دنیا بھر میں کورونا کی وبا ایک بار پھر بے لگام ہوگئی ہے۔ گزشتہ روز محض ایک دن میں مزید 30 لاکھ نئے کیس سامنے آئے ہیں۔ چند ہی دنوں میں کروڑوں نئے کیسز سامنے آنے سے کورونا کے حوالے سے تشویش بڑھ گئی ہے۔ امریکا اور یورپ میں بھی لوگ پریشان ہیں۔ ایسے میں بعض ایسے اشارے بھی ملے ہیں جو کسی بھی اعتبار سے قابلِ قبول نہیں اور اُن سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ کورونا کی لہروں کے حوالے سے سب کچھ ویسا نہیں‘ جیسا دکھائی دے رہا ہے۔ دال میں کچھ نہ کچھ تو کالا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ حقیقت یہ ہے کہ کورونا کی وبا کے حوالے سے اب تک دنیا بھر میں جو ردِعمل اور اقدامات دکھائی دیے‘ وہ رنگ برنگے ہیں۔ یورپ میں کورونا کی وبا نے بہت مسائل پیدا کیے مگر یورپ ہی میں بعض ممالک نے کورونا کے حوالے سے زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ کہا جارہا تھا کہ کورونا کی وبا بہت بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا باعث بن سکتی ہے۔ افریقہ میں اب بھی صرف پانچ فیصد کی حد تک کورونا ویکسین لگ سکی ہے؛ تاہم افریقہ میں کورونا کے ہاتھوں مرنے والوں کی تعداد خاصی کم ہے۔ اس حقیقت سے یہ بات تو بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ کورونا کی ہلاکت خیزی کے حوالے سے اب تک جو تخمینے لگائے گئے تھے‘ خدا کا شکر ہے کہ‘ وہ سچ ثابت نہیں ہوئے۔
کورونا کا معاملہ ابتدا ہی سے نظریۂ سازش کی زد میں رہا ہے۔ ہمارے جیسے کمزور اور الجھنوں سے دوچار معاشروں میں عام خیال یہ ہے کہ کورونا کی وبا پیدا نہیں ہوئی بلکہ پیدا کی گئی ہے۔ دنیا کی بڑی دوا ساز کمپنیوں کو اس حوالے سے شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ معاملات ہیں بھی کچھ ایسے کہ شک تو ابھرنا ہی ہے۔ امریکا اور یورپ نے چین پر الزام عائد کیا کہ کورونا کی وبا اُس نے پیدا کی۔ چین کا اپنا حال اِس وبا کے ہاتھوں بُرا ہوا۔ چینی معیشت بھی مستحکم نہ رہ سکی۔ امریکا اور یورپ کی جو حالت ہوئی‘ وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ معاشی الجھنوں سے دوچار ممالک کا جو حال ہوا وہ کسی کے لیے حیرت انگیز نہ تھا کیونکہ اِن ممالک میں کوئی بھی بڑا معاشی جھٹکا برداشت کرنے کی سکت نہیں تھی۔
کچھ دن قبل خبر آئی تھی کہ برطانیہ میں لوگ اب کورونا کی وبا کی روک تھام کے اقدامات سے تنگ آچکے ہیں۔ وہاں کورونا کی گرفت میں آنے والوں سے کنارہ کرنے کے بجائے اُن کو پارٹیاں دی جارہی ہیں تاکہ اُنہیں یہ احساس نہ ہو کہ اُنہیں معاشرے نے الگ تھلگ کردیا ہے۔ ایک وقت تھا کہ امریکا‘ برطانیہ اور باقی یورپ نے پوری دنیا کو مجبور کیا کہ سماجی فاصلہ رکھا جائے‘ ماسک لگایا جائے اور ہاتھ دن میں کئی بار دھوئے جائیں۔ ایسے میں کورونا کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں پر بھی انتہائی شرم ناک ردِعمل دکھائی دیا۔ پاکستان میں جو لوگ کورونا کی نذر ہوئے‘ اُن کی تدفین کے لیے قبرستان میں الگ تھلگ گوشے مختص کیے گئے‘ میتوں کو پیک کرکے دفنایا گیا۔ حالانکہ عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ایس او پیز کے ساتھ تکفین یا تدفین سے کورونا نہیں پھیلتا مگر اس کے باوجود کچھ ممالک میں بلاتفریقِ مذہب میتوں کو آگ لگانے کی روش اپنائی گئی۔
اب پاکستان سمیت سبھی جگہ پر کورونا کے سبب فوت ہونے والوں کو بالکل نارمل طریقے سے دفنایا جارہا ہے۔ ابتدا میں لوگوں کی ذہنی حالت یہ تھی کہ کورونا کے ہاتھوں مرنے والوں کے جنازوں کو کاندھا دینے سے بھی محض مجتنب ہی نہیں رہا کرتے تھے بلکہ روکا بھی کرتے تھے۔ جس گھر میں چند افراد کورونا وائرس کی زد میں آ جاتے تھے‘ اُس پورے گھرانے کو الگ تھلگ کردیا جاتا تھا۔ خیر و عافیت دریافت کرنے میں بھی احتیاط برتی جاتی تھی۔ اب ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ کیا کورونا وائرس کی تباہ کاری ٹل گئی؟ جی نہیں! کورونا وائرس تو جیسا تھا ویسا ہی ہے بلکہ اُس کا پھیلائو کافی بڑھ گیا ہے۔ تو پھر اب ہمیں کیا ہوگیا ہے کہ کورونا سے ڈر نہیں رہے؟ گزشتہ روز ملک بھر میں 6ہزار 357 نئے کیسز سامنے آئے اور گزشتہ سے پیوستہ روز 7ہزار 195۔صوبہ سندھ میں 5 لاکھ 26ہزار سے زائد فعال کیسز ہیں جبکہ اب کئی اہم سیاسی شخصیات کے بھی کورونا میں مبتلا ہونے کی خبریں تواتر سے موصول ہو رہی ہیں اس کے باوجود لوگوں میں احتیاط کا رجحان نہیں دیکھا جا رہا۔ عالمی ادارۂ صحت نے یہی کہا ہے کہ حالیہ لہر میں یہ ڈر نہیں کہ نئے ویری اینٹ اومیکرون سے ہلاکت خیزی بڑھ جائے گی بلکہ مریض اتنے زیادہ ہو جائیں گے کہ نظام صحت ان کے بوجھ تلے دب جائے گا۔
دوسری طرف دیکھا جائے تو ابتدا میں کورونا وائرس کی روک تھام کے نام پر کیے جانے والے اقدامات نے بیشتر افراد کو ذہنی مریض بنا ڈالا۔ بعض لوگوں کا تو حال ہوگیا کہ ایک ایک سال تک کسی سے نہ ملے! لوگ رسمی سی ملاقات کے لیے بھی آنا چاہتے تھے تو روک دیا جاتا تھا۔ بعض کا یہ حال ہوا کہ دن میں دس دس بار منہ ہاتھ دھوتے رہے اور یہی سلوک اپنے زیرِ استعمال چیزوں سے بھی کرتے رہے۔ جس مغرب نے ہمیں کورونا کی وبا کی روک تھام کے نام پر ایس او پیز کے شکنجے میں جکڑا تھا وہ خود اب تمام ایس او پیز سے جان چھڑا رہا ہے۔ برطانیہ نے اعلان کیا ہے کہ اگلے ہفتے سے ماسک سمیت بہت سے کورونا ایس او پیز ختم کر دیے جائیں گے۔ گھر سے کام کرنے کی روایت کا بھی خاتمہ ہوگا یعنی کاروباری اداروں کو اپنا سٹاف بلانے کی اجازت دی جارہی ہے۔ ایک طرف تو دنیا بھر میں روزانہ کورونا کے لاکھوں نئے کیس سامنے آرہے ہیں۔ ایسے میں اومیکرون کے حوالے سے بھی خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ جب وبا زور پکڑ رہی ہے تو پھر برطانیہ کورونا کے ایس او پیز میں نرمی کیوں برت رہا ہے؟
امریکا اور باقی یورپ نے اب تک کوئی ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔ اگر کورونا کی وبا اب زیادہ خطرناک نہیں رہی تو پھر پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک پر کورونا ایس او پیز کی تعمیل کے لیے دباؤ کیوں ڈالا جارہا ہے؟ پاکستان جیسے ممالک پر اس حوالے سے دباؤ بڑھاتے رہنے کی پالیسی پر عمل کیا جارہا ہے۔ بھارت میں بھی صورتِ حال خاصی خطرناک ہے۔ ایس او پیز کے نام پر وہاں مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے لوگوں کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ ڈیڑھ برس قبل بین الریاستی سفر پر پابندی عائد کرکے لاکھوں افراد کو شدید مشکلات سے دوچار کردیا گیا تھا۔ تب گھروں سے بہت دور کام کرنے والے لاکھوں افراد بُری طرح رُل گئے تھے۔ جب برطانیہ جیسا ترقی یافتہ اور صحتِ عامہ کے حوالے سے غیر معمولی حساسیت کا حامل ملک کورونا کی روک تھام کے نام پر زیادہ جذباتیت کا مظاہرہ نہیں کر رہا اور باقی دنیا کے حالات کو یکسر نظر انداز کرکے اپنی معیشت و معاشرت کو بحال کی راہ پر گامزن کرنے کی سمت رواں ہے تو پھر ہم کیوں اِتنے جذباتی ہو رہے ہیں؟ کورونا کی وبا اپنی جگہ اور ہمارے مسائل اپنی جگہ۔ ہمیں جو کچھ بھی کرنا ہے اپنے حالات کی روشنی میں کرنا ہے۔ کورونا کی وبا نے ہمیں دو برس میں جو نقصان پہنچایا ہے وہ صحت سے زیادہ معاشرت اور نفسی ساخت کا ہے۔ یہ دو برس ہم پر بہت کٹھن گزرے۔ معیشت کو خواہ مخواہ ڈانواں ڈول ہونے دیا گیا۔
گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت میں 62 سکول اور 15 ہوٹلز ایس ا و پیز کی مکمل پاسداری نہ کرنے کی پاداش میں بند کر دیے گئے‘ اس سے کتنے بچوں کا تعلیمی حرج ہو گا‘ یہ بالکل نہیں سوچا گیا ہو گا‘ وبا بجا سہی مگر اُس کی روک تھام کے نام پر بے عقلی سراسر بے جا ہے۔ جب کورونا کی وبا شروع ہوئی تھی تب بھی سویڈن اور ڈنمارک نے لاک ڈاؤن سے صاف انکار کردیا تھا۔ اِسی طور چند دوسرے ممالک نے بھی اعلانیہ اور دانستہ کورونا سے بچاؤ کی ویکسین لینے میں دلچسپی نہیں لی لہٰذا ہمارے اربابِ حل و عقد بھی سوچیں کہ کورونا کی وبا سے ایسے نمٹنا ہے کہ معاشرت اور معیشت کا سلسلہ چلتا رہے۔