"MIK" (space) message & send to 7575

بے ذہنی کے ساتھ جینے کی عادت

غیر حقیقی انداز سے جینا کیا ہوتا ہے یہ بات ہم سے بڑھ کر شاید ہی کسی کو معلوم ہو۔ ہم ایک ایسی طرزِ زندگی کے حامل ہیں جس میں بہت کچھ بے ڈھنگا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ عمومی سطح پر ہمیں اِس کا احساس تک نہیں۔ اِس کا وہی نتیجہ برآمد ہو رہا ہے جو ہونا چاہیے تھا‘ یعنی زندگی میں کچھ بھی ایسا نہیں جو متوازن ہو، اعتدال کی حدود میں ہو۔ آج کم و بیش ہر طبقہ اپنے اپنے طور پر پریشانی سے دوچار ہے۔ جن کے پاس دنیا بھر کی نعمتیں ہیں وہ بھی دن رات الجھے رہتے ہیں اور جن کے ہاتھ خالی ہیں وہ بھی اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں کوئی لُوٹ نہ لے!
غیر حقیقی طرزِ زندگی یہ ہے کہ انسان اپنے وسائل اور صلاحیت و سکت کو یکسر نظر انداز کرکے شدید نوعیت کی بے ذہنی کے ساتھ بالکل حیوانی سطح پر زندگی بسر کرے۔ کسی سے بھی پوچھ دیکھئے کہ کیا ایسی زندگی بسر کیے جانے کے قابل ہوتی ہے؟ وہ جواب نفی میں دے گا مگر غور کیجیے گا تو وہ خود بھی ایسا ہی کرتا پایا جارہا ہوگا! جب ذہنوں کے دروازے بند کرلیے جائیں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں اکثریت نے ذہن سے کام لینا چھوڑ دیا ہے۔ اور اِس سے بھی بڑی اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں بیشتر وہ ہیں جو اس بات پر یقین ہی نہیں رکھتے کہ ذہن بروئے کار لانے اور زندگی کو آسان بنانے کے لیے ہوتا ہے۔ جب ذہن سے کام لینے میں برائے نام بھی دلچسپی نہ لی جائے اور ذہنی صلاحیتوں کو محض عمومی معاملہ سمجھ کر بالائے طاق رکھ دیا جائے تب معاملات صرف خرابی کی طرف جاتے ہیں اور جارہے ہیں۔
کسی بھی پس ماندہ معاشرے کی پسماندگی کے بنیادی اسباب کا جائزہ لیجیے تو بہت جلد آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ بیشتر خرابیاں محض اس بات سے پیدا ہوتی ہیں کہ لوگ ذہن سے کام لینے میں تساہل برتتے ہیں اور بہت سے تو عار محسوس کرتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں اگر کسی کو یہ سمجھانے کی کوشش کیجیے کہ سوچ سمجھ کر، ذہن سے کام لینے کی عادت اور مشق ہی انسان کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بناتی ہے تو وہ آپ کو یوں دیکھتا ہے گویا آپ کسی اور سیارے کی مخلوق ہوں! ایسا اس لیے ہے کہ جہاں طرزِ زندگی ہی بے ذہنی سے عبارت ہو وہاں کوئی بھی نہیں چاہتا کہ زیادہ سوچے اور سمجھے۔ ایسے ماحول میں لوگ صرف جینے پر یقین رکھتے ہیں، شعوری سطح پر زندگی بسر کرنے کو اپنے دل و دماغ پر بوجھ گردانتے ہیں۔ جہاں ہر طرف بے ذہنی کا چلن عام ہو بلکہ بے ذہنی کا راج ہو وہاں ذہن سے کام لینے والے عجیب لگتے ہیں۔ ہمارا بھی یہی کیس ہے۔ ہمارے ہاں بھی اب عمومی سطح پر بے ذہنی کو سب سے بڑے چلن کا درجہ حاصل ہوچکا ہے۔ لوگ سوچنے اور سمجھنے کی زحمت گوارا کیے بغیر جیے جارہے ہیں۔ بھرپور نظم و ضبط کے ساتھ، ذہن کو بروئے کار لاتے ہوئے، منصوبہ سازی کو زندگی کا اہم جُز بناتے ہوئے زندگی بسر کرنے میں لوگ اس لیے الجھن محسوس کر رہے ہیں کہ ہر طرف انتشار ہے، بے ذہنی ہے، نظم و ضبط کا شدید فقدان ہے۔ ایسے میں کوئی کیا کرے؟ جو لوگ ڈھنگ سے یعنی بھرپور نظم و ضبط کے ساتھ جینا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے مشق کرتے ہیں وہ خود کو مشکلات میں گھرا ہوا پاتے ہیں۔ ایسے لوگ کہیں اور تو کیا‘ اپنے ہی گھر میں اجنبی ہوکر رہ جاتے ہیں۔
بے ذہنی کے ساتھ جینے کی عادت کیوں پختہ ہوتی جاتی ہے؟ کیا واقعی ایسا ہے کہ اب ذہن سے کام نہ لینا ہمارا مقدر ہوکر رہ گیا ہے؟ یہ اور ایسے ہی بہت سے سوالات ہر اُس انسان کے ذہن میں طوفان برپا کیے رہتے ہیں جو ڈھنگ سے جینے کا خواہش مند ہے اور دوسروں کو بھی ڈھنگ سے زندگی بسر کرتے ہوئے دیکھنے کی آرزو کرتا ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ غیر منظم زندگی بسر کرنے کی صورت میں انسان کو بہت سے معاملات میں ایثار کی منزل سے گزرنا نہیں پڑتا۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ایثار سے کام لینے میں قدرت نے کس قدر لطف رکھا ہے۔ عمومی سطح پر لوگ صرف یہ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ آسانی کے ساتھ جئیں۔ آسانی یقینی بنانے کی کوشش انسان کو مشکلات سے دوچار کرتی جاتی ہے۔ ہم ایک ایسے ماحول میں جی رہے ہیں جس میں لوگ سوچنے اور سمجھنے کے مرحلے سے گزرے بغیر جینا چاہتے ہیں اور جی رہے ہیں۔ اس کا بنیادی سبب ہے فوری آسانی اور سہولت۔ کوئی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ وقتی نوعیت کی آسانی اور سہولت بعد میں چل کر کتنے مسائل پیدا کرتی ہے اور زندگی کتنی الجھتی چلی جاتی ہے۔
جب انسان ہر معاملے میں آسانی اور سہولت تلاش کرتا ہے تب طویل المیعاد سوچ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ دور اندیشی یہ ہے کہ انسان تھوڑی سی سہولت کی خاطر پوری زندگی کو داؤ پر نہ لگائے۔ اب فاسٹ فوڈ ہی کی مثال لیجیے۔ لوگ وقت بچانے کے لیے فاسٹ فوڈ کو ترجیح دیتے ہیں۔ فاسٹ فوڈ کے نام پر جتنی بھی چیزیں ہم کھاتے ہیں وہ ہمارے معدے اور دیگر اعضا کا بیڑا غرق کرنے پر تُلی رہتی ہیں۔ یہ ایسی اشیا ہیں جو تھوڑی سی محنت سے ذرا سی دیر میں تیار ہو جاتی ہیں۔ ان کے پکنے کی نوعیت ایسی ہے کہ ہمارا جسم صرف خرابی سے دوچار ہوتا ہے۔ پھر بھی ہم فاسٹ فوڈ ترک نہیں کرتے۔ کیوں؟ یہ آسانی سے کھائی جانے والی اشیا ہیں۔ فاسٹ فوڈ ہم کہیں بھی بیٹھ کر یا پھر چلتے پھرتے کھا لیتے ہیں۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ فاسٹ فوڈ در حقیقت سلو فوڈ ہے یعنی یہ زندگی کی رفتار کم کردیتی ہے!
ہمارا جو رویہ فاسٹ فوڈ کے حوالے سے ہے وہی دیگر بہت سے معاملات میں بھی ہے۔ ہم کیریئر جیسے اہم معاملے کے بارے میں سوچنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں جب کوئی جوان ہوتا ہے تو گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرنے کی خاطر کچھ بھی کرنے لگتا ہے۔ جب معاشی جدوجہد لازم ٹھہری تو سوچ سمجھ کر کیوں نہ کی جائے؟ کیوں نہ منصوبہ سازی کے ذریعے کیریئر کی راہ متعین کی جائے اور چند اہداف کا تعین کرکے اُن کے حصول کے لیے منظم کوشش کی جائے؟ آج نوجوانوں کے سامنے اس طرح کی باتیں کیجیے گا تو وہ آپ کو یوں گھوریں گے گویا آپ کی ذہنی حالت پر شک ہو! بے ذہنی آسان راستہ ہے مگر یہ صرف خرابی کی طرف لے کر جاتا ہے۔ نظم و ضبط کے ساتھ گزاری جانے والی زندگی میں بہت سی مشکلات ہیں مگر یہ زندگی آپ کو طے شدہ مقاصد کی طرف لے کر جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پورا ماحول اتنا بگڑا ہوا ہے کہ ڈھنگ سے جینے کی کوشش انسان کو شدید مشکلات سے دوچار کرتی ہے۔ اور یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ بہت سوں کو واضح منصوبہ سازی اور نظم و ضبط کے بغیر جینے میں زیادہ لطف آتا ہے اس لیے وہ دوسروں میں بھی ایسی ہی عادات دیکھنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی ذہن سے کام لے، سوچے، منصوبہ سازی کرے، نظم و ضبط کو اپنائے اور طے کردہ مقاصد کے حصول کیلئے جدوجہد کرے تو عجیب دکھائی دیتا ہے۔
آپ کے لیے بہتر اور معقول طرزِ زندگی وہی ہے جو دانش کے دائرے میں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ذہن اس لیے عطا نہیں کیا کہ اِسے استعمال کیے بغیر ''ڈبہ پیک‘‘ حالت میں واپس لے جائیں۔ یہ نعمت بروئے کار لانے کے لیے ہے۔ ہمارے خالق کی منشا ہے کہ ہم ذہن سے کام لیتے ہوئے اپنی اور دوسروں کی زندگی آسان بنائیں۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم ذہن کو اپنائیں۔ ذہن کو اپنانے کے لیے پہلے اُسے تسلیم اور قبول کرنا پڑتا ہے اور پھر یہ بھی ماننا پڑتا ہے کہ اُسے بروئے کار لانے سے زندگی آسان اور منظم ہوتی ہے۔ معاشرے میں ہر طرف بے ذہنی کا چلن دیکھتے ہوئے ذہن کو پورے من سے قبول کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ جہاں ہر معاملے میں شارٹ کٹ عام ہو وہاں سیدھے راستے پر چلتے ہوئے فطری رفتار و انداز برقرار رکھنا اپنے آپ کو بہت بڑی آزمائش میں ڈالنے جیسا ہے۔ ہاں! ایک بار ذہن کو قبول کرکے چلنا شروع کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ یہ راستہ کتنا مزے کا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں