"MIK" (space) message & send to 7575

چھوٹی باتیں‘ بڑے بکھیڑے

یہ بات افسوس ناک سہی، حیرت انگیز نہیں کہ کوئی بھی معاشرہ خرابیوں سے پاک یا مبرا نہیں رہا۔ ہو ہی نہیں سکتا! انسان نے فطری علوم و فنون میں جو پیش رفت یقینی بنائی ہے وہ دن رات آسانیوں کے ساتھ ساتھ پیچیدگیاں بھی پیدا کر رہی ہے۔ ہر دور میں یہی ہوتا آیا ہے۔ جن باتوں سے چند آسانیاں پیدا ہوتی ہیں اُنہی باتوں سے چند مشکلات بھی جنم لیتی ہیں۔ انسان کو توازن برقرار رکھتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ آج کے انسان کے لیے مجموعی کیفیت یہی ہے۔ ایسا بہت کچھ ہماری دسترس میں ہے جو زندگی کو آسان بنانے کے لیے کافی ہے مگر ہماری زندگی میں قدم رکھتی ہوئی آسانیاں مشکلات کی راہ بھی ہموار کر رہی ہیں۔ کوئی کتنی ہی کوشش کرلے‘ آسانیوں اور مشکلات کا ساتھ ساتھ چلنا وہ حقیقت ہے جس سے جان چھڑائی نہیں جا سکتی۔ ہمارے معاشرے کی مجموعی کیفیت ایسی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی چھوٹی باتیں خطرناک شکل اختیار کرتی جارہی ہیں۔ جب کسی معاشرے پر بُرا وقت آتا ہے تو بڑے معاملات پر بھرپور توجہ دی جاتی ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو یوں بھلادیا جاتا ہے کہ کوئی اُن کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا۔ ایک زمانے سے ہمارے ہاں دو خرابیاں بہت نمایاں ہیں : وقت کی ناقدری اور بیشتر معاملات میں شدید عدم توجہ۔ وقت کی ناقدری کا معاملہ تو اس حد تک بگڑا ہوا ہے کہ لوگ کچھ کر گزرنے کا دور یعنی عہدِ شباب اپنے ہاتھوں سے مٹی میں ملا دیتے ہیں اور اِس پر شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔ عہدِ شباب اور زندگی کا معیار بلند کرنے کے مواقع ضائع کرنے کا خیال آتا بھی ہے تو بہت دیر سے۔ تب تک پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہوتا ہے اور ازالے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔ یہ نکتہ بھی لوگوں کے ذہن سے نکل جاتا ہے کہ کوئی کتنی ہی کوشش کر دیکھے‘ ضائع ہو جانے والے وقت کا ازالہ کسی صورت نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی کوئی بھی کوشش کرنے والا محض احمق گردانا جاتا ہے۔
کسی بھی زوال پذیر معاشرے کے لوگ بیشتر معاملات میں بہت جلد حواس کھو بیٹھتے ہیں۔ معمولی سمجھے جانے والے بہت سے معاملات ہماری زندگی میں بہت کچھ الجھادیتے ہیں۔ عدم توجہ کے باعث خرابیاں بڑھ جاتی ہیں۔ کامیاب وہی رہتا ہے جو چھوٹی باتوں اور چھوٹے معاملات کو یکسر نظر انداز کرنے کے بجائے اُن پر متوجہ ہوکر اپنی پوزیشن واضح رکھتے ہوئے آگے بڑھتا ہے۔ اپنے معمولات کا جائزہ لیجیے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ اپنے بہت سے عمومی یا چھوٹے معاملات کو کسی گنتی میں نہ رکھتے ہوں؟ بہت سے معاملات میں خرابیاں اس لیے بھی در آتی ہیں کہ لوگ بعض چھوٹی باتوں کا خیال نہیں رکھتے۔ ہم یومیہ بنیاد پر ایسا بہت کچھ کرتے ہیں جو بظاہر کسی کے لیے نقصان دہ نہیں ہوتا مگر در حقیقت کہیں نہ کہیں کوئی منفی نتیجہ ضرور مرتب ہو رہا ہوتا ہے۔ ہمارے معمولات میں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جو غیر محسوس طور پر ہمارے لیے منفی اثرات پیدا کرتا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ بعض چھوٹی باتوں کو ہم درخورِ اعتناء ہی نہیں سمجھتے اس لیے اِس حوالے سے کبھی سنجیدہ نہیں ہو پاتے۔ سوال بدنیتی کا نہیں‘ عدم توجہ کا ہے۔ ہم جس ماحول کا حصہ ہیں اُس میں دوسروں کی بہت سی معمولی سرگرمیاں ہمارے لیے الجھنیں پیدا کرتی ہیں۔ اگر آپ کسی ایسی جگہ کام کرتے ہیں جہاں آپ کی کارکردگی کا تعلق دوسروں کی کارکردگی سے ہو تو کسی کی نا اہلی یا تن آسانی آپ کی کارکردگی کو بھی متاثر کرے گی۔ اگر کسی کی ادھوری کارکردگی آپ کی کارکردگی کو بھی مکمل نہ ہونے دے تو خرابی کا نتیجہ غیر معمولی ہوتا ہے۔ جن کارخانوں میں پیس ریٹ کی بنیاد پر کام ہوتا ہے‘ وہاں اگر چند کاری گر اپنے حصے یا کوٹے کا کام مکمل نہ کریں تو کئی دوسرے کاریگر متاثر ہوتے ہیں کیونکہ اُن کے حصے کا کام بھی ادھورا رہ جاتا ہے۔
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ بعض چھوٹی باتیں عدم توجہ سے بڑی ہو جاتی ہیں یعنی اُن کی پیدا کردہ خرابیاں چھوٹی نہیں رہ پاتیں بلکہ اُن کی کوکھ سے پیدا ہونے والے منفی اثرات رفتہ رفتہ بہت سے لوگوں کو شدید الجھنوں سے دوچار کرکے دم لیتے ہیں۔ کسی بھی ماحول میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر توجہ نہ دینے سے نظم و ضبط بگڑتا ہے۔ ہم اس نکتے کو بالعموم درخورِ اعتنا نہیں سمجھتے کہ زندگی بہت سے چھوٹے چھوٹے معاملات کے مجموعے کا نام ہے۔ ہم خود بھی سانسوں کا مجموعہ ہی تو ہیں۔ سانس کا دورانیہ کتنا ہوتا ہے؟ ابھی شروع اور ابھی ختم! پھر بھی ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ذرا ذرا سی سانسیں ہی مل کر ہمارے لیے زندگی بنتی ہیں۔ بالکل اِسی طور بہت سے چھوٹے معاملات مل کر ہمارے لیے موافق یا ناموافق صورتِ حال بنتے ہیں۔ ہم یومیہ بنیاد پر جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ ہمارے مزاج کا عکاس ہوتا ہے اور اُس کی تشکیلِ نو میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔ ہم روزانہ بہت سے لوگوں سے ملتے ہیں۔ کسی سے ملنا ہمیں زیادہ اچھا نہیں لگتا اور کسی سے ملنے میں ہم غیر معمولی مسرت، طمانیت محسوس کرتے ہیں۔ حالات ہم پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ ہم بہت سے منفی معاملات کا اثر غیر محسوس طور پر قبول کرتے رہتے ہیں۔ ایسے میں کہیں کا غصہ کہیں اُترتا ہے۔ یہ سب کچھ ہمارے لیے اس قدر عمومی ہوتا ہے کہ ہم کچھ دیر کے لیے ایک طرف بیٹھ کر غور و خوض کے مرحلے سے گزرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ روزمرہ گفتگو میں بہت سے معاملات رفتہ رفتہ بگڑتے چلے جاتے ہیں۔ ہم روزانہ مختلف سطحوں پر گفتگو کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ ہر گفتگو ہم سے توازن چاہتی ہے مگر ہم اس طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ کہیں ہم زیادہ بول جاتے ہیں اور کہیں کم۔ کہیں ضرورت سے زیادہ سے پُرجوش گفتگو معاملات خراب کرتی ہے اور کہیں گفتگو میں اِتنا دم خم نہیں ہوتا کہ کوئی ہماری بات توجہ سے سنے۔
قطرے آپس میں ملتے ہیں تو دریا بنتے ہیں۔ اِسی طور ہمارے بہت سے چھوٹے معاملات مل کر ہمارے معمولات، مزاج، کردار اور زندگی بنتے ہیں۔ اس ذخیرے میں سے صرف ایک مثال پیش ہے۔ بہت سی چھوٹی عادات کا ہمیں احساس و اندازہ بھی نہیں ہوتا اور وہ ہماری راہوں میں روڑتے اٹکاتی، کانٹے بچھاتی ہیں۔ گفتگو کے انداز ہی کو لیجیے۔ بہت سوں کی طرزِ گفتگو میں جھڑکنے کی روش نمایاں ہوتی ہے۔ بیشتر معاملات میں ایسا تحت الشعوری یا لاشعوری سطح پر ہوتا ہے۔ لوگ روزمرہ گفتگو میں خاصا رُوکھا، بے فیض یا ہتک آمیز انداز اختیار کرتے ہیں اور اُس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا ہے۔ ایک فوری خمیازہ تو یہ ہے کہ اس طور گفتگو کرنے پر کوئی متوجہ نہیں ہوتا اور بات سن بھی لے تو زیادہ غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ گفتگو میں جھڑکیاں شامل کرنے والوں کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا اور اُنہیں خاطر خواہ احترام بھی نہیں ملتا۔ اِس ایک مثال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم کس طور بہت سی چھوٹی چھوٹی باتوں کو عدم توجہ سے بکھیڑے میں تبدیل کرتے ہیں۔ زندگی اُن کے لیے نہیں جو ہر وقت سنجیدگی کی چادر تانے رہتے ہیں۔ اور اُن کے لیے بھی نہیں جو کبھی سنجیدہ ہوتے ہی نہیں۔ یہ معاملہ بَین بَین رہنے کا ہے۔ وہی کامیاب رہتے ہیں جو بوجھل سنجیدگی سے اپنے وجود کو ڈبونے سے گریز کریں اور مزاج میں ایسی شگفتگی پیدا کریں جس میں توازن بھی ہو۔ بہت سوں کو آپ اِس حال میں پائیں گے کہ کسی عمومی سی عادت کو نظر انداز کرتے کرتے اُسے جان لیوا بحران میں تبدیل کرلیتے ہیں اور پھر الزام ماحول یا معاشرے کو دیتے پھرتے ہیں۔ کسی سے ملنے کے لیے وقت دینا اور پھر نہ جانا یا دیر سے جانا، عمومی گفتگو کے دوران خاصی بے دھیانی کے عالم میں جھوٹ بولنا یا محض اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کے لیے غلط بیانی کرنا، کسی کی مدد کا وعدہ کرکے مدد کو نہ پہنچنا، اپنے یومیہ کام کو اہمیت نہ دینا، معاشی معاملات میں وعدہ خلافی کرنا‘ اور ایسے بہت سے دوسرے معاملات رفتہ رفتہ ہمارے لیے بلائے جان ہوتے جاتے ہیں۔ زندگی کا حسن اِس بات میں ہے کہ آپ اپنے معاملات کو سادہ اور راست رکھیے اور چھوٹی خرابیوں کے مجموعی اثرات کو چھوٹا نہ گردانیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں