اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ تمام مسائل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خود بخود حل یا ختم ہو جائیں گے تو یہی سمجھا جائے گا کہ وہ محض خوش فہمیوں اور خوش گمانیوں پر مبنی اپنی خیالی جنت میں جی رہا ہے۔ یہ سوچنا سادہ لوحی کی انتہا ہے کہ کوئی بھی مشکل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی طبعی موت مر جائے گی۔ کسی بھی مسئلے کی کوئی طبعی عمر نہیں ہوتی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ توجہ نہ دی جائے تو وقت کے ساتھ ساتھ اُس کی عمر بڑھتی جاتی ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
حل کرنے سے حل ہوتے ہیں پیچیدہ مسائل
ورنہ تو کوئی کام بھی آساں نہیں ہوتا
کسی بھی مسئلے کا وجود اِس لیے ہوتا ہے کہ اُس پر متوجہ ہوکر حل کے بارے میں سوچا جائے۔ توجہ نہ ملے تو مسئلے کی سنگینی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ حالات کا کام ہے بگڑنا اور بگڑتے جانا۔ جو کچھ ہمارے ارد گرد رونما ہو رہا ہے وہ کسی بھی درجے میں پورے کا پورا ہمارے مطلب کا ہے نہ ہم سے متعلق۔ حالات ہمارے لیے چند ایک مواقع بھی پیدا کرتے ہیں مگر مشکلات کا تناسب زیادہ ہے۔ ایک طرف لاکھوں‘ کروڑوں افراد کا تفاعل اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات ہیں اور دوسری طرف ہماری انفرادی کاوشیں۔ ہم پورے معاشرے کو درست کرسکتے ہیں؟ کسی بھی طور نہیں! ایسے میں دانائی کا تقاضا ہے کہ اپنے معاملات کا جائزہ لے کر انہیں درست کرنے کی کوشش کی جائے۔ اپنی صلاحیت و سکت کو شعوری کوشش کے ذریعے احسن طریقے سے بروئے کار لانے کے سوا ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں۔ ہر کامیاب انسان کو یہی کرنا پڑتا ہے۔
آج کا ہمارا معاشرہ مختلف سطحوں پر گوناگوں مسائل سے گِھرا ہوا ہے۔ مشکلات کا تناسب بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ یہ بالکل فطری امر ہے کیونکہ اصلاحِ احوال کے لیے انفرادی اور اجتماعی سطح پر جو کچھ کرنا لازم ہے‘ وہ نہیں کیا جارہا۔ ہم کچھ کرنے سے ہی نہیں بلکہ سوچنے سے بھی بہت دور ہیں۔ مسائل کی سنگینی کا اندازہ لگاکر اُنہیں حل کرنے کے بارے میں سوچنے کا مرحلہ اب تک شروع ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم زندگی کے حوالے سے اب تک کماحقہٗ سنجیدہ نہیں ہوئے۔ سنجیدگی ڈھنگ سے جینے کی کلیدی اور انتہائی بنیادی شرط ہے۔ ہر اُس معاشرے نے ترقی کی ہے جس نے سنجیدگی کو حرزِ جاں بنایا ہے۔ سنجیدگی کا مطلب منہ پھلائے بیٹھے رہنا اور شگفتگی سے دور رہنا نہیں بلکہ زندگی کے بارے میں پختہ اور دیانت دارانہ رائے رکھنا ہے۔ سنجیدگی کی بنیاد ہے حقیقت پسندی! جو حقیقت پسند ہوتے ہیں وہی زندگی کے بارے میں سنجیدہ ہوتے ہیں اور جن میں سنجیدگی پنپتی ہے اُن میں حقیقت پسندی بھی پروان چڑھتی جاتی ہے۔
مسائل اتنے ہیں کہ سوچیے تو ذہن تھکنے اور دُکھنے لگتا ہے۔ یہ بھی فطری امر ہے۔ ہم دن رات مشکلات میں گِھرے رہتے ہیں۔ جن معاشروں میں بیشتر معاملات بگڑ چکے ہوں اُن میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی چونکہ بہت کچھ بگڑ چکا ہے‘ اس لیے اب ہر معاملہ مسئلے کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ لوگوں میں قوتِ برداشت دم توڑتی جارہی ہے۔ عدمِ برداشت کا بلند ہوتا ہوا گراف پورے معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ ہر طبقے میں یہ خرابی اتنی بڑھ گئی ہے کہ بہت سے سیدھے اور سادہ معاملات بھی الجھ کر رہ گئے ہیں۔ لوگ بات بات پر پھٹ پڑتے ہیں۔ ردِ عمل ظاہر کرنے کے نام پر بم کی طرح پھٹ پڑنے کو محض کامیابی ہی تصور نہیں کیا جاتا‘ بلکہ اِس پر فخر بھی کیا جاتا ہے۔
اس وقت ہمارے معاشرے کو تین ایسے سنگین مسائل کا سامنا ہے جن کے حوالے سے سنجیدہ نہ ہونے کی قیمت ہمیں مستقل بنیاد پر ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ پہلا مسئلہ ہے وقت کی شدید اور عیاں ناقدری۔ اِس کے بعد کیریئر کے حوالے سے لاپروائی کا نمبر آتا ہے اور تیسرے نمبر پر ہے زندگی کے معاشی اور مالیاتی پہلو سے یکسر صرفِ نظر۔ ان تین معاملات میں سنجیدہ نہ ہونے کا خمیازہ ہمیں قدم قدم پر بھگتنا پڑ رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم سب کچھ دیکھ رہے ہیں مگر پھر بھی کچھ سوچنے کے لیے تیار نہیں۔ زندگی اور حالات کے پیدا کردہ چیلنج ہمارے سامنے ہیں مگر ہم ہیں کہ اب تک اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ کچھ نہ سوچنے اور کچھ نہ کرنے کی صورت میں بھی معاملات خود بخود درست ہوجائیں گے۔ ہر دور کا ریکارڈ کھنگالیے‘ ہر معاشرے کی تاریخ پڑھیے‘ یہی جاننے کو ملے گا کہ کامیابی اول و آخر‘ صرف اس بات کا نام ہے کہ انسان سنجیدہ ہو، لاپروائی ترک کرے اور زندگی کا معیار بلند کرنے کے حوالے سے بلند عزائم کا حامل ہو۔
وقت کی ناقدری زندگی کے حوالے سے عدمِ سنجیدگی کی سب سے بڑی علامت ہے۔ آج تک کسی بھی ایسے انسان کو بھرپور کامیابی نہیں مل سکی جس نے وقت کے بارے میں سنجیدہ ہونا نہیں سیکھا۔ وقت کی ناقدری ہی دوسرے بہت سے معاملات میں بھی خرابی کے بیج بوتی ہے۔ آج کا ہمارا معاشرہ وقت کی ناقدری کے حوالے سے شرم ناک مقام پر کھڑا ہے۔ ہر طبقے میں وقت کی ناقدری عام ہے۔ نچلا یا پس ماندہ طبقہ وقت کی قدر ناشناسی میں زیادہ نمایاں ہے اور اِس کا خمیازہ بھی خوب بھگت رہا ہے۔
کیریئر کے حوالے سے سنجیدہ ہونے والوں کی تعداد بھی خاصی قلیل ہے۔ لوگ کام تو کرتے ہیں مگر اُسے کوئی واضح سمت دینے، کسی شعبے میں مہارت کا اعلیٰ معیار یقینی بنانے اور اُسی شعبے کے رنگ میں اپنی زندگی کو رنگنے کے حوالے سے سنجیدہ ہونے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اس کے نتیجے میں جو کچھ ہو سکتا ہے‘ وہ بھی ہم دیکھ ہی رہے ہیں۔ اور بات صرف دیکھنے کی حد تک نہیں رہی، اب معاملہ جھیلنے کا ہے۔
زندگی کے معاشی اور مالیاتی پہلو سے متعلق عدمِ سنجیدگی اب اتنی نمایاں ہے کہ آنے والے زمانے کا سوچ کر ہی خوف محسوس ہوتا ہے۔ ملکی معیشت کی زبوں حالی اس پر مستزاد ہے۔ یہ سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی جارہی کہ زندگی کا معاشی پہلو عدمِ توازن کا شکار ہو تو مجموعی طور پر پوری زندگی شدید متاثر ہوتی ہے۔ بہت سی معاشرتی، نفسی اور روحانی خرابیاں معاشی خرابیوں ہی کے بطن سے ظہور پذیر ہوتی ہیں۔
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے تمام معاملات میں خاطر خواہ سنجیدگی کے حامل ہوں؟ ہم ابھی تک حالتِ انتظار میں ہیں۔ کسی مسیحا یا نجات دہندہ کا ہمیشہ انتظار رہتا ہے۔ ہم سبھی تحت الشعور کی سطح پر چاہتے ہیں کہ کوئی آئے اور ہمارے تمام مسائل چٹکی بجاتے حل کردے۔ ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہوگا۔ قدرت چاہتی ہے کہ ہم خود تگ و دَو کریں۔ مسائل حل کرنے سے حل ہوتے ہیں، محض خواہش کرنے یا کسی کا انتظار کرنے سے نہیں۔ زندگی کا بنیادی تقاضا ہے سنجیدگی۔ یہ سنجیدگی ہی تو ہے جو ہمیں بڑے کاموں کے لیے تیار کرتی ہے۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ سنجیدگی خود بخود پیدا ہو جانے والا وصف نہیں۔ یہ وصف پیدا ہی نہیں کرنا پڑتا‘ پروان بھی چڑھانا ہوتا ہے۔ کامیاب معاشرے اِس کی واضح مثال ہیں۔ وہ ہمارے لیے نمونے کا درجہ رکھتے ہیں۔ کامیاب معاشروں کی عمومی ذہنی کیفیت اس امر کی غماز ہے کہ سنجیدگی ہی سے زندگی بارآور بنتی ہے، کامیابی سے ہم کنار ہوتی ہے۔
اس وقت پوری قوم لاپروائی اور بے نیازی کے ملے جلے گڑھے میں گری ہوئی ہے۔ جن معاملات میں سر سے پاؤں تک سنجیدہ رہنا لازم ہے اُن معاملات میں بھی سنجیدہ ہونے سے یکسر گریز کیا جارہا ہے۔ فرض کرلیا گیا ہے کہ سنجیدہ نہ ہونے سے کوئی نقصان پہنچے گا نہ وقت کے ضیاع سے۔ یہ سادہ لوحی اور لاپروائی کی انتہا ہے۔ اس انتہا کے گڑھے سے نکل کر زندگی کی شاہراہ پر بھرپور عزم کے ساتھ سفر شروع کرنا ہی ہوگا۔