ملک کے قیام کی ''پلاٹینم جوبلی‘‘ آنے والی ہے اور ہم اب تک یہی طے نہیں کرسکے کہ بننا کیا ہے اور کرنا کیا ہے۔ ان پچھتر برس میں دنیا کیا سے کیا ہوگئی اور کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر ہم ہیں کہ اب تک اِسی شش و پنج میں ہیں کہ کس کے نقوشِ قدم پر چلیں اور کسے ترک کریں۔ کیا ہم کبھی اس قابل ہوسکیں گے کہ اپنے لیے کوئی واضح راستہ چنیں اور اُس پر چل کر بھی دکھائیں؟ ابھی اِس کے آثار دور تک نہیں۔ قوم مختلف معاملات میں اس طور الجھی ہوئی ہے کہ بسا اوقات دل ودماغ کام کرنے سے انکار کرنے لگتے ہیں۔ جن سے یہ توقع تھی کہ قوم کو راہ دکھائیں گے وہ خود بھٹک گئے۔ عجیب ہی الجھن ہے۔ کوئی کرے تو کیا کرے؟ آج بھی جن سے ہم تھوڑی بہت توقع رکھ سکتے ہیں کہ قوم کے لیے کچھ کریں گے اُنہی کے معاملات دیکھ کر سر جھک جاتے ہیں۔
چینی میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ انہیں ترقی کے حوالے سے چین کے ماڈل نے بہت متاثر کیا ہے۔ چینی قیادت نے 35‘ 40 سال میں 70 کروڑ سے زائد افراد کو شدید افلاس کے دائرے سے نکالا ہے۔ یہ ہر اعتبار سے منفرد کارنامہ ہے۔ تاریخ میں پہلے کبھی کسی ملک نے اتنی کم مدت میں اِتنے زیادہ لوگوں کا معیارِ زندگی بلند نہیں کیا۔ ہمیں بھی لوگوں کو افلاس کے چنگل سے چھڑانا ہے اور اس کے لیے چین کا ماڈل اپنانا ہوگا۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پاک‘ چین دوستی مثالی ہے۔ شاہراہِ قراقرم کی تعمیر میں بہت سے چینیوں نے اپنی جان گنوائیں‘ سی پیک کے منصوبوں نے دونوں ممالک کو مزید قریب کردیا ہے۔ جنابِ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ چین کا ماڈل اس لیے بہت اہم اور پُرکشش ہے کہ وہاں باقی دنیا کی طرح یہ نہیں ہوا کہ امیر امیرتر اور غریب غریب تر ہوتا گیا۔ سب نے ترقی کی اور ملک کے مجموعی معاشی استحکام کے ثمرات کم و بیش ہر انسان کی دہلیز تک پہنچے۔ اُن کا کہنا تھا کہ میں چین کے ترقیاتی ماڈل کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننا چاہتا ہوں تاکہ پاکستان میں بھی اس حوالے سے کچھ کیا جاسکے۔ صنعت اور زراعت دونوں ہی شعبوں میں ہمیں چین سے مدد درکار ہے۔ چین نے کپاس کی ایسی اقسام تیار کی ہیں جو خشک سالی سے دوچار علاقوں میں بھی پنپتی ہیں۔ وزیر اعظم مختلف مواقع پر مختلف ماڈلز کی بات کرتے رہے ہیں۔ کبھی اُنہوں نے کہا ہے کہ وہ ترقی کے ساتھ ساتھ بہبودِ عامہ یقینی بنانے کے حوالے سے مدینہ کی ریاست کے ماڈل کو اپنانا چاہتے ہیں‘ کبھی اُنہیں نے یورپی یونین کو مثال قرار دیا ہے‘ کبھی ترکی کے نظام کو آئیڈیل کہا اور کبھی ایران کے حکومتی نظام کو۔ یعنی اب تک یہی طے نہیں کیا جاسکا کہ ملک کو کس سمت لے کر جانا ہے۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ ملک جس طرح کے حالات سے دوچار ہے اُن کی روشنی میں کیا ہم کسی ماڈل کو اپناسکتے ہیں یا پھر ہمیں اپنا ماڈل خود تیار کرنا ہے؟ کرنا تو بہت کچھ ہے مگر پہلے یہ تو طے ہو جائے کہ کرنا کیا ہے۔ سمت ہی معلوم یا طے نہ ہو تو ہم آگے کیسے بڑھیں گے؟
قومی قیادت کے لیے کئی چیلنج ہیں۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ معاملات اُتنے سادہ نہیں ہیں جتنے ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ ملک کو پسماندگی اور جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ترقی و خوش حالی کے اجالوں کی طرف لے جانا بچوں کا کھیل نہیں۔ جو نیک نیتی کے ساتھ کچھ کرنا چاہتے ہیں اُن کی راہ میں طرح طرح کی مشکلات حائل ہیں۔ پسماندگی کو شکست دینے کا معاملہ کوئی پھل دار درخت کا معاملہ تو ہے نہیں کہ ہاتھ بڑھایا اور ضرورت کے مطابق پھل توڑ لیے۔ ملک کم و بیش ہر معاملے میں انتہائی نوعیت کے زوال سے دوچار ہے۔ محض باتیں بنانے، شیخی بگھارنے اور شیخ چلی کی طرح منصوبے بناتے رہنے سے کچھ نہیں ہوتا اور ہو بھی نہیں سکتا۔ کسی بھی ملک کو پسماندگی سے نکالنے کے لیے مختلف محاذوں پر کام کرنا پڑتا ہے۔
چین بھی مثالی پس ماندگی سے دوچار تھا۔ ایک دور تھا کہ چینیوں کی غالب اکثریت افیم سمیت مختلف نشوں کی عادی تھی۔ اس کے نتیجے میں ملک شدید پسماندگی اور افلاس کے چنگل میں پھنس گیا۔ حد یہ ہے کہ جاپان جیسا چھوٹا ملک بھی اُس پر غالب آ گیا۔ چینیوں کو اُس دور کو پیچھے چھوڑنے اور اُس کے شدید منفی اثرات سے نجات پانے میں کئی عشرے لگے۔ 1949ء میں کمیونسٹ پارٹی کا اقتدار قائم ہونے کے بعد چین کے حالات میں مثبت تبدیلیوں کی راہ ہموار ہوئی۔ بادشاہت کے خاتمے نے چین کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا۔ چین کی تاریخ مختلف خاندانوں کی بادشاہت سے عبارت ہے۔ چینیوں نے اپنی تاریخ کو بھلایا نہیں مگر شاہی گھرانوں کے لوگوں کی تکریم کرنے کی روش پر چلنا گوارا نہ کیا۔ جاپان میں شاہی خاندان کو آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ یورپ کے بہت سے ممالک میں علامتی بادشاہت آج تک ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ذہن پوری طرح تبدیل نہیں ہوئے۔ چین نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ جن خاندانوں نے اُن پر صدیوں حکومت کی اور قومی وسائل کو بے دردی سے لُوٹا اُن کے لیے ملک میں کوئی جگہ نہیں۔ شاہی خانوادوں کے لوگ آج بھی ہوں گے مگر کوئی اُنہیں پوچھتا نہیں۔ حکومتی سطح پر اُنہیں نوازنے کا چلن بھی نہیں۔ یعنی چینیوں نے طے کیا کہ جن مٹھی بھر لوگوں نے صدیوں تک کروڑوں افراد پر راج کیا اور اُنہیں پس ماندہ رکھ کر خود آسائشوں سے مزین زندگی بسر کرتے رہے اُنہیں کسی بھی درجے میں محترم نہیں رکھنا۔ کیا ہم اِس کے لیے تیار ہیں؟
ترقی کے حوالے سے چین کا ماڈل اپنانے کے لیے خطرناک حد تک انقلابی نوعیت کے اقدامات کرنا ہوں گے۔ سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے جو دیمک کی طرح ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرتا آیا ہے۔ چین میںکرپشن کے لیے زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہے یعنی عوام کے وسائل ڈکار جانے والوں کو کسی بھی درجے میں قبول نہیں کرنا۔ کیا ہم ایسا کر پائیں گے؟ آج ہمارے ہاں ایک طرف ریاستی یا حکومتی مشینری میں شدید نوعیت کی کرپشن ہے اور دوسری طرف کاروباری ادارے مافیا کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ ملک میں کھلے بازار کی معیشت کا اصول کارفرما ہے مگر بڑے کاروباری اداروں نے بازار کو اپنی مٹھی میں کر رکھا ہے۔ یہ روش خود بخود ترک نہیں کی جاسکتی۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت کاروباری اداروں اور ریاست کی انتظامی مشینری سے کہے کہ اپنی اصلاح کرلیں اور وہ اپنی اصلاح پر مائل ہوجائیں۔ اس کے لیے طاقت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ قانون کے نفاذ کی طاقت بروئے کار لائے بغیر ہم اپنے ہاں چین جیسے کسی بھی ملک کا معاشی ماڈل متعارف کراسکتے ہیں نہ دل سے اپناسکتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں بگاڑ بہت زیادہ ہے۔ سوال صرف معاشی نہیں‘ اخلاقی کرپشن کا بھی ہے۔ جہالت ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ملک کی آبادی قبیلوں، برادریوں، نسلی گروہوں، ثقافتی حلقوں اور فقہی مسالک میں منقسم ہے۔ مکمل فکری ہم آہنگی خواب و خیال کا معاملہ ہے۔ عام آدمی کا یہ حال ہے کہ ایک طرف تو اُسے مختلف خانوں میں بانٹ دیا گیا ہے اور دوسری طرف اُس میں اپنے لیے اور ملک کے لیے کچھ کرنے کی لگن بھی ختم کر دی گئی ہے۔ مایوسی کا دائرہ وسعت اختیار کرتا جارہا ہے۔ ایسے میں کام کرنے کی لگن تو بہت دور‘ زندہ رہنے کی لگن بھی کمزور پڑ رہی ہے۔ عام آدمی اِس طور جی رہا ہے گویا سانسوں کی گنتی پوری کر رہا ہو۔
پہلے مرحلے میں تو اہلِ وطن کو یہ یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ جو ملک کے معاملات چلاتے ہیں وہ اُن کا بھلا چاہتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت اہلِ اقتدار عام آدمی کے بارے میں کچھ بھی نہیں سوچ رہے۔ معاملات کو ''آٹو‘‘ پر چھوڑ دیا گیا ہے یعنی یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ تمام مسائل ایک دن خود بخود حل ہو جائیں گے۔ کسی بھی ماڈل کو اپنانے سے پہلے گراؤنڈ ورک اور ہوم ورک لازم ہے۔ پس ماندگی گھاس پُھوس نہیں کہ ہاتھ سے اکھاڑ دی۔ اِس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ منصوبہ بندی جامع ہونی چاہیے اور کام کرنے کی لگن بھی مثالی نوعیت کی ہونی چاہیے۔