"MIK" (space) message & send to 7575

شوق جب عذاب بن بیٹھے

ہردور اپنے ساتھ بہت سے ایسے معاملات بھی لے کر آتا ہے جو کسی کی پسند کے نہیں ہوتے مگر انہیں قبول کرنا ہی پڑتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ قدرت شاید ہمیں آزمانے کی خاطر ایسا بہت کچھ ہمارے سامنے رکھتی ہے جو ہمارے مطلب کا نہیں ہوتا‘ بلکہ اُس سے ہمارا کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا مگر پھر بھی اُسے زندگی کا حصہ بناتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ آج بھی ایسا ہی چل رہا ہے۔ ہر صدی اپنے ساتھ ایسی تبدیلیاں لاتی رہی ہے جو گزشتہ صدیوں کے مقابلے میں بالکل نئی تھیں۔ فطری علوم و فنون کی ترقی نے انسان کو ایسا بہت کچھ دیا ہے جسے علمی و معاشی عمل کا کچرا قرار دیا جاسکتا ہے۔ قدرت ہمیں پھل دیتی ہے تو ساتھ ہی ساتھ اس بات کا بھی پابند کرتی ہے کہ اُس کے چھلکوں کو ڈھنگ سے ٹھکانے لگائیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو ماحول کی غلاظت بڑھتی ہے۔ اکیسویں صدی اپنے ساتھ ایسا بہت کچھ لائی ہے جو ہمارے کام کا بھی نہیں اور کسی بھی اعتبار سے ہم سے متعلق بھی نہیں مگر پھر بھی ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ جو انسان معاشرے کا حصہ ہو وہ معاشرے کے معاملات سے الگ تھلگ نہیں رہ سکتا۔ فی زمانہ ایسا بہت کچھ ہے جو انسان کو آزما رہا ہے مگر انسان کی جو آزمائش آن لائن کلچر میں ہے وہ کسی اور چیز میں نہیں۔ آن لائن کلچر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے ایک بڑے عذاب میں تبدیل ہوتا جارہا ہے۔
آج دنیا بھر میں نفسی امور کے ماہرین جن چند معاملات کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہیں اور لوگوں کو بہتر زندگی کے لیے اُن سے جان چُھڑانے کی تحریک دینے کی کوشش کر رہے ہیں اُن میں گیمنگ اور بالخصوص آن لائن گیمنگ سرفہرست ہے۔ چند برس پہلے تک گیمنگ محض ایک شوق کا درجہ رکھتی تھی‘ اب یہ لَت میں تبدیل ہوچکی ہے۔ تقریباً ہر بڑے معاشرے میں کروڑوں بچے اور نوجوان اس لَت کا شکار ہیں اور شکار تو کیا کہنا‘ یوں سمجھ لیجیے کہ گیمنگ ایک پنجرہ ہے اور نئی نسل کا ایک بڑا حصہ اِس میں قید ہوکر رہ گیا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ گیمنگ کا معاملہ بھی وہی ہے جو دوسرے بہت سے نشوں کا ہے۔ پہلے کسی چیز کی لَت ڈالی جاتی ہے اور پھر مال بٹورا جاتا ہے۔ گیم تیار کرنے والے بہت سے گیم مفت دیتے ہیں تاکہ لوگ اُن کے عادی ہو جائیں۔ مفت ملنے والے گیمز کھیل کھیل کر بچے اور نوجوان دھیرے دھیرے اُن کی ایسی لَت پال بیٹھتے ہیں جو چُھڑائے نہیں چُھوٹتی۔ بیشتر معاملات میں آن لائن گیمنگ منشیات اور شاپنگ جیسا معاملہ ہے۔ منشیات استعمال کرنے اور بلا جواز و بلا ضرورت شاپنگ کی طرح آن لائن گیمنگ بھی اب ایک ایسی لَت کی شکل اختیار کرچکی ہے جس کی سنگینی کی طرف ماہرین متوجہ کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت نے بھی اب آن لائن گیمنگ کو باضابطہ بیماری کا درجہ دے دیا ہے۔ طُرفہ تماشا یہ ہے کہ اس بیماری کی سنگینی کا اندازہ ہو جانے پر لوگ گلے تک اس دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔
گزشتہ برس اگست میں چینی حکومت نے والدین کے لیے ہدایت نامہ جاری کیا کہ بچوں کو ہفتے میں صرف تین اور وہ بھی صرف ایک ایک گھنٹے کے لیے گیمنگ کی اجازت دیں۔ اس ہدایت نامے پر عمل کرنا اگرچہ بہت مشکل اور جاں گُسل مرحلہ تھا مگر بہر حال والدین نے حکومت کے اعلان کا خیر مقدم کیا کیونکہ وہ اولاد میں پنپ جانے والی اس لَت کے حوالے سے بہت پریشان ہیں۔ بہت سے ممالک میں اب گیمنگ کی لَت کے علاج کے لیے کلینکس موجود ہیں۔ انٹر نیشنل کلاسی فکیشن آف ڈِس آرڈرز (آئی سی ڈی) میں بھی گیمنگ کو ایک باضابطہ ڈِس آرڈر (عارضہ) قرار دیا گیا ہے۔ ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کی مرکزی جامعہ سے سے وابستہ ماہرِ نفسیات رُن نیلسن کا کہنا ہے کہ جس طرح نکوٹین اور مارفین کی لَت ہوتی ہے بالکل اُسی طرح آن لائن گیمنگ بھی لَت کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ آئی سی ڈی نے آن لائن گیمنگ کو گیمبلنگ (جُوا) کے ساتھ رکھا ہے۔ دلیل یہ دی گئی ہے کہ جس طور جُوئے میں انسان اپنا مال داؤ پر لگاتا ہے بالکل اُسی طرح آن لائن گیمنگ بھی میں لوگ اپنی آمدن‘ وقت‘ سُکون اور توانائی کو داؤ پر لگاتے ہیں۔
دنیا بھر میں آن لائن گیمنگ کی لَت کے حوالے سے شدید تشویش کا اظہار کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ عصبی و نفسی امور کے ماہرین بھی میدان میں آچکے ہیں۔ حکومتوں پر زور دیا جارہا ہے کہ نئی نسل کو آن لائن گیمنگ سے دور رکھنے پر خاص توجہ دی جائے تاکہ مستقبل کے لیے درکار ذہانت کی قلت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ آن لائن گیمنگ بچوں کی سمجھنے اور سیکھنے کی صلاحیت پر بُری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔ وہ گیمنگ کے عادی ہو جانے کے بعد مستقبل کے حوالے سے سوچنا چھوڑ دیتے ہیں۔ بنیادی نوعیت کی تعلیم ہی اُن کی نظر میں سب کچھ ہوتی ہے۔ گیمنگ کے عادی بچے اور نوجوان غیر محسوس طور پر یہ بھی سمجھنے لگتے ہیں کہ اچھی زندگی بسر کرنے کے لیے کچھ زیادہ پڑھنے کی خاص ضرورت نہیں۔ امریکا کے شہر سئیٹل میں قائم گیمنگ ایڈکشن کلینک ''ری سٹارٹ‘‘ کی ڈائریکٹر ہلیری کیش کہتی ہیں کہ اُن کے پاس مشاورت کے لیے آنے والے ایسے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے جو آن لائن گیمنگ کے نتیجے میں مزاج میں پیدا ہونے والی کجی کے باعث سکول اور کالج سے نکال دیے گئے ہیں۔ سوال صرف تعلیم کی بربادی کا نہیں‘ زندگی کی بربادی کا ہے۔ نئی نسل بہت تیزی سے غیر متعلق سرگرمیوں کے گڑھے میں گر رہی ہے۔ آن لائن گیمنگ نے نئی نسل کی توجہ تعلیم سے ہٹاکر صرف تفریح پر لگا رکھی ہے۔ رُن نیلسن کا کہنا ہے کہ گیم تیار کرنے والے ادارے نفسیات کے شعبے میں کی جانے والی تحقیق اور رپورٹس کا عمیق مطالعہ کرتے ہیں۔ گیم تیار کرنے والے تکنیکی ماہرین نفسیات کے شعبے میں ہونے والی تحقیق سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے ایسے گیم تیار کرتے ہیں جن میں لوگ زیادہ سے زیادہ دلچسپی لیں‘ بلکہ اُن میں ڈوب جائیں۔ بچوں کے گیم تیار کرتے وقت بھی اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ اُن کی دلچسپی محض برقرار نہ رہے بلکہ بڑھتی ہی رہے۔ بچوں کے گیمز میں دلچسپی کا عنصر غیر معمولی ہوتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ ان گیمز کے ایسے عادی ہو جاتے ہیں کہ پھر اُن کی توجہ ہٹانا انتہائی دشوار ثابت ہوتا ہے۔
دنیا بھر میں آن لائن گیمنگ سے آمدن بھی بڑھتی جارہی ہے۔ 2020ء میں آن لائن گیمنگ سیکٹر سے ہونے والی آمدنی نے فلموں اور ویب سیریز سے ہونے والی آمدن کو پیچھے چھوڑ دیا۔ امریکا میں ایک حالیہ رپورٹ سے معلوم ہوا ہے کہ ایک سال کے دوران ایپل کے ایپ سٹورز کی آمدنی میں 70 فیصد حصہ گیمز کا تھا۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ بعض گیمز ڈبنگ کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں پاکستان اور دیگر ممالک کے کروڑوں بچے ہندی کے نامانوس الفاظ تحت الشعور کی سطح پر سیکھتے جارہے ہیں اور اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ بھارت میں ڈب کیے جانے والے بہت سے گیمز میں ہندو دیو مالا کے کرداروں کی آمیزش بھی ہوتی ہے۔ بعض گیمز تو تیار ہی ہندو دیو مالا کے مستند و معروف کرداروں کی ترویج کے لیے کیے جاتے ہیں۔ ستم بالائے ستم بعض گیمز میں مغلظات بھی بکی جاتی ہیں جو بچے غیر محسوس طور پر قبول کرکے گفتگو کا حصہ بنالیتے ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک کسی بھی حال میں اس امر کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ نئی نسل لایعنی و لاحاصل سرگرمیوں کی نذر ہو رہے۔ پاکستان کی نئی نسل مستقبل کی سب سے بڑی اُمید ہے‘ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر نئی نسل مستقبل کی سب سے بڑی اور واحد اُمید ہوتی ہے۔ پاکستان کی نئی نسل کو اکیسویں صدی کے تقاضوں سے کماحقہ آگاہ کرنے اور مطابقت پیدا کرنے کے قابل بنانے کے لیے بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ حکومت کو اس حوالے سے فوری نوٹس لینا چاہیے اور چینی حکومت کی طرح والدین کی راہ نمائی کرے‘ اُنہیں بتائے کہ بچوں کو آن لائن گیمنگ سے معقول حد تک دور رکھنا لازم ہے۔ معاملہ اتنا بگڑا ہوا ہے کہ اب یہ کام جنگی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں