ہے۔ یہ سب کچھ راتوں رات نہیں ہوتا۔ کسی بھی کمی یا خرابی کو دور کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ یہ فطری معاملہ ہے۔ ہمیں اپنے انفرادی اور قومی وجودکو صبر و تحمل اور بالغ نظری کے ذریعے تبدیل کرنا اور بہتر بنانا ہے۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہوسکے گا جب ہم اپنی ذمہ داری محسوس کریں گے۔
ہمیں اپنے آپ کو یقین دلانا ہوگا کہ دُنیوی زندگی اصل میں کچھ نہیں۔ جوکچھ ہے‘ وہ آخرت ہے۔ اِس دنیا میں جو کچھ بھی کرنا ہے وہ آخرت کو ذہن نشین رکھتے ہوئے کرنا ہے۔ آخرت کی زندگی کو حتمی زندگی سمجھ کر جینے کی صورت میں ہی دُنیوی زندگی ایسی سنورتی ہے کہ دنیا دیکھتی ہے۔ وقت ضائع کرنے کی گنجائش نہیں رہی۔ زندگی کی موجودہ نہج ایسی نہیں کہ کسی بھی معاملے میں زیادہ انتظار کیا جائے۔ وقت ہاتھوں سے نکلا جارہا ہے۔ ہر سطح پر مقابلے کی کیفیت ہے۔ جس نے وقت ضائع کرنے کا رجحان ترک نہ کیا اُس کی ہار یقینی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں