رُوئے ارض نے ایسے بہت سے ادوار دیکھے ہیں جب اجتماعی رائے کی اہمیت نہ تھی۔ چند افراد مل کر طاقت جمع کرتے تھے اور پھر اقتدار و اختیار ہاتھ میں لے کر معاشرے کے معاملات کو اپنی مرضی کے مطابق چلاتے تھے۔ بادشاہت اِس کی نمایاں ترین شکل تھی۔ بادشاہت جب طول پکڑتی تھی تو خاندانی میراث کی شکل اختیار کرلیتی تھی۔ بادشاہوں کے کئی خاندان گزرے ہیں۔ جب طاقت سمٹ کر چند ہاتھوں میں آجاتی ہے تب معاشرے مختلف معاملات میں ساکت و جامد ہو جاتے ہیں۔ تب انفرادی رائے کی تو خیر سرے سے کوئی اہمیت ہوتی ہی نہیں‘ اجتماعی رائے بھی پَر سمیٹ لیتی ہے۔ بادشاہت چونکہ تمام اختیارات اپنے وجود میں سمیٹ لیتی ہے اس لیے بادشاہی دور میں رائے عامہ کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ عوام کو صرف اس قابل سمجھا جاتا ہے کہ کسی نہ کسی طور زندہ رہنے دیا جائے اور وہ بھی محض اس لیے کہ اطاعت کرتے رہیں، خدمات انجام دیتے رہیں۔
ہزاروں سال کے تفاعل نے جمہوریت کی راہ ہموار کی۔ جمہوریت یعنی عوام کی رائے کے احترام پر مبنی طرزِ حکومت۔ بادشاہتوں کے زمانے میں عام آدمی کی کوئی وقعت نہ تھی۔ اس کی خرید و فروخت بھی ہوتی تھی۔ اُس دور کے انسانوں نے بہت کچھ محض مقدر سمجھ کر قبول اور برداشت کیا۔ فردِ واحد کی حکومت میں ایسا ہی ہوا کرتا تھا۔ جب تمام اختیارات کسی ایک شخصیت میں مرتکز ہو جائیں تو رائے عامہ کی وقعت برائے نام رہ جاتی ہے۔ ایسے میں قوم کے سیاہ و سفید کا مالک بن بیٹھنے کے نتیجے میں تمام فیصلے ایک شخص کرتا ہے۔ اگر اللہ نے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ درد محسوس کرنے والا دل دیا ہو تو قوم یا معاشرے کا کچھ بھلا بھی ہو جاتا ہے وگرنہ شخصی فیصلے بالعموم تباہی و بربادی ہی کے نقیب ہوا کرتے ہیں۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں مختلف النوع حکومتیں کام کر رہی ہیں۔ کہیں جمہوریت ہے اور کہیں شخصی حکومت۔ کہیں چند افراد مل کر حکومت کر رہے ہیں اور کہیں چند اداروں نے حکومتی نظام کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے۔ کہیں کوئی ایک شخص تمام فیصلے کرتا ہے اور کہیں کوئی ایک ادارہ تمام معاملات کا مالک بن بیٹھا ہے۔ کہیں کوئی فوجی آمر ہے تو کہیں کوئی منتخب آمر۔ آمریت کسی بھی شکل میں ہوسکتی ہے۔ لبادے پر نہ جائیے، یہ دیکھیے کہ لبادے میں کیا اور کون چھپا ہوا ہے۔
اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے کا انسان کبھی دو راہے پر آ کھڑا ہوتا ہے، کبھی تِراہے پر اور کبھی چوراہے۔ قدم قدم پر آپشن اور چوائس کا مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی تو کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ معاملات کس طرف جارہے ہیں اور اُن کی حتمی شکل کیا ہوگی۔ بہت سے معاملات میں انسان کو محض حالات کے رحم و کرم پر جینا پڑتا ہے۔ زندگی میں ایک طرف بہت سی آسانیاں ہیں اور دوسری طرف بہت سی مشکلات۔ اگر بعض مشکلات سے جان چھڑانے کی کوشش کی جائے تو چند ایک آسانیوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ کوئی بھی معاملہ کچھ دو اور کچھ لو کی منزل تک آنے میں ذرا دیر نہیں لگاتا۔ سیاسی اور انتظامی اعتبار سے معاشرے انتہائی پیچیدہ ہوچکے ہیں۔ سیاسی و انتظامی معاملات میں ترقی یافتہ دنیا بھی اُنہی الجھنوں سے دوچار ہے جن کا سامنا ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کو کرنا پڑ رہا ہے۔ طاقت کا معاملہ ہر دور میں انتہائی الجھا ہوا رہا ہے۔ جب انسان جہالت کے گڑھے میں گرا ہوا تھا تب بھی طاقت ہی سب کچھ سمجھی جاتی تھی اور آج بھی طاقت ہی سب کچھ سمجھی جاتی ہے۔ طاقت کے معاملے میں انسان کی جہالت جوں کی توں ہے۔
فطری علوم و فنون نے بے مثال ترقی کی ہے۔ یہ ترقی عام آدمی کے لیے بہت سی سہولتوں کی ضامن ثابت ہوئی ہے۔ گزرے ہوئے ادوار کے بڑوں کو بھی جو کچھ نہیں مل پاتا تھا وہ آج نچلی ترین سطح پر جینے والوں کو بھی میسر ہے! بات یہ ہے کہ جو کچھ ہر آدمی کے لیے ہے وہ تو زمانے کی روش کا منطقی نتیجہ ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ عام آدمی کو ڈھنگ سے جینے کے لیے فی زمانہ جو کچھ درکار ہے وہ مل رہا ہے یا نہیں۔ اس سوال کا جواب نفی میں ہے اور یہی اِس ترقی یافتہ دور کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ ایک طرف فطری علوم و فنون میں فقیدالمثال پیش رفت کے نتیجے میں رونما ہونے والی سہولتیں ہیں اور دوسری طرف انسان کی بنیادی پریشانیاں۔ دو ڈھائی سو سال پہلے کے آدمی کو حیران کردینے والی آسانیاں عام آدمی کو میسر ہیں تو یہ کسی کا کسی پر کوئی احسان نہیں۔ یہ تو زمانے کی روش کا عمومی نتیجہ ہے۔ مشکل یہ آن پڑی ہے کہ طاقت بٹورنے اور سمیٹنے کی ذہنیت نے اب تک دم نہیں توڑا۔ غار کے زمانے کے انسان کی ذہنیت برقرار ہے۔ آج بھی ایسے لوگ اور ایسے گروہ ہیں جو ساری طاقت سمیٹ کر باقی دنیا کو بے اختیار کردینے کے درپے ہیں۔ غلامی کا یعنی انسانوں کی خرید و فروخت کا دور بظاہر چلا گیا ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے! وہ دور کہیں بھی نہیں گیا۔ صرف شکل بدلی ہے۔ کبھی طاقت کے ذریعے لشکر کشی کرکے علاقوں پر قبضہ کرلیا جاتا تھا، کالونی بنادیا جاتا تھا۔ آج مضبوط حکومتیں بین الاقوامی اداروں کے ذریعے سب کچھ اپنے ہاتھ میں لینے کے درپے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا چاہتی ہے کہ باقی دنیا اُس کی مطیع ہی نہیں‘ غلام بن کر رہے۔ دنیا بھر میں جمہوریت پائی جاتی ہے اور جمہوریت سے گریز کا چلن بھی عام ہے۔ حقیقت اِتنی ہے کہ جسے ہم جمہوریت سمجھ کر خوش ہو رہتے ہیں وہ کسی بھی درجے میں جمہوریت نہیں۔ جمہوری ادارے موجود ہیں مگر اُن کا اندازِ کار آمرانہ ہے۔ فیصلے عوام کی مرضی سے ہوتے ہیں نہ اُن کے مفاد میں۔ چند جماعتیں کاروباری اداروں کے اشتراکِ عمل سے فیصلہ سازی کے عمل پر متصرف ہوچکی ہیں۔ موروثی بادشاہت کی طرح اب موروثی سیاست کا بھی چلن ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں بھی معاملات بہت حوصلہ افزا نہیں مگر ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک کا حال تو بہت ہی بُرا ہے۔ ان ممالک میں چند بڑی جماعتیں اب اقتدار کے خانوادوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ ہمارے جیسے ممالک میں تو باریاں بھی طے کرلی گئی ہیں یعنی آج تم مزے کرو، کل ہم کریں گے۔ کہیں اگر معاملات طے نہیں کیے گئے ہیں تو میوزیکل چیئرز جیسی کیفیت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ بہرکیف، اقتدار عوام تک منتقل نہیں ہو پاتا۔ فیصلے اُن کی مرضی کے مطابق کیے جاتے ہیں نہ اُن کے مفاد میں۔ کہیں سیاسی جماعتوں نے طاقت بٹور کر حکمرانی کا نظام اپنی مٹھی میں کرلیا ہے تو کہیں سے کوئی طالع آزما اٹھ کر سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں عوام کا حق مارا جاتا ہے۔
آج کی دنیا جمہوریت کی باتیں بھی کرتی ہے، جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کے راگ بھی الاپتی ہے اور جمہوریت سے گریز کی روش بھی ترک نہیں کرتی۔ عام آدمی ووٹ کی طاقت جانتا ہے مگر اُس کے مؤثر استعمال سے گریز کی راہ پر گامزن رہنے میں بھی خوشی محسوس کرتا ہے۔ جمہوریت کوئی ایسی کیفیت نہیں کہ ایک بار واقع ہو تو برقرار ہی رہے۔ جمہوریت کو برقرار رکھنے کے لیے مستقل تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔ یورپ کے متعدد معاشروں نے ثابت کیا ہے کہ جمہوریت کو توانا رکھنے کے لیے مستقل نوعیت کی جدوجہد کے بغیر چارہ نہیں۔ ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشروں کے عوام اس معاملے میں ہتھیار ڈال چکے ہیں۔ اُن کی سوچ سے پژمردگی عیاں ہے۔ جب سوچ مریل سی ہوگی تو اعمال کیونکر توانا ہوسکیں گے؟ معاشروں کی پستی کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ لوگ فکر و نظر کے معاملے میں ہمت ہار بیٹھے ہیں۔ وہ ایک خاص حد سے آگے کچھ دیکھنا اور سوچنا نہیں چاہتے۔ حاصلِ بحث یہ ہے کہ حکمرانی کے نظام پر ڈاکا ڈالنے والوں کو بخوشی قبول کرلیا گیا ہے اور جو کچھ بھی چند افراد مل کر طے کرتے ہیں اُسے حتمی مقدر سمجھ کر قبول کرلیا گیا ہے۔ جمہوری کلچر صرف اُس وقت کامیاب اور توانا ہوسکتا ہے جب عام آدمی اِس حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کرے اور ووٹ کی طاقت کو مؤثر طریقے سے بروئے کار لانے کے معاملے میں بے دِلی کا مظاہرہ نہ کرے۔ جمہوری کلچر کے حوالے سے بے دِلی جمہوریت کی موت کے سوا کچھ نہیں۔