"MIK" (space) message & send to 7575

زندہ رہنے کی قیمت

اکیسویں صدی عیسوی تک پہنچتے پہنچتے انسان شہری اور دیہی کے فرق کو واضح حد تک کم کرچکا ہے۔ تین چار سو سال پہلے تک دیہی زندگی کو ترک کرنا انتہائی دشوار ہوا کرتا تھا۔ ہزاروں برس کی عادت آسانی سے کہاں چھوٹنے والی تھی۔ جب قصبوں نے بڑے شہروں کا روپ دھارنا شروع کیا تب انسان کے لیے بڑی الجھن پیدا ہوئی۔ مشینوں کے شور نے انسان کو اُس سکون سے محروم کرنے کی ابتدا کی جو ہزاروں سال سے اُس کے وجود کا حصہ تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہروں اور شہروں میں رہنے والوں کی اہمیت بڑھتی گئی۔ دیہی علاقوں میں بسنے والوں کو پس ماندہ، دقیانوسی اور غیر مہذب سمجھنے کا چلن عام ہوا۔ تب بہت سوں نے محض اس لیے شہروں میں رہائش اختیار کی کہ وہ دنیا کو دکھانا چاہتے تھے کہ وہ پس ماندہ نہیں بلکہ مہذب ہیں۔ آج کی دنیا شہری کلچر کی دنیا ہے۔ جو کچھ شہروں ہو رہا ہے وہی زندگی کی توانا ترین علامت سمجھا جارہا ہے۔ شہروں کے لوگ جس طور کھاتے پیتے، چلتے پھرتے ہیں وہی زندگی کا سب سے بڑا رجحان سمجھا جاتا ہے۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے دیہات میں بسنے والے عام آدمی کو بھی وہ تمام آلات میسر ہیں جن کی مدد سے شہروں میں رہنے والے اپنے آپ کو جدت سے ہم کنار رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود دیہات میں رہنے والوں کو یہ غم اندر ہی اندر کھاتا رہتا ہے کہ وہ پیچھے رہ گئے ہیں۔ دیہی علاقوں، قصبوں اور چھوٹے شہروں میں رہنے والوں کی سوچ بھی مختلف ہوتی ہے اور اندازِ زندگی بھی کسی اور دنیا کا معلوم ہوتا ہے۔ ان علاقوں کے لوگ بالعموم بہت محفوظ تناظر میں دیکھتے اور سوچتے ہیں۔ بیشتر کو یہ احساس ہر وقت کچوکے لگاتا رہتا ہے کہ وہ ایک چھوٹی اور گمنام نہ سہی، ''کمنام‘‘ بستی میں ضرورت رہتے ہیں۔ یہ احساس اُنہیں مضطرب رکھتا ہے، کام پر متوجہ نہیں ہونے دیتا، زندگی سے بھرپور محبت پروان چڑھانے اور وقت و وسائل سے کماحقہٗ مستفید ہونے سے بھی روکتا ہے۔
کیا واقعی ایسا ہے کہ بڑے شہروں میں زندگی بسر کرنے کا موقع نہ پانے والے دوسروں سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں؟ اگر ہاں تو کس حد تک؟ اور کیا واقعی ایسا ہے کہ دیہی علاقوں، قصبوں یا چھوٹے شہروں میں بسر کی جانے والی زندگی کمتر درجے کی ہوتی ہے؟ اگر ہاں تو کیوں؟ یہ تعین کس بنیاد پر کیا جانا چاہیے کہ کہاں کی زندگی پست تر معیار کی ہے؟ دنیا بھر میں شہروں کی تعداد اور آبادی بڑھتی جارہی ہے۔ دیہات کو ہمیشہ کے لیے تج کر شہروں کو اپنا مستقل مستقر بنانے والوں کی تعداد اتنی تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ کم و بیش ہر ملک اس رجحان سے پریشان ہے۔ ہونا بھی چاہیے۔ بہتر معاشی امکانات تلاش کرنے کے لیے لوگ اپنے آبائی علاقے چھوڑ کر دور افتادہ شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں مختلف النوع اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ایک طرف درمیانے اور بڑے شہروں میں بنیادی ڈھانچے پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف بڑے کاروباری ادارے بڑے شہروں میں مرتکز ہوکر افرادی قوت کی مستقل طلب کا ماحول بنائے رکھتے ہیں۔ بڑے کاروباری اداروں کے پیدا کردہ معاشی امکانات دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی طرف نقل مکانی کے رجحان کو توانا رکھتے ہیں۔ تین چار عشروں کے دوران دنیا بھر میں شہروں کی آبادی بہت تیزی سے بڑھی ہے۔ شہروں میں بسنے والوںکا تناسب ارجنٹائن میں 92.11 فیصد، جاپان میں 91.78، آسٹریلیا میں 86.24، سعودی عرب میں 84.29، برطانیہ میں 83.90، ریاست ہائے متحدہ امریکا میں 82.66، کینیڈا میں 81.5، فرانس میں 80.97، روس میں 74.75، چین میں 61.43، پاکستان میں 37.16 اور بھارت میں 34.93 فیصد ہے۔
شہروں کی آبادی میں متواتر اضافے کا ایک بنیادی سبب تو یہ ہے کہ بڑے شہروں میں آباد ہونا اب ایک رجحان کا درجہ رکھتا ہے۔ ضرورت نہ ہو تب بھی بہت سے لوگ خود کو ایسا کرنے پر مجبور پاتے ہیں۔ شہروں کی آبادی بڑھنے کا دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ وہاں محض معاش ہی نہیں، تعلیم و تربیت اور تفریح کے وسائل اور ذرائع بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ جنہیں کچھ بننا ہو وہ اپنے آبائی علاقوں کو اس حوالے سے موزوں نہیں پاتے۔ اپنے علاقوں میں وہ ایک خاص حد تک ہی جاسکتے ہیں۔ اعلیٰ درجے کی زندگی یقینی بنانے کے لیے جو کچھ درکار ہے وہ انہیں شہروں میں دکھائی دیتا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ درمیانے اور بڑے حجم کے شہروں میں آباد ہونا موجبِ افتخار بھی ہوتا ہے۔
فی زمانہ کسی بھی بڑے شہر میں رہنا عمومی سطح پر کچھ زیادہ فائدے کا سودا نہیں۔ بڑا شہر آباد ہونے کے لیے ہوتا ہے مگر یہ ہر ایک کے لیے نہیں ہوتا۔ بڑا شہر غیر معمولی امکانات فراہم کرتا ہے مگر یہ امکانات سب کے لیے نہیں ہوتے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے، تربیتی مرحلے سے گزرتے ہوئے جو لوگ مثالی نوعیت کے کیریئر کی ابتدا کرنا چاہتے ہیں اُن کیلئے بڑے شہر سے زیادہ موزوں جگہ کوئی نہیں۔ چھوٹے شہروں اور قصبوں سے آنے والے بہت سے ذہین نوجوان محنت شاقّہ کے ذریعے کیریئر کی تیاری کرتے ہیں اور پھر اُنہیں بھرپور کامیابی کی منازل طے کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ بڑے شہروں میں آباد ہونے کا جنون اُن میں بھی غیر معمولی حد تک پایا جاتا ہے جنہیں بڑے شہر کچھ خاص نہیں دیتے۔ اگر کوئی کسی بڑی مہارت کا حامل نہیں اور اچھی تعلیم بھی نہیں پائی تو وہ جہاں ہے وہاں بھی بہت اچھی زندگی بسر کرسکتا ہے۔ اگر زندگی کا بنیادی مقصد صرف کمانا اور کھانا ہو تو اس کے لیے کوئی گاؤں بھی مثالی نوعیت کا ہوسکتا ہے۔ بڑے شہر اصلاً اُن کے لیے ہوتے ہیں جو غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ہونے کی صورت میں اپنے آبائی علاقوں یعنی چھوٹے شہروں یا دیہی علاقوں میں زیادہ امکانات نہیں پاتے۔ یا پھر بڑے شہر اُن کے لیے ہوتے ہیں جو پیدا ہی وہاں ہوئے ہوں اور کہیں اور آباد ہونے کی گنجائش نہ پاتے ہوں۔ اِن میں بھی اکثریت اُن کی ہے جو بڑے شہر میں محض اس لیے آباد ہیں کہ پیدا وہاں ہوئے اور خاندان بھی وہیں ہے مگر وہ خود کچھ زیادہ کرنے کی صلاحیت و سکت رکھتے ہیں نہ لگن۔ ایسے لوگ مرتے دم تک محض گزارے کی سطح پر زندگی بسر کرتے رہتے ہیں۔ شہروں کو بہت بڑا ہونے سے روکنا اصلاً ہر سطح کی حکومت کا کام ہے۔ چھوٹے شہروں کو ڈھنگ سے پروان چڑھایا جائے تو وہ اپنے آس پاس کے دیہی علاقوں کے لیے خاصی کشش کے حامل ہوسکتے ہیں۔ اگر بڑے شہروں والی بیشتر سہولتیں انسان کو اپنے آبائی علاقوں کے نزدیک میسر ہوں تو وہ کسی دور افتادہ بڑے شہر میں آباد ہونے پر مائل نہیں ہوتا۔ چھوٹے شہروں میں بہت کچھ نہیں ہوتا مگر دوسرا بہت کچھ ہوتا بھی تو ہے۔ بعض سہولتیں اِن شہروں میں نہیں ہوتیں مگر بڑے شہروں میں قدم قدم پر پائی جانے والی بہت سی الجھنیں بھی نہیں ہوتیں۔
بعض چھوٹے شہر فی زمانہ ایک معقول پیکیج کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان شہروں میں زندہ رہنے کی قیمت برائے نام ہوتی ہے۔ آبادی زیادہ نہ ہونے سے ٹریفک بھی زیادہ نہیں ہوتا اس لیے آمد و رفت میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ کسی کو یومیہ بنیاد پر لاحاصل سرگرمیوں میں الجھ کر ضائع نہیں کرنا پڑتا۔ چھوٹے شہروں کا رقبہ خاصا کم ہوتا ہے اس لیے اُن میں زندگی بسر کرنے والے قدرے سُکون سے جیتے ہیں۔ آبادی کے زیادہ نہ ہونے سے تعلقات بھی کم لوگوں سے ہوتے ہیں اور اُن کی نوعیت بھی مختلف ہوتی ہے۔ ان شہروں میں انسان قدرے پُرسکون رہتے ہوئے زندگی بسر کرسکتا ہے اور کرتا ہی ہے۔ انتظامی معاملات بھی زیادہ پیچیدگی اختیار نہیں کرتے۔ کسی بھی خرابی کی صورت میں متعلقہ ادارے کے اہلکاروں سے فوری رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ انتظامی سطح کی کسی بھی پیچیدگی کو دور کرنے میں زیادہ وقت صرف کرنا پڑتا ہے نہ زیادہ وسائل ضائع ہوتے ہیں۔ ڈھائی تین لاکھ کی آبادی والے شہر میں مقامی سطح کی حکومت پرکام کا زیادہ بوجھ بھی نہیں ہوتا۔ صفائی ستھرائی کا معاملہ بھی معقولیت کی حدود میں رہتا ہے۔ قصبے اور چھوٹے شہر کو مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت بھی اچھی حالت میں رکھ سکتے ہیں۔ لوگوں میں شعور بیدار کرنے کے حوالے سے زیادہ کوشش بھی نہیں کرنا پڑتی۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں