بیسویں صدی کے عظیم سائنس دان البرٹ آئن سٹائن نے کہا تھا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فطری علوم و فنون میں پیش رفت ہماری زندگی کو آسان بنادے گی تو وہ احمق ہے۔ بات بالکل درست ہے۔ کسی بھی شعبے میں رونما ہونے والی پیش رفت ہمارے لیے آسانیوں کے ساتھ ساتھ بہت سی مشکلات بھی لے کر آتی ہے۔ پیش رفت اگر فطری امر ہے اور اُس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آسانیاں بھی فطری ہیں تو پھر اُن آسانیوں کے پہلو بہ پہلو پائی جانے والی مشکلات بھی فطری ہی ہیں۔ انسان کے لیے سب سے بڑا بحران یا مسئلہ یہی تو ہے کہ وہ کسی بھی مرحلے پر سُکون سے نہیں بیٹھ سکتا۔ ہر دور اُس کے لیے طرح طرح کے چیلنج لے کر آتا ہے اور ہر چیلنج کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہونا ہی پڑتا ہے۔ انسان کم و بیش تین ہزار سال سے مختلف شعبوں میں جو کچھ کر رہا تھا وہ سب کچھ جمع ہوکر بیسویں صدی میں اپنے نقطۂ عروج کو پہنچا۔ انسان زندگی میں آسانیاں ہی آسانیاں چاہتا تھا۔ بیسویں صدی میں یہ ممکن ہوا مگر ساتھ ہی ساتھ آئن سٹائن والی بات بھی درست ثابت ہوئی۔ آسانیوں نے عجیب ہی مشکلات بھی پیدا کردیں۔ کوئی بھی ٹیکنالوجی سِکّے کی طرح ہوتی ہے اور ہر سِکّے کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ ہر ٹیکنالوجی اپنے شعبے کو آسان بنانے کے ساتھ ساتھ مشکل بھی بناتی ہے۔ یہ ایسی صورتحال ہے جس سے مکمل نجات کسی بھی صورت ممکن نہیں۔ ہر دور کے انسان نے اس چیلنج کا سامنا کیا ہے اور اپنے لیے نئی راہیں تلاش کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ آج کے انسان کو بھی ایسا ہی کرنا ہے۔
بیسویں صدی میں صرف دنیا نہیں بدلی‘ انسان بھی تبدیل ہوا۔ بہت کچھ زندگی سے نکل گیا۔ اور نکلا بھی ایسے جیسے گدھے کے سَر سے سینگ غائب ہوا کرتے ہیں۔ معمولات میں ایسا بہت کچھ شامل ہوا جو پہلے کبھی تھا ہی نہیں۔ مختلف شعبوں کی ترقی نے زندگی کو کچھ کا کچھ بنادیا۔ ابلاغِ عامہ کے ذرائع اس کی واضح ترین مثال ہیں۔ پہلے فلم کی تکنیک آئی‘ پھر ریڈیو آیا‘ ریڈیو کے بعد ٹی وی نے انٹری دی۔ فلم رنگین ہوئی۔ پھر آڈیو ریکارڈنگ کا بازار گرم ہوا۔ اس کے بعد وی سی پی اور وی سی آر آئے۔ اور اب تو خیر سبھی کچھ ایک پیج پر ہے۔ یہ تمام تبدیلیاں انسان کو بھی بدلتی گئیں۔ یا کوئی یوں بھی کہہ سکتا ہے کہ انسان بننے اور بگڑنے کے عمل سے گزرتا چلا گیا۔ بیسویں صدی کا انسان تو پھر بھی کسی حد تک گزرے ہوئے ادوار کی یادوں کا امین تھا۔ آج کا انسان عجیب دو راہے پر کھڑا ہے۔ بیسویں صدی کے اواخر میں پیدا ہونے والے بچے آج دو دو تین تین بچوں کے باپ ہیں۔ یہ لوگ خود بہت الجھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں سوچا جاسکتا ہے کہ اپنے بچوں کے لیے وہ کیا کر پاتے ہوں گے۔ جن کی آنکھوں کے سامنے بہت کچھ تبدیل ہوا ہے وہ آج بھی سمجھ نہیں پارہے کہ یہ سب ہوا تو کیسے ہوا۔ 1960ء کی دہائی میں پیدا ہونے والوں کی عمریں اب ڈھل چکی ہیں مگر ان پچاس پچپن برسوں کے دوران فطری علوم و فنون کے شعبوں میں جو کچھ ہوا ہے اُس نے اُن کے ذہنوں کو متشر کردیا ہے۔ انتشار اتنا زیادہ ہے کہ کبھی کبھی بالکل سامنے کی بات بھی سوچی جاتی ہے نہ سمجھ میں آتی ہے۔ ذہن پر لمحہ لمحہ بڑھتا دباؤ انسان کو اُس مقام تک لارہا ہے جہاں وہ چاہتے ہوئے بھی اپنے لیے کچھ نہیں کرنے کی پوزیشن میں نہ رہے گا۔
ٹیکنالوجی کے ستم بے شمار ہیں۔ سب سے بڑا ستم یہ ہے انسان چاہتے ہوئے بھی اپنا رہا ہے نہ غیروں کا۔ ایک عجیب سی بے چینی اور پریشانی ہے کہ دل و دماغ کا احاطہ کیے رہتی ہے۔ انسان آسانیوں میں ایسا گِھر گیا ہے کہ اب یہی سب سے بڑی مشکل ہے۔ اصغرؔ گونڈوی نے بالکل درست کہا تھا ؎
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
آسانیوں کی تلاش نے انسان کو مشکلات کے پنجرے میں بند کردیا ہے۔ قدم قدم پر الجھنیں پیروں سے لپٹ جاتی ہیں۔ ڈھنگ سے دو قدم چلنا بھی آسان نہیں رہا۔
ہم مجموعی طور پر ایک ایسے ماحول کا حصہ ہیں جس میں وہ بہت کچھ بھی ہماری زندگی کا حصہ ہوگیا ہے جو ہمارے لیے ہے ہی نہیں۔ دوسری طرف ہمیں جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ ہم تک پہنچ نہیں پاتیں یا یوں کہیے کہ ہم اُن تک رسائی پانے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ سب کچھ دل و دماغ کو پتھرا دینے والا ہے۔ کوئی کتنی ہی کوشش کر دیکھے‘ معمولات میں ایسی اشیا و خدمات کا حصہ بڑھانے میں ناکام ہی رہتا ہے جن کا ہم سے کوئی بنیادی تعلق ہو۔ لوگ صرف جیے جارہے ہیں۔ اپنے وجود کو زیادہ سے زیادہ بامقصد بنانے کی بیشتر کوششیں ناکام سے دوچار ہوتی جارہی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان ہر معاملے میں قصور وار نہیں اس لیے اُسے موردِ الزام ٹھہرانا بھی درست نہیں۔ آج بیشتر معاملات میں انسان محض تماشائی بن کر رہ گیا ہے۔ بعض معاملات دیکھتے ہی دیکھتے ایسی عجیب شکل اختیار کرلیتے ہیں کہ انسان صرف دیکھتا رہ جاتا ہے‘ کچھ کر نہیں پاتا۔ اور اس سے بھی زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ معاملات صرف دیکھنے کی حد تک نہیں رہتے بلکہ کئی قدم آگے جاکر ہماری زندگی کا حصہ بھی بن جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس طور ہوتا ہے کہ لاکھ کوشش کرنے پر بھی معاملات کی درستی کا راستہ سُجھائی نہیں دیتا۔
آج کے انسان کو ٹیکنالوجیز سے صرف مستفید نہیں ہونا بلکہ اُن کے ہاتھوں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار بھی رہنا ہے۔ یہ مستقل نوعیت کا کام ہے کیونکہ ٹیکنالوجیز کا بازار گرم ہے۔ دنیا بھر کی ہائی ٹیک کمپنیوں میں تحقیق و ترقی کے شعبے دن رات کر رہے ہیں۔ ان شعبوں کی کارکردگی بھی ہمارے سامنے ہے۔ جب یہ شعبے اپنے حصے کا کام کرکے پروڈکشن کے شعبے کو معلومات فراہم کرتے ہیں تب کچھ نیا کرنے کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ ٹیکنالوجیز کے حوالے سے جدت نے بہت سے معاملات میں جدت کا بازار یوں گرم کر رکھا ہے کہ انسان ابھی کسی چیز کے نئے ماڈل سے کماحقہ مستفید بھی نہیں ہوا ہوتا کہ نیا ماڈل آجاتا ہے۔ سمارٹ فونز کی مارکیٹ میں ایسا زیادہ ہو رہا ہے۔ سمارٹ فونز کے ماڈلز اتنی تیزی سے آرہے ہیں کہ سرمایہ کاروں کے لیے مشکلات کھڑی ہوگئی ہیں۔ وہ ہمہ وقت تذبذب کا شکار رہتے ہیں کہ سرمایہ کب‘ کہاں اور کتنا لگائیں۔
ٹیکنالوجیز نے ہمارے لیے کئی چیلنج کھڑے کیے ہیں۔ کئی شعبوں میں لاکھوں افراد دیکھتے ہی دیکھتے بے روزگار ہو جاتے ہیں اور ہم کچھ نہیں کر پاتے۔ بہت سی ٹیکنالوجیز نے افرادی قوت کی ضرورت کو خطرناک حد تک گھٹادیا ہے۔ اس کے نتیجے میں بہت سے کاروباری ادارے افرادی قوت گھٹانے کے معاملے میں سفّاک رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگر ٹیکنالوجیز کی مدد سے تیار کی جانے والی ایپس کا بازار یوں ہی گرم رہا تو دنیا بھر میں کم و بیش ایک تہائی افرادی قوت بے روزگاری ہو جائے گی اور اس کے معاشرتی نتائج انتہائی خطرناک ہوں گے۔ بڑے کاروباری ادارے سمجھتے ہیں کہ وہ لوگوں کو فارغ کرتے جائیں گے اور پھر وہ وقت بھی آئے گا جب انہیں اپنے پیداواری یونٹ چلانے کے لیے انسانوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ سوچنے کی بات یہ بھی تو ہے کہ اگر بے روزگاری بڑھے گی تو گھرانوں کی قوتِ خرید بھی گھٹے گی۔ ایسا ہوگا تو اشیا و خدمات کی طلب بھی گھٹے گی۔ طلب گھٹے گی تو اُن اشیا و خدمات کو بڑے پیمانے پر تیار کرنا اور لوگوں کو مستفید کرنا ممکن نہ رہے گا۔ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مشینوں اور ٹیکنالوجیز پر بہت زیادہ منحصر رہنے کی صورت میں معیشتی ڈھانچے میں کس نوعیت کی تبدیلیاں رونما ہوں گی اور مجموعی طور پر پورے معاشرے کا کیا حشر ہوگا۔
کسی بھی شعبے میں ہونے والی پیش رفت زندگی کو آسان بنانے کے لیے ہوتی ہے۔ ہر پیش رفت کے چند منفی پہلو بھی ہوتے ہیں۔ اُن منفی پہلوؤں پر نظر رکھنا بھی لازم ہے۔ فطری علوم و فنون کے حوالے سے ممکن بنائی جانے والی ہر پیش رفت اول تا آخر صرف اس لیے ہونی چاہیے کہ اُس سے زندگی آسان ہو۔ اگر ایسا نہ ہوسکے تو پھر سوچنا چاہیے کہ جدت سے مستفید ہونا ہے یا نہیں۔ ٹیکنالوجیز کے سامنے ہم محض تماشائی بن کر نہیں رہ سکتے۔