"MIK" (space) message & send to 7575

اومیکرون سے زیادہ خوفناک فیکٹر

کورونا کی وبا نے مسائل تو سبھی کے لیے پیدا کیے ہیں مگر پسماندہ ممالک کے لیے پیدا ہونے والی دشواریاں بہت زیادہ ہیں اور دن بہ دن ان کی پیچیدگی بھی بڑھتی جارہی ہے۔ کورونا کے بطن سے پیدا ہونے والے لاک ڈاؤن نے دنیا بھر میں ایک طرف تو بے روزگاری اور غربت بڑھائی ہے اور دوسری طرف مہنگائی کو بھی چالیس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچادیا ہے۔ کیا ترقی یافتہ اور کیا ترقی پذیر‘ تمام ہی ممالک کے مرکزی بینک مہنگائی کے چیلنج سے نمٹنے کی تیاریوں میں جُتے ہوئے ہیں۔ کوئی معاشی اور مالیاتی امور کا کتنا ہی بڑا ماہر ہو‘ یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں کہ مہنگائی کب تک اور کتنی نیچے لائی جاسکے گی۔ دنیا بھر میں سُود کی شرح بھی ایک اُلجھا ہوا مسئلہ ہے۔ ماہرین اُلجھے ہوئے ہیں کہ معیشت کو سہارا دینے کے لیے سُود کو کس شرح پر رکھا جائے۔
اس وقت دنیا بھر میں اشیائے خور و نوش بالخصوص تیل‘ پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخ بڑھ رہے ہیں۔ چینی اور چائے کی پتّی بھی دن بہ دن مہنگی ہوتی جارہی ہے۔ سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور یورپی ممالک میں ایک مدت سے اشیائے خور و نوش کی قیمتیں معقول تھیں اور عام آدمی کے گھریلو بجٹ پر پر ان قیمتوں کا منفی اثر مرتب نہیں ہوتا تھا۔ ایسا چونکہ ایک طویل مدت کے بعد ہو رہا ہے اس لیے سب کو بہت عجیب لگ رہا ہے۔ یو اے ای جیسے ممالک نے اشیائے خور و نوش کو خاص طور پر کنٹرول کر رکھا تھا کہ عام آدمی کے لیے زیادہ الجھنیں پیدا نہ ہوں۔ اب کنٹرول ختم کرنا پڑ رہا ہے۔
مرکزی بینک پریشان ہیں کہ مہنگائی کی لہر پر کس طور قابو پائیں۔ معیشت کو سہارا دینے کے لیے سُود کی شرح بڑھائی جاتی ہے تو معیشت کے مزید سُست پڑنے کا خطرہ بنا رہتا ہے۔ اس خوف سے بھی شرحِ سُود بڑھائی نہیں جارہی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ معیشت کے بگاڑ میں رہ جانے والی کوئی کسر پوری ہو جائے۔ جین فیملی انسٹی ٹیوٹ کی سینئر فیلو کلاڈیا سیم قومی اثاثوں اور معیشت سے متعلق دیگر معاملات کی محقق ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ امریکا میں مہنگائی بڑھنے کا عمل اپریل‘ مئی 2021 ء میں شروع ہوا۔ لاک ڈاؤن کے باعث لوگ زیادہ وقت گھر پر گزارنے پر مجبور تھے۔ اس دوران کمپیوٹر‘ موبائل فون اور گیم زیادہ خریدے گئے۔ بعد میں استعمال شدہ کاروں اور الیکٹرانک آئٹمز کی فروخت بڑھ گئی۔ امریکا میں مہنگائی کم و بیش 6.8 فیصد تک بڑھی ہے اور اس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ امریکا میں لاک ڈاؤن کے دوران جن اشیا کی کھپت اور استعمال میں اضافہ ہوا اُن میں سے بیشتر جنوبی ایشیا میں تیار کی جاتی ہیں۔
کورونا کی لہر نے سب سے پہلے جنوبی ایشیا میں پیداواری عمل کو شدید متاثر کیا۔ دوسری بہت سی اشیا کے ساتھ ساتھ ہائی ٹیک آئٹمز کی پیداوار بھی گھٹی۔ سیمی کنڈکٹرز کی پیداوار میں بھی نمایاں کمی آئی۔ امریکا میں لاک ڈاؤن نافذ کیے جانے کے ساتھ ہی اشیا و خدمات کے مہنگے ہوتے جانے کا عمل بھی شروع ہوا۔ عام طور پر حکومتیں مہنگائی پر قابو پانے کے لیے سُود کی شرح بڑھاتی ہیں تاکہ لوگ قرضے نہ لیں‘ خرچ نہ کریں اور پیسے بچائیں۔ اس سے بازار میں طلب گھٹتی ہے اور مہنگائی پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے۔ گزرے ہوئے عشرے کے اوائل میں امریکا‘ یورپ اور جاپان اس بات سے پریشان تھے کہ مہنگائی بڑھ نہیں رہی! یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ اگر کئی سال تک مہنگائی میں زیادہ اضافہ نہیں ہوتا تو لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ چیزیں مزید سستی ہوں گی اور وہ کم خرچ کرنے لگتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں معیشت کی رفتار سُست پڑنے لگتی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مہنگائی کے حوالے سے مرکزی بینک زیادہ سنجیدہ نہیں۔ اُنہیں سُود کی شرح بلند کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ امریکا سمیت تمام بڑی طاقتوں اور ترقی پذیر دنیا کے مرکزی بینک معاملات کے درست ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ لندن سکول آف اکنامکس میں گورنر کے منصب پر خدمات انجام دینے والی برونن کرٹس کہتی ہیں کہ مرکزی بینک حالات کے درست ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ خطرناک روش ہے۔ مہنگائی کے چند ایک عوامل آسانی سے ختم نہیں ہوتے۔ برونن کرٹس کورونا کی وبا کے دوران شیئر مارکیٹ میں پیدا ہونے والی تیزی سے بھی پریشان ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ سٹاک مارکیٹ میں پیسہ زیادہ آ رہا ہے۔ مالیاتی منڈی میں بھی اس وقت خاصے بڑے پیمانے پر سیالیت موجود ہے۔ یہ محض بلبلہ ہے‘ مہنگائی ہے۔ مہنگائی کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے اور محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔
یورو زون بھی مہنگائی سے پریشان ہے۔ دو عشروں سے بھی زائد مدت کے دوران یہ پہلا موقع ہے کہ قیمتیں بے قابو ہوئی ہیں۔ اگر مہنگائی کی لہر زیادہ دیر تک چلے تو معیشت پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کورونا کی وبا سے نمٹنے کے بعد معیشت کو بحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے سُود کی شرح بڑھانے کے اقدام کو بھی خطرے کی شکل میں دیکھا جارہا ہے۔ اگر حکومت کی طرف سے مالیاتی امداد ملنے کی صورت میں مصنوعات کی طلب بڑھی یا محنت کش و ہنر مند طبقہ صنعتی یونٹس کی طرف نہ پلٹے تو مہنگائی پر قابو پانے میں خاصا وقت لگ سکتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے سرمایہ کاروں کو الجھا دیا ہے۔ وہ سمجھ نہیں پارہے کہ کس چیز میں کتنی سرمایہ کاری کریں۔ اس وقت سرمایہ کاروں کا اعتماد بری طرح متزلزل ہے۔ وہ اومیکرون سے بڑھ کر مہنگائی کی لہر سے ڈرے ہوئے ہیں۔ سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کرنے والے عوامل میں کوئی بڑی جنگ چھڑ جانے کا خدشہ‘ امریکی مالیاتی پالیسی میں تبدیلیاں اور چین میں ہائی ٹیک کمپنیوں کے خلاف حکومت کا کریک ڈاؤن بھی شامل ہیں۔ ماہرین نے مہنگائی پر قابو پانے کے حوالے سے تجویز کیا ہے کہ پٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خور و نوش بالخصوص خوردنی تیل پر درآمدی ڈیوٹی‘ لیوی وغیرہ میں فوری طور پر کم از کم 5 فیصد کٹوتی کی جانی چاہیے۔ اشیائے خور و نوش اور دیگر ضروری اشیا کی ذخیرہ اندوزی پر سخت پابندی عائد کی جائے اور اس حوالے سے اقدامات میں تاخیر کی جائے نہ رعایت۔ صنعتی پیداوار میں 10 فیصد اضافہ مہنگائی کے بیسک پوائنٹس میں 40 فیصد تک کمی کی راہ ہموار کرے گا۔
پاکستان جیسے ممالک کو ہر معاملے میں غیر معمولی عزم درکار ہے۔ منصوبہ سازی بھی اچھی کرنی ہے۔ اُس پر بھرپور عمل بھی کرنا ہے۔ بہت کچھ قربان کرنے کے لیے تیار بھی رہنا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ معیشت کی مکمل بحالی ناممکن ہو مگر بہت مشکل ضرور ہے کیونکہ پوری دنیا اسی راہ پر گامزن ہے‘ بلکہ دوڑ رہی ہے۔ مقابلہ سخت ہے اور وقت کم‘ بہت کم۔ ایسے میں قومی تعمیرِ نو کا بھرپور عزم ہی ہمارے لیے کچھ کرسکتا ہے۔ اگر ہم اپنے قومی وجود کی بقا چاہتے ہیں تو نئی ترجیحات طے کرنا ہوں گی اور اُن کے مطابق جینے کا فیصلہ بھی کرنا ہوگا۔
کسی بھی ملک کی قیادت کے پاس کوئی جادوئی چراغ نہیں ہے کہ اُسے رگڑیے اور جن نکلے تو اُس سے اپنی مرضی کے سارے کام کرالیجیے۔ جو کچھ بھی کرنا ہے خود کرنا ہے۔ اس راہ میں جوکھم کم نہیں۔ سب کو اپنی پڑی ہے۔ ایسے میں کوئی ہماری طرف بلا سبب کیوں دیکھے گا۔ ہمیں دوسروں کی طرف دیکھنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنا‘ اپنا جائزہ لینا ہے تاکہ کورونا کے ساتھ جینے کے تقاضے نبھائے جاسکیں۔ کورونا در حقیقت چاہے کچھ بھی ہو‘ یہ حقیقت تو اب سبھی پر عیاں ہے کہ اس کے منفی اثرات سے کوئی بھی بچ نہیں سکا اور اب اس کے ساتھ ہی جینا ہے۔ ہر پسماندہ ملک کو اپنے لیے نئی ترجیحات کا تعین کرنا ہے تاکہ تیزی سے بدلتی اور بگڑتی ہوئی دنیا میں اپنے لیے کوئی مقام طے کرسکے۔ کورونا کی وبا نے بڑی بڑی معیشتوں کے لیے انتہائی نوعیت کی مشکلات پیدا کی ہیں۔ اگر ہم متاثر ہوئے ہیں تو ترقی یافتہ دنیا بھی کم متاثر نہیں ہوئی۔ وہاں بھی معاشی اور معاشرتی الجھنیں بڑھی ہیں۔ ایسے میں دانش کا تقاضا ہے کہ مہنگائی‘ غربت اور بے روزگاری کا سامنا کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ پُرعزم رہا جائے۔ کورونا وائرس سمیت کسی بھی وبا کے ہاتھوں پیدا ہونے والی معاشی اور معاشرتی مشکلات کو صرف اور صرف قومی عزم کے ساتھ ہی شکست سے دوچار کیا جاسکتا ہے۔ اور ہمیں فتح یقینی بنانی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں