"MIK" (space) message & send to 7575

جو جانے بس وہی بولے

ابلاغیات کی ترقی نے بہت گل کھلائے ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہوتا کہ ہر دور میں ایسا ہی تو ہوتا آیا ہے۔ تاریخ کا ریکارڈ کھنگالیے تو اندازہ ہوگا کہ ہر دور میں انسان نے بہت سے معاملات میں ترقی کی ہے اور اِس کے نتیجے میں بہت کچھ حاصل ہی نہیں ہوا بلکہ بہت کچھ ہاتھ سے جاتا بھی رہا ہے۔ ترقی کے معاملے میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ جو سُورج ہمیں غروب ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے وہ کہیں طلوع ہو رہا ہوتا ہے۔ کسی کا زوال کسی اور کے لیے عروج کی نوید لاتا ہے۔ فطری علوم و فنون کا یہی تو فسانہ ہے۔ بہت کچھ پانے کی تمنا اور کوشش میں ہمیں بہت کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔ یہ کوئی ڈھکا چھپا نکتہ نہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ ترقی کے پہلو بہ پہلو ترقیٔ معکوس بھی چلتی ہے۔ زندگی کا سفر اِسی طور جاری رہتا ہے۔ فی زمانہ میڈیا کے حوالے سے پیش رفت کا عالم یہ ہے کہ زندگی کا ہر معاملہ اب میڈیا کی چوکھٹ پر دکھائی دینے لگا ہے۔ ہمارا وجود، تمام معاملات میڈیا کی دسترس میں ہیں اور اِس طور ہیں کہ ہم کچھ کر نہیں سکتے۔ اب میڈیا فورمز کو کنٹرول کرنے کے بجائے اپنے آپ کو کنٹرول کرنا ہے، زندگی کو متوازن اور منضبط رکھنا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ وقت بہت بے رحم ہوتا ہے۔ وقت بے رحم ہوتا ہے نہ رحم دل۔ وہ ہر معاملے میں خالص غیر جانبدار رہتا ہے۔ جانب داری اور عدم توازن اگر پایا جاتا ہے تو بس ہم میں پایا جاتا ہے۔ فطرت رحم دل ہے نہ بے رحم۔ وہ طے شدہ اصولوں کے مطابق کام کرتی ہے۔ کسی بھی معاملے کو اپنے حق میں کرنا یا اپنے خلاف جانے دینا ہمارا کام ہے۔ کسی بھی شعبے میں کی جانے والی پیش رفت مثبت ہوتی ہے نہ منفی۔ ہم خود یہ طے کرتے ہیں کہ اُس پیش رفت کو ہماری زندگی پر مثبت اثرات مرتب کرنے چاہئیں یا منفی۔ ہم اکیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں جی رہے ہیں اور اب فطری علوم و فنون میں پیش رفت کی کیفیت یہ ہے کہ زندگی کا کوئی بھی معاملہ اِن کے پیدا کردہ اثرات سے محفوظ نہیں۔ انسان اچھا خاصا الجھ چکا ہے۔ فکری ساخت بُری طرح متاثر ہوچکی ہے اور اِس کے نتیجے میں رویے بھی کچھ کے کچھ ہوگئے ہیں۔ بعض معاملات میں انسان آج بھی غار کے زمانے کی سی ذہنیت کے ساتھ جی رہا ہے۔ متعدد اُمور کے حوالے سے ذہنی کجی بڑھتی جارہی ہے۔ عصری تقاضوں کے مطابق زندگی کو درست راہ پر گامزن رکھنے کے سلسلے میں مشوروں سے نوازنے والے ماہرینِ نفسیات و عمرانیات کا کہنا ہے کہ انسان نے خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا ہے۔ وہ صرف پیسے کے پیچھے بھاگ رہا ہے، زیادہ سے زیادہ طاقت جمع کرکے دوسروں سے اپنا وجود منوانے پر تلا ہوا ہے۔ یہ سب کچھ زندگی میں شدید عدم توازن پیدا کر رہا ہے۔
ابلاغ اور معلومات کی بھرمار نے انسان کے لیے بہت سی ذہنی پیچیدگیاں پیدا کی ہیں۔ دن رات ایسی باتیں ہمارے ذہن تک پہنچتی ہیں جو فکری ساخت پر بُری طرح اثر انداز ہوتی ہیں۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں‘ بہت کچھ ہے جو مختلف ذرائع سے ہم تک محض پہنچتا ہی نہیں بلکہ ہماری زندگی کا حصہ بھی بن کر رہتا ہے۔ زندگی کا توازن بحال کرنے کا اب صرف خواب دیکھا جاسکتا ہے۔ جو کچھ ہاتھ سے جاچکا ہے اُس کا اچھا خاصا حصہ اب ہمیں کبھی واپس نہیں ملنے والا۔ ہم چاہیں تو بھی اپنے کھوئے ہوئے ذہنی یا فکری اثاثوں میں سے بہت کچھ واپس نہیں لاسکتے۔ ہاں! اپنے آپ کو بہت سے معاملات میں متوازن رکھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے اور کی جانی چاہیے۔ ابلاغ کے بڑھتے ہوئے اثرات کو دیکھتے ہوئے ماہرین اس نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ انسان اپنے فکری معاملات کو ڈھیلا نہ چھوڑے بلکہ باضابطہ منصوبہ سازی کے ذریعے معاملات کو درست رکھنے پر توجہ دے۔ ہم جو کچھ میڈیا کے ذریعے دیکھتے، سُنتے اور پڑھتے ہیں وہ ہماری فکری ساخت کو بھی متاثر کیے بغیر نہیں رہتا۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ دن سیاسی شوز اور انٹر نیٹ کے ذریعے جو لوگ سیاست سمیت مختلف امور کے بارے میں بہت زیادہ پڑھتے یا سُنتے ہیں وہ دھیرے دھیرے، غیر محسوس طور پر، بلا ضرورت بولنے کے خبط میں مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ آج کے ہمارے معاشرے میں ایسے افراد لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں ہیں جو مختلف موضوعات یا اِیشوز پر بلا ضرورت اور بلا تکان بولتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ وہ دن رات بہت کچھ پڑھ، سُن اور دیکھ رہے ہیں۔ جو کچھ حواس کے ذریعے اُن کے ذہن تک پہنچتا ہے وہ ذہن کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتا۔ کوئی اس حقیقت کو تسلیم کرے یا نہ کرے، معاملہ یہ ہے کہ ہم بہت کچھ دیکھ اور سُن کر از خود نوٹس کے تحت ''ماہرین‘‘ کی صف میں شامل ہونے میں دیر نہیں لگاتے۔
کسی بھی موضوع پر سوچے سمجھے بغیر بولنا ایک ایسا ذہنی عارضہ ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنگین شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ عام آدمی کا یہ حال ہے کہ وٹس ایپ یا دیگر سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے آنے والی ہر پوسٹ کا کچھ نہ کچھ اثر قبول کرتا ہے اور جب بہت کچھ دیکھ لیتا ہے تب ماہرانہ رائے دینے کے مشن پر نکل پڑتا ہے۔ جو لوگ دن رات سوشل میڈیا آؤٹ لیٹس یا ایپس کے ذریعے خود کو زیادہ سے زیادہ باخبر رکھنے کی شعوری کوشش کرتے ہیں وہ بس یہیں تک نہیں رہتے بلکہ کئی قدم آگے جاکر وہ سب نمک مرچ لگاکر بیان بھی کرنا چاہتے ہیں جو اُن تک پہنچتا ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ دن بھر سوشل میڈیا ایپس اور ٹی وی پر جو کچھ دیکھتے اور سُنتے ہیں اُس کا ''کھچڑا‘‘ بناکر دنیا کے سامنے رکھتے رہتے ہیں۔ کسی بھی موضوع پر بلا ضرورت اور بلا تکان بولنے کی لَت اب خطرناک شکل اختیار کرچکی ہے۔ جو لوگ دن بھر اِدھر اُدھر سے آنے والی باتوں کو سمارٹ فون اور لیپ ٹاپ کمپیوٹر کے ذریعے وصول کرتے ہیں وہ کسی بھی معاملے میں ماہرانہ رائے دینے کو اب اپنا فطری، پیدائشی حق سمجھنے لگے ہیں۔ کوئی اگر توجہ بھی دلائے کہ ماہرانہ رائے درکار نہیں تب بھی وہ بولنے سے مجتنب رہنا گوارا نہیں کرتے۔ بہت سے کیسز میں یہ ڈیفالٹ کا معاملہ ہوکر رہ گیا ہے۔ یومیہ سماجی رابطے اب بلا ضرورت اور بلا جواز بولنے کی محافل میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ لوگ صرف اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جو کچھ سوشل میڈیا اور مین سٹریم میڈیا کے ذریعے اُن تک پہنچا ہے اُسے جلد از جلد دوسروں تک پہنچادیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنے ''موقف‘‘ کا تڑکا بھی لگا دیں۔ کسی کو اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ جو کچھ وہ بیان کر رہے ہیں وہ کسی کے لیے کس حد تک ضروری ہے اور کس حد تک پریشان کن ثابت ہوسکتا ہے۔ بلا ضرورت بولنے کا عارضہ اب اُس مقام پر ہے جہاں اِسے سنگین نفسی پیچیدگی قرار دیا جانا چاہیے۔ یہ قوم ہر معاملے میں کچھ کی کچھ ہوچکی ہے۔ جہاں بولنا لازم اور ناگزیر ہو وہاں کسی کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلتا۔ اور جہاں کچھ نہ کہنا لازم ہو وہاں ''بلاغت و فصاحت‘‘ کے دریا بہتے دکھائی دیتے ہیں!
فی زمانہ نئی نسل کو چھوٹی عمر سے یہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ بولنا بہت اہم عمل ہے۔ انسان کو اُتنا ہی بولنا چاہیے جتنا ضروری ہے۔ ہر معاملے میں کچھ نہ کچھ بولنا یا بولتے رہنا کسی بھی درجے میں ناگزیر ہے نہ کسی کی ضرورت پوری کرتا ہے۔ اگر معیاری انداز سے بولنا آتا ہو تب بھی اُسی وقت بولنا چاہیے جب ایسا کرنا لازم ہو۔ بعض معاملات میں اچھی گفتگو بھی ضرورت کے بغیر اچھی نہیں لگتی۔ ایسے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلا ضرورت بولی جانے والی کوئی بھی بات بہت سوں کے لیے کتنی پریشان کن ثابت ہوتی ہوگی۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم صرف ضرورت کے مطابق بولنے کا ہنر سیکھیں۔ یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہنا چاہیے کہ بولنا اُسی وقت ہے جب رائے طلب کی جائے۔ جہاں رائے طلب نہ کی گئی ہو وہاں بولنا معاملات کو بگاڑ دیتا ہے۔ اور بولنا بھی صرف وہی ہے جو متعلق ہو یعنی جس شعبے یا معاملے کے بارے میں کچھ معلوم ہو بس اُسی شعبے میں طبع آزمائی کی جائے۔ یہ بھی ہمہ وقت ذہن نشین رہے کہ جن معاملات سے دور کا بھی تعلق نہ ہو اُن کے بارے میں ''ماہرانہ رائے‘‘ بسا اوقات ''قاتلانہ رائے‘‘ بھی ثابت ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں