دنیا بھر کے معاشروں میں معاشی ناہمواریاں پہلے ہی کم نہ تھیں۔ جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی وہ کورونا کی وبا نے پوری کردی۔ چند ایک معاشروں نے کسی نہ کسی طور افلاس کو پچھاڑنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔ کورونا کی وبا آئی تو اُن کی کامیابی پر پانی پھیرتی چلی گئی۔ چند معیشتوں نے کئی عشروں کی محنت کے بعد اپنی تقدیر بدلنے میں بہت حد تک کامیابی حاصل کی تھی۔ ایک زمانے تک افلاس کی چَکّی میں پِسنے کے نتیجے میں یہ ریاستیں غیر معمولی نوعیت کی معاشرتی، نفسی اور روحانی پیچیدگیوں کا بھی شکار تھیں۔ معاشی بہتری آئی تو بہت سے معاشرتی عوارض بھی دور ہوگئے۔ اب پھر وہی مرحلہ درپیش ہے یعنی بقول منیرؔ نیازی ؎
اِک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا
کورونا کی وبا نے خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ کردیا ہے۔ افریقہ، جنوبی ایشیا، مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا کی چند ریاستیں اب تک شدید افلاس کے چُنگل میں ہیں۔ نجات کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ یا کم از کم مستقبل قریب میں تو کوئی بہتری ممکن نہیں لگتی۔ کورونا کی پہلی دو لہروں کے دوران صرف جنوبی ایشیا میں خطِ افلاس سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد میں پچیس سے تیس کروڑ کا اضافہ ہوا ہے۔ وائرس نے بھارتی معاشرے کو خصوصی طور پر نشانہ بنایا ہے۔ مختلف شعبوں میں نمایاں پیش رفت اور اپنے غیر مقیم باشندوں کے ذریعے خطیر زرِ مبادلہ کمانے کے باوجود بھارت اب تک اپنے ہاں افلاس کے جِن کو پکڑ کر بوتل میں بند کرنے میں ناکام رہا ہے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر اگرچہ بہتر پوزیشن میں ہیں مگر عام آدمی کو اس کا کچھ فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ غیر مقیم بھارتی باشندے جو کچھ وطن بھیجتے ہیں وہ قومی خزانے میں جاتا ہے۔ وہاں کے عوام کو کچھ نہیں مل پاتا۔ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں برازیل کا بھی شمار ہوتا تھا اور جنوبی افریقہ کا بھی۔ ترکی بھی تیزی سے ابھرتی ہوئی معیشتوں میں سے ہے۔ کورونا کی وبا نے ترکی کو بھی نہیں بخشا مگر اتنا ضرور ہے کہ ترکی اپنے مسائل کو بہت حد تک حل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ ترک معاشرے میں اکھاڑ پچھاڑ کم ہے۔ اس کا کریڈٹ ترک قیادت کی بصیرت کو جاتا ہے۔ کورونا وائرس نے دو برس کے دوران دنیا بھر میں جو معاشی اور معاشرتی خرابیاں پیدا کی ہیں اُن کا تجزیہ کیا جارہا ہے اور مستقبل قریب کے حوالے سے بہت کچھ سوچا اور جانچا جارہا ہے۔ عدم مساوات سے متعلق تحقیق کے لیے پیرس میں قائم ادارے نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ابھرتی ہوئی معیشتوں کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ اچھی خاصی ترقی کے باوجود افلاس کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ اس ادارے نے بتایا ہے کہ عدم مساوات کے حوالے بھارت نمایاں ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ اس ملک پر تحقیق کرنے والوں کی زیادہ توجہ اس لیے بھی ہے کہ یہ آبادی اور رقبے کے اعتبار سے بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ نسلی، لسانی، ثقافتی اور مذہبی تنوع کے اعتبار سے بھی خاصا منفرد ملک ہے۔
2021 ء کے دوران بھارت میں آمدنی کے اعتبار سے بلند ترین 10 فیصد افراد کی اوسط سالانہ آمدن 11 لاکھ 66 ہزار روپے تک رہی جبکہ غربت کی چَکّی میں پِسنے والے بھارتی باشندوں کی اوسط سالانہ آمدن 54 ہزار روپے فی کس تک رہی یعنی امیر و غریب کا فرق کم و بیش 20 گنا یا 2 ہزار فیصد تک ہے۔ اس دوران بھارت کی مجموعی قومی آمدن 2 لاکھ 4 ہزار روپے فی کس تک رہی ہے۔ بھارت میں اوپری سطح پر صرف ایک فیصد افراد کے ہاتھ میں ملک کی 72 فیصد دولت ہے۔ اوپر کے 10 فیصد افراد کے پاس ملک کی 57 فیصد تک دولت ہے۔ باقی 50 فیصد کے پاس ملک کی صرف 13 فیصد دولت ہے۔ گویا امیر ترین ایک کروڑ 30 لاکھ اور غریب ترین 65 کروڑ بھارتیوں کے درمیان آمدن کا فرق کئی گنا تک ہے۔ امریکا کے پیو ریسرچ سنٹر کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوبی امریکا، جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا میں ایسے افراد کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے جو یومیہ محض 2 ڈالر بھی نہیں کما سکتے۔ بھارت میں ایسے لوگوں کی تعداد 6 کروڑ سے زائد ہے جو کورونا کی وبا کے باعث یومیہ 150 روپے تک کمانے کے قابل بھی نہیں رہے۔ 1974ء کے بعد بھارت ایک بار پھر انتہائی غریب افراد کی واضح اکثریت والا ملک بن گیا ہے۔ بھارت کی مڈل کلاس کورونا وائرس کے نشانے پر رہی ہے۔ جس طور دریائی پانی سے زمین کا کٹاؤ ہوتا ہے بالکل اُسی طرح ڈیڑھ سال میں بھارت کی مڈل کلاس کا کم و بیش ایک تہائی حصہ شدید افلاس زدہ افراد سے جا ملا ہے اور ان میں زیادہ تعداد شہروں میں بسنے والوں کی ہے۔ پٹنہ (بہار) کے انسٹیٹیوٹ فار اکنامک پالیسی اینڈ پبلک فنانس کے پروفیسر ڈاکٹر سُدھانشو کمار کہتے ہیں کہ المیہ صرف یہ نہیں ہے کہ معاشروں میں شدید معاشی تفاوت پایا جاتا ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ جو افلاس کی زد میں آجائیں اُن کی کام کرنے کی صلاحیت و سکت پر شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ معاشی سرگرمیوں میں پوری توجہ اور لگن کے ساتھ حصہ نہیں لیتے۔ اُن میں جوش و خروش کی سطح گر جاتی ہے۔ یہ سب کچھ افسوسناک ضرور ہے‘ حیرت انگیز نہیں کیونکہ جس طرح کی صورتِ حال کا ہمیں سامنا ہے اُس میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو کم کرنے پر خاص توجہ دینے کی ضرورت جتنی آج ہے اُتنی پہلے کبھی نہیں تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ بھی امیر و غریب کے درمیان موجود تفاوت کے سنگین منفی اثرات کا سامنا کر رہا ہے۔ دولت سے دولت کو کھینچا جاتا ہے۔ یہ بات ہر معاشرے میں درست ثابت ہوئی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی حقیقت بھی تسلیم کی جانی چاہیے کہ جب جب ایسا ہوتا ہے تب تب معاشرے اور معیشت کی جڑیں صرف کمزور ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔
جب کورونا کی وبا ایک بڑی آزمائش کی صورت نمودار نہیں ہوئی تھی تب بھی ہمارے معاشرے اور معیشت کے مسائل کم نہ تھے۔ کبھی کساد بازاری بڑھ جاتی تھی اور کبھی افراطِ زر۔ حالات چاہے کچھ ہوں، شامت تو غریب کی آتی ہے۔ اُس کے شب و روز ویسے کے ویسے رہتے ہیں، تبدیل نہیں ہوتے۔ یہ بہت پریشان کن صورتحال ہے۔ حکومت کو دوسرے بہت سے امور ایک طرف ہٹاکر عام آدمی کی قوتِ خرید بڑھانے پر متوجہ ہونا چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ روزگار کے معاملات بہتر بنانا بھی لازم ہے کیونکہ بیروزگاری افرادی قوت کی صلاحیت و سکت کو جکڑ لیتی ہے اور پھر انسان وہ سب کچھ نہیں کر پاتا‘ جو وہ کرسکتا ہے۔ متعدد ممالک سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ چین نے تین عشروں کی محنت شاقہ کے بعد بہت کچھ پایا ہے۔ وہاں افلاس کی سطح نیچے لانے میں قابلِ رشک حد تک کامیابی یقینی ہی نہیں‘ ممکن بھی بنائی گئی ہے۔ چینی قیادت نے معیشت کے میدان میں خود کو منوانے پر سب سے زیادہ توجہ دی ہے۔ اس میدان میں کامیابی کے بعد عسکری قوت بڑھانا اور ثقافتی اثرات کا دائرہ وسیع کرنا بھی آسان ہو ہی جاتا ہے۔ چین نے معاشی اور مالیاتی استحکام میں قابلِ رشک مقام پر پہنچنے کے بعد اب عسکری قوت بڑھانے پر متوجہ ہونا شروع کردیا ہے۔ یہ سب کچھ اس لیے ممکن ہوسکا ہے کہ اندرونِ ملک امیر و غریب کے درمیان فرق پر قابو پانے میں حیران کن حد تک کامیابی نصیب ہوئی ہے۔
جنوبی ایشیا اور افریقہ کے بیشتر ممالک کو چین سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ امیر و غریب کا فرق اس حد تک کم کرنے کی ضرورت ہے کہ قومی معیشت کو ڈھنگ سے بحالی کی طرف لے جانا ممکن ہوسکے۔ پاکستان جیسے ممالک میں عام آدمی کی قوتِ خرید بڑھانے اور اُسے خطِ افلاس سے دور رکھنے کی اشد ضرورت ہے۔ کورونا کی وبا نے بہت کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ بیشتر پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں خطِ افلاس سے نیچے جینے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد خطرناک ہے۔ پاکستان کو اس صورتِ حال پر فوری قابو پانا چاہیے۔ ایسا نہ ہوا تو معیشت کے ساتھ ساتھ معاشرت بھی ٹھکانہ ڈھونڈتی پھرے گی۔