ایک بار پھر کورونا کے نام پر خوف کا بازار گرم کیا جارہا ہے۔ کورونا وائرس کے وجود سے کوئی انکار نہیں کرسکتا مگر اس وائرس کے نام پر دنیا کا تیا پانچا کیا جارہا ہے، یہ روش ہر اعتبار سے انتہائی تشویش ناک ہے۔ دو سال کی مدت میں ہم نے دیکھا کہ اس ایک وائرس کو بنیاد بناکر پوری دنیا کو بدلنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ کورونا وائرس کا خوف اس قدر پیدا کیا گیا کہ گزشتہ برس کے دوران بہت سوں کی ذہنی حالت انتہائی قابلِ رحم ہوگئی۔ کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران واقع اموات کے حوالے سے اب بھی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ یہ اموات کورونا وائرس سے واقع ہوئیں یا اُس کے حوالے سے پیدا کردہ خوف کے باعث؟ امریکا اور یورپ میں بھی کورونا وائرس کے حوالے سے اتنا خوف پھیلایا گیا کہ معمولی سے نزلہ زکام سے بھی لوگ ڈرنے لگے۔ امریکا اور یورپ نے جو کچھ جھیلا‘ وہ کم نہ تھا۔ پھر بھارت نے دنیا کو دکھایا کہ اگر ملک کی آبادی کا بڑا حصہ کسی بیماری یا وبا سے خوف کھائے تو کیا ہوتا ہے۔ رواں سال کے اوائل میں بھارت کے طول و عرض میں کورونا کی دوسری لہر کے دوران جو کچھ ہوا وہ انتہائی پریشان کن ہی نہیں، شرم ناک بھی تھا۔ معاشرے کے غالب حصے نے دیکھتے ہی دیکھتے ہتھیار ڈال دیے۔ ایک وائرس کو بنیاد بناکر خوف کی ایسی لہر پیدا کی گئی کہ لوگوں کے لیے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا بھی انتہائی دشوار ہوگیا۔ بھارت میں عجیب تماشے دیکھنے کو ملے۔ آکسیجن کا بحران پیدا کیا گیا جس کے باعث بہت سوں نے ذہنی توازن کھودیا۔ لوگ کورونا کے ویری اینٹ ڈیلٹا سے اتنے خوف زدہ ہوئے کہ اپنے پیاروں کو بھی ہاتھ لگانے سے ڈرنے لگے۔ معمر افراد کا بہت بُرا حال ہوگیا۔ جس وقت اُنہیں توجہ اور دیکھ بھال کی ضرورت تھی تب گھر ہی کے لوگ اُن سے دور بھاگنے لگے۔ بعض بزرگوں کو تو گھر سے باہر اور بالکل الگ تھلگ بھی رکھا گیا۔ آخری رسوم کے حوالے سے بھی شدید بدحواسی دکھائی دی۔ یہ سب کچھ انتہائی شرم ناک تھا۔ ڈیلٹا ویری اینٹ نے امریکا اور یورپ میں تو کچھ زیادہ ہنگامہ برپا نہ کیا۔ ہاں! بھارت میں اُس نے ضرور قیامتِ صُغریٰ برپا کی۔ برصغیر پاک و ہند کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ روایات اور اقدار کا احترام کرنے والے معاشرے ہیں۔ مشترکہ خاندانی نظام یہاں آج بھی برقرار ہے۔ ہر مذہب کے لوگ اپنی دیرینہ روایات کے امین اور پاس دار ہیں۔ ایسے میں جو کچھ کورونا کی دوسری لہر کے دوران بھارت میں ہوا وہ انتہائی شرم ناک تھا۔ بزرگوں تک کو نظر انداز کردیا گیا۔ انتہائی غریب طبقے کے لیے تو آکسیجن کے سلنڈر کا حصول بھی تارے توڑ کر لانے جیسا عمل بنادیا گیا۔ کورونا کی پہلی اور دوسری لہر کے دوران خوف تو پاکستان میں بھی تھا مگر ایسا نہیں تھا کہ لوگ سبھی کچھ بھول گئے تھے۔ کوئی بھی وبا اپنی جگہ اور اقدار کی پاس داری اپنی جگہ۔ یورپ میں بھی کورونا کی پہلی لہر کے دوران نوجوان مسلم رضاکاروں نے شدید خوف کے ماحول میں بالکل الگ تھلگ کردیے جانے والے اور بعض معاملات میں تو بالکل تنہا و بے سہارا چھوڑ دیے جانے والے بزرگوں کی دیکھ بھال کی، اُنہیں محض حوصلہ نہیں دیا بلکہ دن رات اُن کے ساتھ رہ کر انہیں فطری معمولات میں بھی کماحقہٗ مدد فراہم کی۔ اٹلی میں جب بیمار بزرگوں کے پاس اُن کے اپنوں میں سے کوئی بھی نہ تھا تب مسلم رضا کاروں نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر آگے بڑھ کر اُنہیں سنبھالا۔ ایسے کیسز بھی سامنے آئے کہ کسی بزرگ کا انتقال ہوگیا مگر کوئی میت کو دفنانے والا نہ تھا۔ تب بھی مسلم کمیونٹی ہی نے آگے بڑھ کر اپنے فرائض انجام دیے۔
اب کورونا کی تیسری لہر کی آمد آمد ہے۔ ماہرین نے ابھی سے یہ کہتے ہوئے ڈرانا شروع کردیا ہے کہ اومیکرون ویری اینٹ اگر بے قابو ہوا تو بہت بڑے پیمانے پر اموات واقع ہوں گی۔ اومیکرون کے حوالے سے امریکا اور یورپ میں صورتِ حال ابھی سے پریشان کن بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بھارت کو بھی نمونہ بنانے کی تیاریاں زور پکڑ رہی ہیں۔ بھارتی اخبارات کی سرخیوں پر نظر دوڑائیے تو عجیب مضحکہ خیز صورتِ حال دکھائی دیتی ہے۔ سات آٹھ کروڑ کی آبادی والی ریاستوں میں یومیہ محض تین چار کیس سامنے آنے پر بھی خبر شہ سرخیوں میں پیش کی جارہی ہے۔ چند ایک کیسز کو شہ سرخیوں میں پیش کرنے کا مقصد اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ لوگوں میں شدید خوف و ہراس پیدا کیا جائے اور اُنہیں ابھی سے لاک ڈاؤن کی تیسری لہر کے لیے تیار کیا جائے۔ کورونا کی تیسری لہر کے حوالے سے پیدا کیے جانے والے خوف کا یہ عالم ہے کہ سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہوتا جارہا ہے۔ بھارت کی سٹاک مارکیٹ میں ایک ہفتے کے دوران سرمایہ کار کم و بیش 10 ہزار ارب روپے سے محروم ہوچکے ہیں۔ ایک ہفتے میں مرکزی سٹاک انڈیکس میں 1774 پوائنٹس سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔ شہری علاقے تو کسی نہ کسی طور سنبھلے ہوئے ہیں مگر دیہی علاقوں میں کورونا کی تیسری لہر کے حوالے سے شدید خوف پایا جاتا ہے۔ آج کی دنیا میں کوئی بھی ملک جزیرہ نہیں‘ یعنی دوسروں سے ہٹ کر اور کٹ کر جی نہیں سکتا۔ پاکستان بھی اِسی دنیا کا حصہ ہے اور جو کچھ دنیا بھر میں ہوگا اُس کے اثرات پاکستان پر بھی مرتب ہوکر رہیں گے۔
بھارت کی صورتِ حال کا براہِ راست اثر پاکستان پر بھی مرتب ہوسکتا ہے۔ کورونا کی پہلی دو لہروں کے دوران بھی پاکستان نے خطے کے مجموعی حالات کا اثر لیا تھا۔ ہمارے ہاں معاشرتی تفریق زیادہ نہیں‘ اس لیے لوگ کورونا کی وبا کے دوران بھی خاصے خوشگوار موڈ میں رہے اور اس مصیبت کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا۔ ایسا لگتا ہے بھارت میں صورتِ حال کو جان بوجھ کر بگاڑا جارہا ہے جو ابھی سے بہت بڑے بحران کے حوالے سے ڈرایا جارہا ہے۔ کورونا کے دو برس بھارت پر پہلے ہی بہت سخت گزرے ہیں۔ ایسے میں عوام کو ایک بار پھر شدید خوف سے دوچار کرنے کی کوئی منطق سمجھ میں نہیں آتی۔ مودی سرکار اب تک مغرب کے آغوش میں بیٹھے رہنے کو ترجیح دے رہی ہے۔ خطے کے معاملات اور تقاضوں کو یکسر نظر انداز کرکے وہ صرف اور صرف مغربی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ کورونا کی وبا کو روکنے کے نام پر بھارت نے مغرب کے ہدایات و احکام پر بلا چون و چرا عمل کیا۔ اس کے نتیجے میں خطِ افلاس کے نیچے زندگی بسر کرنے والے افراد کی تعداد میں خاصی تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا۔ لوگ دو برس کے دوران کورونا کی وبا کے ہاتھوں نازل ہونے والی الجھنوں سے نجات پانے میں اب تک کامیاب نہیں ہو پائے۔ ایسے میں تیسری لہر سے ڈراکر اُن کی زندگی کو مزید خرابیوں کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔
اومیکرون کے معاملے میں امریکا اور یورپ سمیت ترقی یافتہ دنیا میں جو رویہ اپنایا جارہا ہے وہ انتہائی پریشان کن ہے۔ پاکستان جیسے ممالک کورونا کی تیسری لہر کو دبوچنے کے نام پر لاک ڈاؤن اور ایسے ہی دیگر اقدامات کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ معاشی پیچیدگیوں نے معاشرتی الجھنوں کو پہلے ہی بہت بڑھادیا ہے۔ عام پاکستانی کی پریشانی کا احساس حکومت کو اب تک نہیں۔ دنیا بھر میں حکومتوں نے کورونا کی پیدا کردہ پیچیدگیوں سے نمٹنے میں اپنے عوام کی واضح مدد کی۔ معیشت کو پہنچنے والے نقصان کے شدید منفی اثرات سے عوام کو بچانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ ہمارے ہاں ایسا کچھ خاص دکھائی نہیں دیتا۔ چند خاندانوں کو چند ہزار روپے تقسیم کرکے سمجھ لیا گیا کہ حق ادا ہوگیا۔ اور اس میں بھی احسان کی کون سی بات تھی؟ یہ رقم عوام ہی کی جیبوں سے نکالی گئی تھی۔ کورونا کی تیسری عالمی لہر کے حوالے سے حکومت کو ابھی سے جاگنا ہے تاکہ عوام کے کوئی بلا جواز اور اضافی الجھن پیدا نہ ہو۔ عوام کورونا کی پہلی دو لہروں کے دوران بہت کچھ جھیل چکے ہیں۔ اب لاک ڈاؤن جیسے انتہائی نوعیت کے اقدامات سے گریز لازم ہے۔ معیشت کی کماحقہٗ بحالی حکومت کا نمایاں ترین ہدف ہونا چاہیے۔ عوام کے دلوں میں پایا جانے والا خوف دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ معمول کے مطابق زندگی بسر کریں اور اومیکرون کے بے قابو ہونے پر بھی حواس باختہ نہ ہوں۔