"MIK" (space) message & send to 7575

اِس غلامی سے بچنا ہے

اشیا و خدمات ہمارے لیے ہیں یا ہم اُن کے لیے؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ جس نے اس سوال پر غور کیا اور معقول جواب سوچا یا پایا‘ وہی کچھ کر پایا۔ بات اِتنی سی ہے کہ ہم اِس لیے کھاتے ہیں کہ زندہ رہیں۔ زندہ اِس لیے نہیں ہیں کہ کھاتے پیتے رہیں! اشیا و خدمات کا معقول استعمال ہمارے قلب و ذہن کو سُکون عطا کرتا ہے جبکہ حد سے بڑھا ہوا استعمال معاملات کو یوں بگاڑتا ہے کہ زندگی میں انتشار کے سوا کچھ نہیں رہ جاتا۔ کسی بھی انسان کی زندگی کا بنیادی مقصد یہ نہیں کہ وہ دن رات زیادہ سے زیادہ کمائے اور زیادہ سے زیادہ اشیا و خدمات سے مستفید ہوتا رہے یا اُن کا ڈھیر لگاتا رہے۔ دولت ہماری ضرورت پوری کرنے تک ہی کارآمد ہے۔ اگر ہم بلا ضرورت خرچ کرتے رہیں تو ایسی دولت ہمارے لیے صرف الجھنیں پیدا کرتی ہے۔ اگر ہم اشیا و خدمات کے مایا جال میں پھنس کر رہ جائیں یعنی بلا ضرورت بھی خرچ کرتے رہیں تو دل و دماغ کو سُکون عطا نہیں ہوتا۔ خوش رہنا انسان کی ایک انتہائی بنیادی ضرورت ہے اور مزاج بھی قدرت نے ایسا ہی بخشا ہے مگر انتہائی دل خراش حقیقت یہ ہے کہ انسان بے ذہنی اور لالچ کے ہاتھوں اپنے لیے ایسا ماحول پیدا کرتا ہے جس میں خوش رہنے کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔
کسی سے بھی پوچھ دیکھیے کہ زندگی کس طور بسر کرنی چاہیے، جواب ملے گا سُکون سے اور لالچ سے دور رہ کر مگر افسوس کہ جو آپ سے یہ بات کہے گا‘ اُس کی زندگی میں بھی آپ کو سُکون دکھائی نہیں دے گا۔ کیوں؟ اس لیے کہ کہنا بہت آسان ہے اور کرنا بہت مشکل۔ بھری دنیا میں کچھ ہی لوگ ایسے ہیں جو ماحول کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھتے ہوئے اپنی خواہشات کی غلامی قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں اور پورے ماحول سے صرف اُتنا ہی قبول کرتے ہیں جتنا اُن کے لیے واقعی ضروری ہوتا ہے۔ ماحول میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو ہماری استطاعت سے بڑھ کر بھی ہوتا ہے اور ہمارے کسی کام کا بھی نہیں ہوتا۔ لالچ کے ہاتھوں مجبور ہوکر ہم ایسی بہت سی چیزوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنا بیٹھتے ہیں جن سے دور رہنے ہی میں عافیت ہے۔ ہمیں بہت کچھ اچھا تو لگ رہا ہوتا ہے مگر کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ ہمارے لیے زیادہ کام کا نہیں۔ بہت حد تک ممکن ہے کہ جو کچھ آپ کے لیے بہت کام کا ہو‘ وہ کسی کے لیے بالکل کام کا نہ ہو۔ اور دوسری طرف ایسا بہت کچھ بھی ہے جو دوسروں کے لیے اہم ہے مگر آپ کے لیے اُس کی اہمیت نہیں۔ اِس فرق کو سمجھے بغیر آپ کامیاب زندگی کی طرف نہیں بڑھ سکتے۔ ہر مذہب میں بنیادی طور پر اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ ہمیں رُوئے ارض پر بسر کرنے کے لیے جو زندگی ملی ہے وہ زیادہ سے زیادہ دھن بٹورنے اور زیادہ سے زیادہ اشیا و خدمات سے مستفید ہونے کے لیے نہیں بلکہ اصلاً اس لیے ہے کہ ہم اپنی ضرورتوں کی حد میں رہتے ہوئے دوسروں کے لیے بھی اچھا سوچیں۔ انسان لالچ سے بچے تو اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی بھلا سوچ سکتا ہے۔ اِسی راہ پر بڑھنے کی صورت میں نَفس کی اصلاح ممکن ہو پاتی ہے۔
ماحول میں جو کچھ پایا جارہا ہے اُسے زیادہ سے زیادہ بٹورنے کی خواہش ایک جال کے مانند ہے جو ہمیں پھانسنے کے لیے بے تاب ہے۔ جس نے اپنے آپ کو ڈھیلا چھوڑا وہ مارا گیا۔ انسان کو اس لیے خلق نہیں کیا گیا کہ حیوانی سطح پر زندہ رہے، صرف اپنا بھلا سوچے اور دوسروں کے مسائل اور پریشانیوں سے یکسر لاتعلق رہے۔ صرف کھانے پینے کے لیے زندہ رہنا اور صبح کو کسی صورت شام کرنا خالص حیوانی سطح ہے۔ جو اِس سطح پر جیتے ہیں وہ ناکامی سے دوچار رہتے ہیں۔ حیوانی سطح پر زندگی بسر کرنے کی صورت میں ہم صرف جسم کو دیکھ رہے ہوتے ہیں جبکہ جسم کے اندر روح بھی ہے اور قلب و ذہن بھی۔ روح ہم سے بہترین اخلاق کا تقاضا کرتی ہے۔ ذہن چاہتا ہے کہ اُسے ڈھنگ سے بروئے کار لاتے ہوئے عقلِ سلیم کا وجود یقینی بنایا جائے۔ عقلِ سلیم یعنی آپ اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ متوازن بنائیں اور ایسے کاموں سے گریز کریں جن سے زندگی کا توازن بگڑتا ہو۔ ہم سبھی یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ دنیا کے پیچھے بھاگنے سے معاملات صرف بگڑتے ہیں اور یہ دنیا ہمارے لیے مزید دشواریوں کی حامل ہوتی جاتی ہے۔ پھر بھی ہم باز نہیں آتے۔ اِس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ نفس پر قابو پانے کے لیے دل و دماغ کو تربیتی مراحل سے گزارنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی اچھی عادت درخت پر نہیں اُگتی کہ ہاتھ بڑھایا اور توڑ لی۔ اپنے آپ کو بدلنے کے لیے سخت تربیتی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ ہر معاملہ رفتہ رفتہ درست ہوتا ہے۔ برسوں کی ریاضت کے بعد ہی انسان خود کو بدل پاتا ہے، بہتر بنا پاتا ہے۔
کسی بھی انسان کو زندہ رہنے کے لیے جو کچھ درکار ہوتا ہے اُس کا حصول تو ناگزیر ہوتا ہے مگر اِس مرحلے سے آگے بڑھ کر بہت سے لوگ اپنے وجود اور زندگی کو بوجھل بناتے جاتے ہیں۔ ایسے لوگ مختلف معاملات میں اپنی ضرورت تک محدود نہیں رہتے بلکہ اُس سے کہیں زیادہ بٹورنے کے فراق میں رہتے ہیں۔ زندگی ہر معاملے میں توازن کا نام ہے۔ بقا کے لیے جو کچھ حاصل کرنا لازم ہو وہ تو ہر حال میں حاصل کرنا چاہیے مگر جب اِس مرحلے سے کامیابی کے ساتھ گزرنا ممکن ہو جائے تو ٹھہرنا اور سوچنا چاہیے کہ زندگی کو زیادہ پُرسکون کیونکر رکھا جائے، ایسا کیا کِیا جائے جس سے زندگی کا لطف لینا بھی ممکن ہو۔ لوگ عموماً اِسی معاملے میں سنگین غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ بقا کی جنگ جیتنے کے بعد زندگی کی تزئین کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے۔ لوگ اس مرحلے میں خود کو لایعنی خواہشات کی نذر کردیتے ہیں۔ انتہائی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل میں کامیابی انسان کو اس بات کا موقع فراہم کرتی ہے کہ سُکون کے سانس لیتے ہوئے کچھ دیر ٹھہرے، اپنی زندگی کو زیادہ منظّم کرنے کی گنجائش پیدا کرے، زیادہ سے زیادہ مال سمیٹنے سے کہیں آگے جاکر زندگی کو متوازن رکھنے کے بارے میں منصوبہ سازی کرے۔ جو لوگ موقع اور گنجائش دیکھ کر زندگی کو زیادہ سے زیادہ پُرسکون بنانے کے بارے میں سوچتے ہیں اُن کی زندگی میں ہمیں توازن دکھائی دیتا ہے۔ ایسے لوگ مطمئن رہتے ہیں اور اپنے وجود کا حق ادا کرنے میں بھی بہت حد تک کامیاب رہتے ہیں۔ جو کچھ ہمارے ماحول میں پایا جاتا ہے وہ ہمارے ہی لیے ہوتا ہے مگر سب کا سب نہیں۔ ہمیں اپنے ماحول سے وہی کچھ لینا ہے جو ہمارے کام کا ہو۔ ہر طرح کی اشیا و خدمات ہماری زندگی کو زیادہ سے زیادہ متوازن اور آراستہ بنانے کے لیے ہوتی ہیں۔ اس معاملے میں رجحان اور رویہ کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ ضرورت پوری ہو جانے پر ہمیں اپنے گرد اشیا و خدمات کا ڈھیر لگانے سے گریز کرنا چاہیے۔ دانش کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی پر کسی بھی طرح کا غیر ضروری بوجھ نہ ہو۔ بوجھل زندگی اپنے ہی وجود کے لیے انتہائی مُضر ثابت ہوتی ہے۔
زندگی صرف اس لیے نہیں کہ اُسے کسی نہ کسی طور برقرار رکھا جائے۔ اِس سے کہیں آگے جاکر زندگی کو بامقصد اور بارآور بھی بنانا ہوتا ہے۔ زندگی کے صرف مادّی پہلو تک محدود رہنے والے ناکام کہلاتے ہیں۔ زندگی کے روحانی، نفسی اور اخلاقی پہلوؤں کے بارے میں بھی سوچنا اور اُن سے مطابقت رکھنے والی طرزِ بود و باش اختیار کرنا بھی ہمارے لیے ناگزیر ہے۔ ہر اعتبار سے متوازن زندگی ممکن بنانا کسی کے بس کی بات نہیں مگر ہاں، اِس بات کی کوشش ضرور کرنی چاہیے کہ زندگی میں زیادہ سے زیادہ توازن ہو اور ہم کسی بھی معاملے میں بے جا طور پر احساسِ جُرم کے حامل نہ ہوں۔ جو کچھ ہمیں درکار ہے اُس کا اہتمام قدرت کی طرف سے کیا ہی جانا ہے۔ اِس حوالے سے غیر ضروری طور پر فکر مند رہنا کسی بھی اعتبار سے کوئی اچھا عمل نہیں۔ یہ غیر ضروری فکر مندی ہی انسان میں لالچ اور اِس کے نتیجے میں اشیا و خدمات کے ڈھیر لگانے کی عادت پیدا کرتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں