خدا ہی جانے کون کون سے شعبے ہیں‘ جن سے متعلق ہم اب تک حتمی طور پر کچھ طے ہی نہیں کر پائے۔ بنیادی تعلیم ہی کو لیجیے۔ عام آدمی کے ذہن میں اب تک یہ تصور پایا جاتا ہے کہ بچہ پڑھ لکھ کر کام کرے گا یعنی گھر چلانے میں مددگار بنے گا‘ کچھ کماکر لائے گا۔ یہ مکمل طور پر غلط بھی نہیں۔ کسی بھی بچے کو پڑھانے اور سکھانے کا ایک بنیادی مقصد کمانے کے قابل بنانا ہے مگر ہم بھول جاتے ہیں کہ دو وقت کی روٹی باعزت طریقے سے کمانے کے قابل بنانا تعلیم کے بنیادی مقاصد میں سے ایک ہے‘ یہ اس کا حتمی اور واحد مقصد نہیں۔والدین جب بچوں کو سکول میں داخل کراتے ہیں تب اُن کے ذہن میں یہی ایک بات رہتی ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر عملی زندگی کے قابل ہوجائیں اور عملی زندگی کا مفہوم اُن کے ذہن صرف یہ ہے کہ بچہ کمانے کے قابل ہو جائے اور گھر چلائے۔ کیا واقعی تعلیم و تربیت کا بنیادی مقصد صرف یہی ہے؟ کسی بھی درجے کی تعلیم کا یہ حتمی مقصد نہیں۔
ہر دور کے عام انسان نے تعلیم کے حوالے سے یہی غلطی کی۔ اُس کا ذہن بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے کبھی واضح نہیں رہا۔ یہی سبب ہے کہ بچوں کو تعلیم و تربیت سے جو کچھ ملنا چاہیے‘ وہ نہیں مل پاتا۔ذرا سوچئے کہ اگر تعلیم کا بنیادی مقصد انسان کو صرف کمانے کے قابل بنانا ہے تو پھر ارب پتی افراد اپنی اولاد کو کیوں پڑھاتے ہیں؟ جن کی اگلی بیس‘ تیس نسلیں بھی کچھ کیے بغیر بہت مزے سے جی سکتی ہیں اُنہیں اپنی اولاد کو سکول‘ کالج یا یونیورسٹی بھیجنے کی کیا ضرورت ہے؟ جب کمانے کی ضرورت ہی نہیں تو پھر بچوں کو کیا اور کیوں سکھایا جائے؟ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی صرف کمانے کا نام نہیں۔ کمانے کا ہنر سیکھ لینا اس بات کی گارنٹی نہیں کہ اب زندگی ڈھنگ سے گزاری جاسکتی ہے۔ کمائی کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کا ہنر بھی سیکھنا پڑتا ہے۔ ہم بچوں کو اعلیٰ تعلیم و تربیت سے لیس کرنے ہی کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں۔ سکول، کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر بہت کچھ سیکھنا ہوتا ہے۔ بچوں میں ایک طرف اعتماد پیدا ہونا چاہیے اور دوسری طرف دانش سے کام لینے کی صفت بھی۔ اگر کسی میں غیر معمولی اعتماد پایا جائے مگر عقلِ سلیم بروئے کار لانے کا رجحان ناپید ہو تو؟ زندگی غیر متوازن رہے گی۔ بہت سوں کو آپ نے دیکھا ہوگا کہ اعلیٰ تعلیم تو حاصل کرلی مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ کامیابی یہ نہیں کہ بہت کچھ کمالیا۔ بہت کچھ کمانے کے بعد اگر اُسے ڈھنگ سے بروئے کار نہ لائے تو بھی زندگی میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ ایسے میں بھرپور خوشحالی اور ذاتی بہبود یقینی بنانا ممکن نہیں ہوپاتا۔
سوال یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کس لیے ہے؟ بچوں کو بہتر انسان بنانا تعلیم و تربیت کا انتہائی بنیادی مقصد ہے۔ کسی بھی بچے کو ہم سکول میں اس لیے داخل نہیں کراتے کہ وہ کمانے کے قابل ہو۔ کمانے کے ایسے بہت سے طریقے ہیں جنہیں سیکھنے کے لیے سکول یا کسی تعلیمی ادارے میں داخل ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ اپنے ماحول میں آپ کو ایسے بہت سے لوگ مل جائیں گے جنہوں نے کسی تعلیمی ادارے کا منہ نہیں دیکھا ہو گا مگر اُن کی آمدن اچھی خاصی ہے۔ بیشتر ہنر ایسے ہیں جن کے لیے پڑھا لکھا ہونا لازم نہیں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کی تو بالکل ہی ضرورت نہیں۔ ہمیں اِس عمومی حقیقت پر کچھ حیرت نہیں ہوتی کیونکہ کسی بھی عمومی بات پر حیرت نہیں ہوا کرتی۔ البتہ پیشہ ورانہ تعلیم کا بنیادی مقصد بچے کو کسی ہنر میں یکتا کرکے کچھ کمانے کے قابل بنانا ہوتا ہے۔ یہ خصوصی معاملہ ہے۔ اس لیے تھوڑی بڑی عمر میں ہوتا ہے۔ ہم چار‘ پانچ سال کے بچے کو ہنر سیکھنے کے لیے سکول نہیں بھیجتے۔ پیشہ ورانہ تعلیم پندرہ سولہ سال کی عمر سے شروع ہوتی ہے۔ ابتدائی آٹھ دس جماعتوں کی تعلیم اصلاً اس بات کے لیے ہے کہ بچہ زندگی بسر کرنے کا ہنر سیکھے۔ زندگی بسر کرنے کا ہنر؟ یعنی اُسے دوسروں سے اچھی طرح بات کرنے، معاملات کو نمٹانے اور سلجھانے کا ہنر آنا چاہیے۔ بھرپور اعتماد کے ساتھ کسی بھی صورتِ حال کا سامنا کرنے کی صلاحیت و سکت پیدا کرنا تعلیم کا بنیادی کام ہے۔ اِس سے آگے جو کچھ بھی ہے وہ اضافی ہے۔ اس حقیقت پر کم ہی لوگ غور کرتے ہیں کسی بچے کو سکول یا کالج کی تعلیم و تربیت کے ذریعے کروڑ پتی یا ارب پتی بننا نہیں سکھایا جاسکتا لیکن اگر تعلیم پر توجہ نہ دی جائے اور بچے کی تربیت ادھوری رہ جائے تو وہ باپ‘ دادا کے کمائے ہوئے اربوں روپے مٹی میں ضرور ملا سکتا ہے! ابتدائی درجات کی تعلیم و تربیت زندگی ڈھنگ سے بسر کرنے کا ہنر سکھانے کے لیے ہوتی ہے۔ سکول کی سطح پر بچہ سیکھتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ مل کر کیسے جیا جاتا ہے اور یہ کہ سب کے ساتھ رہتے ہوئے بھی اپنی انفرادیت کس طور قائم اور برقرار رکھی جاسکتی ہے۔بچوں کو مستقبل کے لیے کس طور تیار کرنا چاہیے‘ یہ دیکھنا ہے تو انتہائی مالدار گھرانوں کو دیکھیے۔ وہ اپنے بچوں کو کمانے کے قابل بنانے کے بجائے کمائی کو محفوظ رکھنے کے قابل بنانے پر توجہ دیتے ہیں۔
بہت سے متمول گھرانے محض اس لیے برباد ہوئے کہ انہوں نے بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت پر توجہ نہیں دی۔ جب خاندان کا کاروبار ان بچوں کے ہاتھوں میں آیا تو عشروں کی محنت سے حاصل شدہ کمائی کو مٹی میں ملتے دیر نہیں لگی۔ کوئی اپنے آپ کو ذرا سا ڈھیلا چھوڑ دے تو ماحول اُس پر بہت بری طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ ہم ماحول کو بُرا نہیں کہہ سکتے نہ اُس پر کوئی مقدمہ دائر کر سکتے ہیں! ہمیں تو یہ دیکھنا ہے ہم کیا کرسکتے ہیں۔
کسی بھی بچے کی انتہائی بنیادی ضرورت ہے اعتماد۔ اعتماد کے بغیر وہ کچھ نہیں کرسکتا۔ سکول کا ماحول بچے میں اعتماد ہی پیدا کرتا ہے۔ اگر سکول یہ کام نہ کرسکے تو پھر بچے کو وہاں بھیجنے کا کوئی مقصد ہے نہ مآحصل۔ ہر معاشرے میں سکول اِسی بنیادی کام کے لیے ہوتا ہے۔ بچوں کو بہت چھوٹی عمر سے بہت کچھ سکھانا ناگزیر ہے اور یہ سب کچھ کمانے کے لیے بلکہ زندگی بسر کرنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ بچوں کو مل جل کر کام کرنے، دوسروں کی تکلیف کو سمجھنے، دوسروں کا درد محسوس کرنے، دوسروں کی مدد کرنے، اپنی پریشانی ڈھنگ سے بیان کرنے، دوسروں سے مدد لینے، بہتر زندگی کا شعور پروان چڑھانے کا موقع سکول میں ملتا ہے۔ سکول اُسے جینا سکھاتا ہے۔ وہاں سے نکل کر وہ کمانے کا ہنر بھی سیکھ ہی لیتا ہے۔ کمانا تو انسان کہیں بھی سیکھ لیتا ہے مگر باعزت طریقے سے کمانا، حرام کی کمائی سے بچنا، دوسروں کے کام آتے ہوئے کمانا، اپنی کمائی کو ضائع ہونے سے بچانا اور اپنی کمائی سے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھلا کرنے کے اوصاف سکول کی سطح پر ملنے والی بہتر تعلیم کی مدد سے حاصل ہوتے اور پنپتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ سکول کے زمانے کی دوستی تاحیات برقرار رہتی ہے۔
آپ بھی‘ فطری طور پر‘ چاہتے ہوں گے کہ آپ کے بچے بہتر تعلیم و تربیت پاکر معیاری زندگی بسر کریں۔ معیاری زندگی اِس کے سوا کیا ہے کہ صرف اپنا بھلا نہ سوچا جائے بلکہ دوسروں کے لیے بھی کارآمد اور مفید ثابت ہوا جائے۔ ہم بچوں کے تعلیم و تربیت کے ابتدائی دور میں بہت سے غلط تصورات کے تحت کچھ توقعات قائم کرلیتے ہیں۔ جب یہ بے جا توقعات بارآور ثابت نہیں ہوتیں تو ہمیں دکھ ہوتا ہے۔ یہ نکتہ ہمیشہ ذہن نشین رہے کہ ہم بچوں کو سکول اس لیے بھیجتے ہیں کہ وہ اچھے انسان بنیں اور معاشرے کے لیے مفید ثابت ہوں۔ معیاری ابتدائی تعلیم ہی بچوں کے ذہنوں میں یہ تصور پروان چڑھاتی ہے کہ جینا صرف اپنے لیے نہیں ہوتا بلکہ بلند کردار کے ساتھ جینے کی صورت میں انسان دوسروں کے لیے بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے اور ہونا ہی چاہیے۔
اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں میں اعلیٰ کردار کی مضبوط بنیاد ڈال کر اُنہیں بلند تر درجے کی زندگی کے لیے تیار کریں۔ سارا زور صرف اس نکتے پر نہ دیا جائے کہ بچوں کو بڑے ہوکر کمانا ہے۔ ایسی صورت میں وہ کمائیں گے تو خوب مگر بخوبی جی نہیں پائیں گے۔