کچھ تو کرنا ہے مگر کیا کیا جائے؟ ہر انسان کو زندگی بھر کسی نہ کسی شعبے سے وابستہ رہنا پڑتا ہے۔ یہ معاش کا معاملہ ہے یعنی گھر کا چولھا جلتا رکھنے کے لیے خود کو عمل کی کسوٹی پر پرکھتے رہنا پڑتا ہے۔ یہ سب کچھ‘ سب کے لیے ہے۔ عمل کے بغیر انسان ادھورا ہے۔ جو لوگ باصلاحیت ہونے کے باوجود کچھ نہیں کرتے وہ اپنے ساتھ ساتھ معاشرے کا بھی نقصان کر رہے ہوتے ہیں۔ عمر ڈھلنے پر ہونے والے پچھتاوے کو بے عملی کا ''بونس‘‘ سمجھیے۔ بہت پہلے کی بات ہے کہ انسان سوچا کرتا تھا کہ ایسا کیا کرے جو زندگی بھر کے لیے ہو۔ کامیاب معاشی زندگی یقینی بنانے کے لیے کوئی ایسا شعبہ منتخب کیا جاتا تھا جو ہر اعتبار سے پائیدار ہو اور زندگی بھر بہتر گزر بسر کے لیے درکار اشیا و خدمات کی فراہمی یقینی بنائے رکھنے کی صلاحیت و سکت رکھتا ہو۔ یہی الجھن آج بھی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ پہلے سے زیادہ ہے۔ آج اِتنے شعبے ہیں کہ انسان جب عملی زندگی شروع کرتا ہے تو اُس کی سمجھ ہی میں نہیں آتا کہ کیا کرے‘ کہاں جائے۔ بہت سے شعبوں میں چمک دمک تو بہت ہے، یافت کم ہے۔ بعض شعبوں میں چمک دمک برائے نام بھی نہیں مگر یافت اِتنی ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے سارے دُلدر دور ہو جاتے ہیں۔
کسی بھی انسان کے لیے معاشی شعبے کا انتخاب انتہائی بنیادی معاملہ ہے۔ ایک سے زائد شعبوں میں بھرپور دلچسپی کا مظاہرہ کرنے والے سر پھرے کم ہی ہوتے ہیں۔ عام آدمی کسی ایک شعبے ہی میں یا پھر اُس کے آس پاس رہتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے۔ ایسے میں لازم ٹھہرا کہ شعبے کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیا جائے۔ سب سے پہلے تو اس بات کا اندازہ لگانا ہے کہ حقیقی دلچسپی کس شعبے میں ہے۔ پھر یہ بھی کہ اس حوالے سے بھرپور لگن بھی موجود ہے یا نہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ پورے ذوق و شوق اور لگن کے ساتھ کام کرنے کی صورت میں کچھ مل سکے گا یا نہیں۔ کوئی بھی شعبہ اول و آخر اِس بنیاد پر اپنایا جاتا ہے کہ وہ گھر کا چولھا جلتا رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ بعض شعبوں میں کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے مگر در حقیقت کچھ خاص نہیں ہوتا۔ ایسے شعبوں میں لوگ زندگی بھر سر پھوڑتے ہیں مگر کچھ نہیں ملتا۔ ایسے کسی بھی شعبے میں اپنے آپ کو کھپانا محض حماقت ہے۔ ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جس میں عملی زندگی شروع کرنے کے لیے بہت سے آپشن دستیاب ہیں۔ یہ بہت اچھی بات ہے مگر یہی سب سے بڑا دردِ سر بھی تو ہے۔ بہت سے لوگ انتخاب ہی مرحلے ہی میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ نئی نسل اس حوالے سے چونکہ تربیت یافتہ نہیں ہوتی اس لیے جذبات سے مغلوب ہوکر کوئی بھی ایسا شعبہ منتخب کر بیٹھتی ہے جس میں چمک دمک نمایاں ہو۔جب نشہ اُترتا ہے تب غلطی کا احساس ہوتا ہے اور پچھتاوا بھی۔ کیریئر کے طور پر شعبے کے انتخاب میں نئی نسل کو غیر معمولی سطح کی رہنمائی درکار ہوتی ہے۔ اس مرحلے میں اٹک جانے والے مشکلات میں گِھر جاتے ہیں۔ کیریئر کا انتخاب انسان کے لیے چونکہ انتہائی بنیادی معاملہ ہے اس لیے اِس پر توجہ بھی غیر معمولی حد تک دی جانی چاہیے۔ افسوس کہ ایسا ہوتا نہیں۔ لوگ کیریئر کی حیثیت سے شعبے کے انتخاب میں تساہل اور عدم توجہ کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ بالعموم غلط شعبہ منتخب کر بیٹھتے ہیں اور پھر زندگی بھر اپنے وجود کو رگڑا لگاتے رہتے ہیں۔
کسی بھی شعبے کو پوری زندگی کے لیے منتخب کرتے وقت اس بنیادی حقیقت کو ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ وہ شعبہ کب تک زیادہ یافت دے سکے گا۔ بعض شعبے سدا بہار ہیں یعنی اُن کی افادیت اور یافت کبھی کم نہیں ہوتی۔ اشیائے خور و نوش کی تجارت کا شعبہ ہی لیجیے۔ خوراک چونکہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے اس لیے کھانے کا دھندا کبھی ختم ہوگا نہ کمزور پڑے گا۔ ہاں! یہ شعبہ ہر ایک کو راس نہیں آتا کیونکہ اِس کے لیے ایک خاص مزاج درکار ہوتا ہے۔ شعبے کا انتخاب کرتے وقت یہ بھی دیکھنا ہوتا ہے کہ اُس میں جس قدر محنت درکار ہے اُس قدر محنت کرنے کا مزاج اور سکت ہے بھی یا نہیں۔ کوئی نازک مزاج انسان تعمیرات کے شعبے میں ڈھنگ سے کام نہیں کرسکتا۔ یہ شعبہ سخت جان افراد کے لیے زیادہ موزوں ہے کیونکہ بھاگ دوڑ بہت ہوتی ہے، فیلڈ میں جانا پڑتا ہے، سائٹ پر کھڑے ہوکر مزدوروں سے کام لینا پڑتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ موسم کی سختیاں بھی جھیلنا پڑتی ہیں۔ سیلزمین شپ بھی ایسا ہی کام ہے۔ یہ شعبہ سب کو راس نہیں آتا‘ اُنہیں تو بالکل نہیں جو مزاجاً آرام طلب ہوتے ہیں اور زیادہ بھاگ دوڑ سے بھاگتے ہیں۔ کسی بھی نوجوان کو زندگی بھر کے لیے وہی شعبہ منتخب کرنا چاہیے جس میں دل کی تشفی کا سامان ہو اور زندگی بھر نمو پانے کی گنجائش بھی۔
بعض شعبوں میں انسان ایک خاص حد تک ہی جاسکتا ہے۔ ایسے شعبے بند گلی کی طرح ہوتے ہیں یعنی ایک خاص حد تک ہی جایا جاسکتا ہے۔ کسی دکان میں سیلزمین کی حیثیت سے کام کرنے کو لیجیے۔ فرنیچر کی دکان میں سیلزمین کے طور پر کام کرنے والے کے لیے آگے بڑھنے کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔ وہ زیادہ سے زیادہ اُس کارخانے کا انچارج بن سکتا ہے جہاں فرنیچر تیار کیا جاتا ہے۔ ڈرائیونگ بھی ایسا ہی شعبہ ہے۔ اِس کے مقابل کاروبار میں غیر معمولی نمو کی بھرپور گنجائش ہوتی ہے۔ توجہ کے ساتھ محنت کرنے اور معاملات میں تھوڑی سی ندرت پیدا کرنے سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے۔ تجارت اور صنعت میں آگے بڑھنے کی گنجائش زیادہ ہوتی ہے کیونکہ اِن دونوں شعبوں کی متعین حدود نہیں۔ زیادہ محنت سے خوب کمایا بھی جاسکتا ہے اور دل و دماغ کی تشفی کا سامان بھی کیا جاسکتا ہے۔
زندگی بھر کے لیے شعبہ منتخب کرتے وقت اپنے مزاج اور صلاحیت و سکت کو ذہن نشین رکھنا سب سے اہم ہے۔ تخلیقی رجحان کے حامل افراد کے لیے سیلزمین شپ یا دکانداری دردِ سر کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔ فنونِ لطیفہ کی طرف جھکاؤ رکھنے والے افراد سخت محنت و مشقّت کا تقاضا کرنے والے شعبوں میں اپنے آپ کو نہیں منوا سکتے۔ شعبۂ جہد و عمل کے حوالے سے غلط انتخاب کا معاملہ بہت پریشان کن ثابت ہوتا ہے کیونکہ اچھا خاصا وقت گزر چکا ہو تو انسان کو تادیر پچھتاوا رہتا ہے۔ سلیمؔ کوثر کہتے ہیں ؎
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں‘ دیکھنا اُنہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے!
ہر عہد کی نئی نسل کے لیے مستقل شعبۂ جہد و عمل کا انتخاب ایک پیچیدہ معاملہ رہا ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں اِس کے لیے کیریئر کونسلنگ کا شعبہ موجود ہے۔ سکول کی سطح پر بچوں کے رجحانات کا اندازہ لگاکر اُن کے لیے شعبے کا تعین کیا جاتا ہے۔ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے تک بچوں کا ذہن واضح ہوچکا ہوتا ہے کہ زندگی بھر کیا کرنا ہے، کس شعبے یا کن شعبوں میں اپنے آپ کو آزمانا اور منوانا ہے۔ ہماری نئی نسل مستقل شعبۂ جہد و عمل کے حوالے سے یکسر غیر تربیت یافتہ ہے۔ مختلف شعبوں کی چمک دمک سے متاثر ہوکر نوجوان انہیں اپنالیتے ہیں۔ کچھ مدت کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ فیصلہ عجلت اور بے دھیانی میں کیا گیا تھا۔ ایک کو تج کر دوسرے شعبے کو اپنایا جاتا ہے۔ کچھ مدت کے بعد اُس سے بھی جی اُچاٹ ہو جاتا ہے۔ بہت سوں کو اس حال میں دیکھا گیا ہے کہ کئی شعبوں میں طبع آزمائی کا شوق پورا کرتے کرتے عہدِ سکت یعنی دورِ شباب برباد کر بیٹھتے ہیں اور ڈھلتی عمر میں شدید مالی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ وقت کے ضیاع کا احساس اُن میں نفسی الجھنیں بھی پیدا کرتا ہے۔ زندگی کی چار دہائیاں مکمل کرلینے والوں کو جب ہوش آتا ہے تب تک اِتنی دیر ہوچکی ہوتی ہے کہ وہ کسی نئے شعبے کو پوری توجہ کے ساتھ قبول نہیں کر پاتے۔ گزرا ہوا زمانہ جان نہیں چھوڑتا اور آنے والے زمانے کے بارے میں سوچنے کی زیادہ گنجائش نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ معاشی معاملات کے حوالے سے بند گلی میں پھنس جاتے ہیں۔ نئی نسل کے لیے موزوں ترین شعبۂ جہد و عمل کے انتخاب میں کلیدی کردار والدین کو ادا کرنا ہوتا ہے۔