روس نے یوکرین کو زیرِ نگیں کرنے کے لیے لشکر کشی کر ہی دی۔ یہ تو ہونا ہی تھا کیونکہ ہر کمزور کے مقابلے میں طاقتور یہی کچھ کیا کرتا ہے۔ جو کچھ یوکرین کے ساتھ ہوا ہے وہ اُس کی اپنی کمزوری کا کیا دَھرا ہے۔ روس کی طاقت اپنی جگہ مگر یوکرین کی کمزوری کو کیا کہیے۔ جو کچھ بھی ہوا ہے وہ اول و آخر اسی لیے تو ہوا ہے کہ یوکرین میں ایک بڑی طاقت کے سامنے ٹِکے رہنے کی طاقت نہ تھی۔ یوکرین کی قیادت اس بھروسے سکون سے بیٹھی رہی کہ امریکا اور یورپ اُس کی پشت پر ہیں اور ضرورت پڑنے پر آگے بڑھ کر اُسے بچالیں گے۔ دونوں خطے روس کے لیے لال جھنڈے لہرا رہے تھے مگر جب اُس نے حملہ کردیا تو سفید جھنڈے لہرانے لگے! یوکرین کے طول و عرض پر روسی بمباری اور گولا باری کے بعد سے اب تک مغربی دنیا کا ٹھنڈ پروگرام چل رہا ہے۔ یوکرین کی قیادت یہ سوچ کر مطمئن تھی کہ امریکا اور یورپ اپنے آنگن میں تو موت کا کھیل شروع نہیں ہونے دیں گے۔ معاہدۂ بحرِ اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) نے متعدد ممالک اور خطوں میں خاصی ''جاں بازی‘‘ دکھائی ہے۔ ایسے میں روس کو بھی ناکوں چنے چبوادیے جائیں گے مگر جب وقت آیا تو امریکا اور یورپ نے مل کر وہی کیا جس کے بارے میں ہمارے محترم خواجہ آصف فرماتے ہیں کہ کوئی شرم ہوتی ہے‘ کوئی حیا ہوتی ہے! یوکرین کو مغرب کا ٹھنڈا ٹھار شربت پینا پڑ رہا ہے۔
یوکرین کے صدر زیلنسکی نے بتایا ہے کہ جب روس نے حملہ کردیا تو اُنہوں نے امریکی صدر کے علاوہ یورپ کے 26 سربراہانِ مملکت و حکومت سے رابطہ کیا اور روس کا سامنا کرنے کے لیے اُن سے مدد مانگی‘ فوجی بھیجنے کو کہا تو سب نے ہُوں ہاں کرکے ٹال دیا۔ محض طِفل تسلیوں سے کچھ ہوا ہے نہ ہوسکتا ہے۔ یوکرین کے صدر کو تھوڑی ہی دیر میں اندازہ ہوگیا کہ سارے وعدے جھوٹے تھے‘ سارے دعوے بُودے تھے۔ وہ آن کی آن میں سمجھ گئے کہ
اب یہاں کوئی نہیں‘ کوئی نہیں آئے گا
امریکا اور یورپ کی قیادت کا معاملہ بہت سوں کو حیرت انگیز محسوس ہو رہا ہے۔ بہت سے تجزیہ کار اور مضمون نگار بے مزا ہوئے ہیں۔ اس میں بے مزا ہونے والی کون سی بات ہے؟ یہ تو سوچنا ہی فضول تھا کہ امریکا اور یورپ کی طرف سے یوکرین کو روس سے بچانے کے حوالے سے کچھ کیا جائے گا۔ امریکا نے کب کسی طاقتور کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت کی ہے؟ امریکا ہو یا یورپ‘ دونوں ہی صرف کمزوروں کو دباتے‘ دبوچتے آئے ہیں۔ اُن کی ہر پالیسی صرف غریبوں کو زیادہ سے زیادہ نچوڑنے کے لیے ہوتی ہے۔ نمایاں ترین مثال افغانستان کی ہے۔ نائن الیون کے ذریعے ایک جواز گھڑا گیا‘ پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکا اور یورپ نے دوسرے خطوں سے بھی چند ممالک کو ساتھ ملایا اور افغانستان پر ایسی چڑھائی کی کہ ایک دنیا شرمندہ ہوکر رہ گئی۔
کہاں افغانستان اور کہاں ترقی یافتہ اور طاقتور مغرب! کوئی مقابلہ تھا؟ مگر پھر بھی امریکا اور یورپ نے نہتے افغانستان کو تاراج کیا۔ پوری دنیا نے یہ تماشا دیکھا اور دم سادھے رہی۔ احتجاج ضرور ہوا مگر معاملات کو درست کرنے والی کوئی بات تو پیدا ہی نہیں ہوئی۔ افغانستان کے نہتے شہریوں کو جس بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا اُس پر امریکا اور یورپ نے آج تک شرمندگی کا اظہار بھی نہیں کیا۔ یوکرین کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اور امریکا اور یورپ نے جس طور محض تماشائی کا کردار ادا کیا ہے اُسے دیکھتے ہوئے کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ طاقت ابدی حقیقت ہے اور کسی بھی دور میں اس کے وجود کی بھرپور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یوکرین سرد جنگ کے خاتمے پر ترکے میں ملنے والے سوویت جوہری ہتھیاروں کے ذخیرے سے امریکا‘ روس اور نیٹو کی یقین دہانی پر دست بردار ہوا تھا۔ اُسے ضمانت دی گئی تھی کہ اُس کا دفاع ہر حال میں یقینی بنایا جائے گا۔ آج وہ ضمانت کیا ہوئی؟ امریکی صدر جو بائیڈن نے شدید بدحواسی کے عالم میں ایک ایسی بات کہہ دی کہ پڑھیے اور سَر دُھنیے کہ ایسا لطیفہ شاید بہت دنوں تک سُننے کو نہ ملے۔ روس نے یوکرین پر حملہ کرکے اُس کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی ٹھانی ہوئی ہے اور صدر بائیڈن خاصی ''اولوالعزمی‘‘ کے ساتھ فرماتے ہیں کہ امریکی فوج یوکرین کے فوجیوں کو تربیت دے گی۔
امریکا اور یورپ نے جس طرح یوکرین سے منہ موڑا ہے اور صرف اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے پر توجہ دی ہے وہ دو باتوں کی واضح طور پر غماز ہے۔ ایک تویہ کہ اُن میں خود غرضی اور مکّاری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اپنے مفادات کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ دونوں میں اب اتنی طاقت بھی نہیں رہی کہ اپنے اپنے خطے سے زیادہ دور جاکر معاملات کو درست کرنے کا ڈول ڈال سکیں۔ دنیا کو اپنی مٹھی میں بند رکھنے کی امریکا و یورپ کی روش صرف کمزوروں کے لیے ہے۔ جہاں ذرا سی طاقت نظر آئے وہاں یہ دونوں سہم کر ایک طرف ہٹ جاتے ہیں۔ افغانستان کے بعد عراق‘ لیبیا‘ شام اور یمن کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ عالمی برادری یہ سب کچھ دیکھتی رہی۔ اب کوئی کس منہ سے یوکرین کے لیے آگے بڑھے گا؟
روسی صدر ولادیمیر پوتن جس انداز سے ابھرے ہیں اور اب معاملات کو الٹنا‘ پلٹنا چاہتے ہیں اُسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ انتظام قدرت کی طرف سے ہوا ہے۔ امریکا اور یورپ کی دن بہ دن بگڑتی ہوئی پوزیشن باقی دنیا کو بہت کچھ بتا رہی ہے۔ چین اور روس مل کر دنیا کو نئی شکل دینا چاہتے ہیں۔ نیا عالمی نظام تیار ہوا چاہتا ہے۔ جن ممالک سے کہا جاتا ہے کہ اپنا جوہری پروگرام رول بیک کرلیں اُن سب کو یوکرین کے انجام سے کچھ نہ کچھ سیکھنا چاہیے۔ جوہری ہتھیار بنیادی طور پر ڈیٹرنس (ردِ جارحیت) ہیں یعنی ان ہتھیاروں کا خوف کسی بھی ملک کو آگے بڑھنے اور عسکری مہم جوئی شوع کرنے سے روکتا ہے۔ جس کے پاس جوہری ہتھیار ہوں اُس کے خلاف جنگ چھیڑنے سے پہلے دو چار بار نہیں‘ ہزار بار سوچنا پڑتا ہے۔ بھارت اگر پاکستان کے معاملے میں بہت حد تک اپنی حد میں رہتا ہے تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ پاکستان جوہری قوت ہے۔ یوکرین نے جوہری ہتھیاروں سے دست بردار ہونا قبول کیا تو اب نتیجہ بھی بھگت لیا ہے۔ یوکرین کا انجام ہر اُس ریاست کے لیے سبق ہے جو اپنی سلامتی اور سالمیت یقینی بنائی رکھنے کے لیے کسی نہ کسی پر انحصار کرتی ہے‘ مدد کی راہ تکتی رہتی ہے۔ 1971ء میں ہم نے بھی یہی غلطی کی تھی۔ امریکا نے اپنا ساتواں بحری بیڑا بھیجنے کا وعدہ کیا تھا۔ اُس بیڑے کو آنا تھا نہ آیا۔ پھر جو کچھ ہوا وہ اب تاریخ کا ایک بھیانک باب ہے۔ وہ ہمارے لیے ٹھنڈ پروگرام تھا۔ بعد میں دوسروں کی باری بھی آئی۔ اب یوکرین نشانے پر ہے۔
مغرب کا سِحر ٹوٹ رہا ہے۔ وہ اپنی طاقت سے بھی محروم ہوتا جارہا ہے اور اخلاقی اعتبار سے بھی شدید پستی کا شکار ہے۔ مغربی معاشروں کا اخلاقی بگاڑ بہت بڑھ چکا ہے۔ وہ کہیں بھی مکمل غیرت اور شرم کے ساتھ اپنا موقف بیان کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہے۔ امریکا کے علاوہ یورپ کی کئی ریاستوں نے باقی دنیا کے ساتھ جو کچھ بھی کیا وہ آسانی سے بھلایا نہیں جاسکتا۔ اب چین بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں آنے کے لیے بے تاب ہے اور روس بھی ایسا کرنے پر کمر بستہ ہے تو امریکا و یورپ کے لیے حقیقی چیلنج کھڑا ہوگیا ہے کہ اپنی بالا دستی کس طور برقرار رکھیں اور ایسا کیا کریں کہ پسماندہ اور ترقی پذیر دنیا اُن کے دائرۂ اثر ہی میں رہنے کی تحریک پاتی رہے۔ امریکی قیادت بھی سمجھتی ہے اور یورپی قائدین بھی ایسے بے عقل نہیں کہ اتنی سی بات نہ سمجھ سکیں کہ کچھ سوچ کر ہی اُن سے تصادم کا خطرہ مول لیا جارہا ہے۔ پُرجوش حریف کے مقابل ٹھنڈا ٹھار پروگرام ہی دانش مندی کہلاتا ہے۔