کوئی احمق ہی اس حقیقت کا منکر ہوسکتا ہے کہ آج ہمارا ملک طرح طرح کے مسائل سے گھرا ہوا ہے۔ مسائل بھی ایسے کہ دیکھیے اور غور کیجیے تو دل بیٹھ بیٹھ جائے۔ ایک طرف اندرونی الجھنیں اور دوسری طرف بیرونی پیچیدگیاں۔ چَکّی کے دو پاٹوں میں وطنِ عزیز یوں پس رہا ہے کہ کوئی دیکھ کر افسوس کا اظہار تو کرسکتا ہے‘ کر کچھ نہیں کرسکتا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہمارے بہت سے مسائل ہمارے اپنے پیدا کردہ ہیں۔ معاملہ کچھ یوں بھی ہے کہ ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنا پڑ رہی ہے۔ کسی بھی ملک کے لیے اُس کا محلِ وقوع بہت کچھ‘ بلکہ سب کچھ ہوتا ہے۔ ہمارا محلِ وقوع انتہائی موافق ہے۔ ہم وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے گیٹ وے یعنی مرکزی راہداری کا درجہ رکھتے ہیں۔ وسطی ایشیا کے لیے ہماری اہمیت زیادہ ہے کیونکہ اُنہیں ہمارے ذریعے ہی گرم پانیوں تک رسائی کا موقع ملتا ہے۔ اس شاندار محلِ وقوع نے ہمارے لیے ایڈوانٹیج کم اور ڈِس ایڈوانٹیج زیادہ پیدا کیا ہے۔ بدخواہوں کی دن رات یہی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طور اِس مملکتِ خداداد پر ناکام ریاست کا لیبل چسپاں کردیا جائے۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے وہ کوئی بھی دقیقہ فروگزاشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔
ہم پاکستانی کیا کرتے ہیں اور کیا نہیں کرتے اِس سے قطعِ نظر بدخواہ کب چین سے بیٹھتے ہیں؟ کبھی ہمیں حالات نے یوں بھی دبوچا کہ کچھ کرتے نہیں بنی۔ 1970 کے عشرے کے آخری لمحات میں جب سوویت افواج نے افغانستان پر لشکر کشی کی تو پورے خطے کا سیاسی منظر تبدیل ہوگیا۔ افغان باشندوں نے سوویت افواج سے گھبراکر پاکستان کا رخ کیا تو گویا پناہ گزینوں کا سیلاب آگیا۔ اور جو آئے انہوں نے واپس جانے کا نام بھی نہ لیا۔ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ اس ناگہانی افتاد کے نتیجے میں پاکستان پر کیا گزری، اس قوم کا کیا حال ہوا، معاشرے کا کیسا تیا پانچا ہوا۔ پھر جب طالبان نے افغانستان میں اقتدار سنبھالا تب بھی پاکستان کے لیے انتہائی نوعیت کے حالات پیدا ہوئے۔ طالبان کو ناکام بنانے کے نام پر امریکا اور اس کے حلیفوں نے وہ سب کچھ کیا جو اخلاقیات کو بھی شرما دے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو بھی بہت کچھ بھگتنا پڑا۔ طالبان کو ہٹانے کے نام پر امریکا نے نائن الیون کا بہانہ بنایا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر پاکستان اور افغانستان کو یوں دبوچا کہ اُن کے لیے سانس لینا دوبھر ہوگیا۔ نائن الیون کے بعد کی دنیا میں پاکستان کے لیے ڈھنگ سے جینا ناممکن بنادیا گیا۔ پوری دنیا کے لوگوں کو باور کرادیا گیا کہ دہشت گردی کا اگر کوئی حقیقی مآخذ ہے تو وہ پاکستان ہے۔ افغانستان کو سُدھارنے کے نام پر جو کچھ بھی کیا گیا اُس نے پاکستان کو بھی نہ بخشا۔ حق تو یہ ہے کہ ہم آج تک نائن الیون کے نام پر برپا کی جانے والی قیامتِ صغریٰ کے اثرات بھگت رہے ہیں۔
پاکستان ہی میں بعض خود ساختہ ''اہلِ نظر‘‘ اپنی دانست میں بہت بڑی قومی خدمت انجام دیتے ہوئے پوری قوم کو نیچا دکھانے کی کوشش میں بھارت، بنگلہ دیش اور خطے کے دیگر ممالک کو بہتر اور برتر ثابت کرنے کی کوشش میں جتے رہتے ہیں۔ پاکستان کو دو لخت ہوئے پچاس برس بیت گئے۔ اس نصف صدی میں پاکستان اور اہلِ پاکستان پر کئی بار قیامت گزری ہے۔ ہمیں خدا جانے کن کن مقامات سے گزرنا پڑا۔ جو کچھ کیا ہے وہ بڑوں نے کیا مگر بھگتنا اُنہیں پڑا ہے جن کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ کیا اس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ جو کچھ سابق مشرقی پاکستان کے باشندوں سے روا رکھا گیا‘ وہ سلوک کسی بھی درجے میں مغربی پاکستان کے عام باشندوں کی طرف سے نہ تھا؟ کیا بنگالیوں کو مغربی پاکستان کے علاقوں میں آباد ہونے سے اور یہاں کام کرکے دولت اپنے علاقوں میں بھیجنے سے کوئی روکتا تھا؟ بنگالیوں سے امتیازی سلوک اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا معاملہ تو ہوسکتا تھا‘ عام پاکستانی کا کسی طور نہیں۔ اس کے باوجود تجزیہ کاروں کی تان ٹوٹتی ہے تو پوری قوم کو مطعون کرنے پر! ایسا کیوں ہے؟ عام پاکستانی تو نصف صدی کے دوران بارہا بنگلہ دیشی مسلمانوں کی طرف سے پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے شدید نفرت کے اظہار کے باوجود اب تک کسی بھی بنگلہ دیشی سے کسی بھی درجے میں نفرت نہیں کرتا۔ کیا اس حقیقت سے کوئی انکار کرسکتا ہے کہ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد بھی وہاں سے بنگالیوں کی پاکستان آمد جاری رہی اور یہاں جو کچھ وہ کماتے تھے وہ اپنے وطن بھیجنے کے معاملے میں کبھی بے بسی کا سامنا کرنے پر مجبور نہیں کیے گئے؟ آج بھی بنگلہ دیش سے آئے ہوئے ایسے ہزاروں افراد پاکستان میں کھل کر کام کر رہے ہیں جو کسی بھی درجے میں اس سرزمین سے محبت نہیں کرتے اور جو کچھ یہاں کماتے ہیں وہ مزے سے اپنے وطن روانہ کرتے ہیں۔ عام پاکستانی آج بھی کسی بنگلہ دیشی مسلمان سے نفرت نہیں کرتا اور مستقبل قریب میں بھی یہ رجحان دم توڑتا دکھائی نہیں دیتا۔ بعض پاکستانی شوقین اور بھارتی میڈیا آؤٹ لیٹس یہ ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ 1971 میں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد سے اب تک بھارت اور بنگلہ دیش نے مختلف شعبوں میں فقیدالمثال ترقی کی ہے جبکہ پاکستان محض زوال کا شکار رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان زیادہ ترقی نہیں کر سکا مگر بات یہیں تک ختم نہ کی جائے۔ یہ بھی تو بتایا جائے کہ اس مملکتِ خداداد کو کس طور جکڑ کر رکھا گیا ہے اور اس کے لیے سانس لینا بھی دشوار بنایا جاتا رہا۔ پاکستان میں لسانی و ثقافتی تنوع غیر معمولی ہے۔ اس کے نتیجے میں اختلافات اور تنازعات کا سر اٹھانا بھی فطری امر ہے۔ فکری تضاد بھی بہت ہے۔ نسلی تفریق کو بھی کیونکر نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ فرقہ وارانہ تفاوت و تفریق بھی کم نہیں۔ ان سب خرابیوں کو بیرونی طاقتوں نے بھرپور منصوبہ بندی کے ذریعے پیدا بھی کیا اور پروان بھی چڑھایا۔ ایسے میں ملک ترقی تو دور‘ اپنے پیروں پر بھی کیا کھڑا ہوگا۔
پاکستان کو اپنے قیام کے وقت ہی سے سازشوں کا سامنا رہا ہے۔ عوام کب سازشی تھے؟ سازشیں محلّات میں ہوتی ہیں، محلّوں میں نہیں۔ عام آدمی کو زندگی بسر کرنے کی جدوجہد سے فرصت ملے تو کوئی سازشیں بھی رچے۔ اُس کے پاس تو اپنے آپ سے محبت کرنے کا بھی وقت نہیں ہوتا۔ ایسے میں نصف قوم باقی نصف قوم سے کیونکر نفرت کرسکتی تھی؟ ہاں، جن کے ہاتھوں میں ملک کے تمام کلیدی معاملات تھے انہوں نے خوب تجربے کیے اور موقع پر دیکھ کر طالع آزمائی سے بھی نہ چوکے۔ آج بنگلہ دیش اور بھارت کی ترقی کے راگ الاپے جارہے ہیں مگر یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی جارہی کہ پردے کے پیچھے کیا ہے۔ تفنن و تکلف برطرف‘ ہر طرف سے پیدا کردہ خرابیوں کا سامنا کرنے کے باوجود آج بھی عام پاکستانی قابلِ رشک نہ سہی مگر اطمینان بخش انداز سے جی رہا ہے۔ زندگی کے بیشتر معاملات میں ترتیب کا فقدان ہے اور نظم و ضبط کی بھی کمی ہے مگر اس کے باوجود بیشتر پاکستانیوں کا گھر جدید دور کی بنیادی آسائشوں سے بھرا ہوا ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کی جس ترقی کے اتنے راگ الاپے جارہے ہیں اُس کے درشن کرنے کوئی وہاں جائے اور آکر بتائے کہ عام آدمی زندگی کس نہج اور کس انداز میں بیت رہی ہے۔
بھارت اور بنگلہ دیش‘ دونوں ہی کی ترقی اور خوش حالی کا فسانہ ہے تو بس اِتنا کہ آج بھی دونوں ممالک سے لاکھوں افراد بیرونِ ملک جاکر کام کرنے کے انتہائی آرزو مند ہیں۔ بھارت کی متعدد ریاستوں کے لوگ محض ایک ہزار درہم میں متحدہ عرب امارات کی کسی بھی ریاست میں کام کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ بنگلہ دیشی کرنسی کی قدر بھلے بڑھ گئی ہو مگر اب بھی وہاں سے آکر پاکستان میں کام کرنے والوں کی تعداد کم نہیں۔ ہم مشکلات سے دوچار ہیں مگر اخلاقی اور روحانی طور پر ایسی گئی گزری حالت کے حامل نہیں کہ اپنی نظروں میں گرے رہیں۔ لکھنے والوں کی بنیادی ذمہ داری لوگوں کو دلاسا دینے کی ہے، اُن کا مورال گرانے کی نہیں۔