ہر چیز کی کوئی نہ کوئی خاصیت ہوتی ہے اور وہ چیز اپنی اُس خاصیت کے ہاتھوں یا تو مجبور ہوتی ہے یا پھر محدود۔ یہ قدرت کا نظام ہے۔ اب پانی اور پتھر کی ہی مثال لیجیے۔ پانی کی خاصیت یہ ہے کہ یہ متحرک رہتا ہے‘ بہتا ہے اور دوسروں کو بھی اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے۔ اِس کے برعکس پتھر ایک جگہ پڑا رہتا ہے اور اکثر دوسروں کی راہ میں رکاوٹ بھی بن جاتا ہے۔ دونوں ہی چیزیں ہمارے رب کی تخلیق کا شاہکار ہیں اور دونوں ہی میں ہمارے لیے اسباق چھپے ہیں۔ پانی کی خاصیت اپنانے سے ہم میں بھی روانی پیدا ہوتی ہے اور ہم تنہا نہیں چلتے بلکہ دوسروں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ اگر کوئی طے کرلے کہ اُسے پتھر کا سا ہو جانا ہے، پتھر کی سی خاصیت اپنے اندر پروان چڑھانی ہے تو پھر سمجھ لیجیے کہ اُس سے کسی کو زیادہ فیض نہیں پہنچ سکے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے دونوں شاہکار ہمارے سامنے رکھے ہیں اور ہمیں یہ طے کرنے کی اجازت دی ہے کہ اِن میں سے جسے چاہیں‘ اپنائیں۔
کوئی بھی چیز، کوئی بھی معاملہ خدا کی قدرتِ کاملہ کی حد سے باہر نہیں۔ ہمارا رب جو چاہتا ہے‘ کرتا ہے۔ اس نے اپنے کرم سے ہمیں بہت سے معاملات میں مکمل آزادی عطا فرمائی ہے۔ یہ آزادی فیصلے کے معاملے میں نمایاں ہے۔ ہر انسان کو یومیہ چوبیس گھنٹے ملتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اجازت بھی کہ جس طور چاہے ان چوبیس گھنٹوں کو بروئے کار لائے۔ اب یہ ہماری مرضی کا سودا ہے کہ اس آزادی کو بطریقِ احسن بروئے کار لاکر اپنے لیے آسانیاں پیدا کریں یا پھر اپنے نفس اور طاغوت کی غلامی اختیار کرتے ہوئے اس وقت کو فضول سرگرمیوں میں ضائع کر دیں۔ ہمیں جو بھی نعمت عطا کی گئی ہے‘ اُس کا حساب ہونا ہے اور یہ سمجھ لیجیے کہ ہمارا معاملہ تو حساب ہی حساب کا ہے کیونکہ ہمیں قدم قدم پر نعمتیں عطا کی گئی ہیں۔ آتی جاتی سانس نعمت نہیں تو کیا ہے؟ دھڑکتا ہوا دل اور حرکت کرتے ہوئے ہاتھ پاؤں نعمت نہیں تو کیا ہیں؟ یہ سب کچھ یونہی تو نہیں مل گیا؟ ہمارے خالق نے چند معیارات متعین کیے ہیں۔ جو کچھ بھی ہمیں عطا کیا گیا ہے اُس کے استعمال کے طریق اور اثرات کا حساب رکھا گیا ہے اور ایک دن ہمیں اپنے رب کے روبرو حاضر ہوکر حساب دینا ہوگا۔ کسی بھی انسان کو اللہ تعالیٰ نے مکمل اختیار دیا ہے کہ چاہے تو پانی بن کر بہے اور دوسروں کو بھی ساتھ لے کر چلے یا پھر پتھر بن کر ساکت و جامد ہو جائے۔ پھر وہ چاہے کسی کے ٹھوکر کھاکر گرنے کا سبب بنے یا کسی کے لیے راہ کی دیوار بن کر سفر دشوار بنا دے۔ قدم قدم پر ذہن نشین رہنا چاہیے کہ دونوں صورتوں میں ہمیں حساب دینا ہے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ وہ انسانوں ہی میں سے بہت سوں کو مختلف النوع خصوصیات عطا کرتا ہے تاکہ وہ دوسروں کے کام آئیں اور دنیا کی آسائش و رونق میں اضافے کا ذریعہ ثابت ہوں‘ یعنی یہ بھی اللہ کی طرف سے عطا ہونے والا ایک اعزاز ہی ہے کہ ہم اس قابل ہوں کہ دوسرے ہم سے امیدیں وابستہ کریں اور ہم اُن کی امیدوں پر پورے اتریں۔ جسے اس صلاحیت و سکت سے نوازا گیا ہو‘ اُسے بھی اس بات کی آزادی عطا کی جاتی ہے کہ چاہے تو پانی بنے، چاہے تو پتھر۔ پانی بننے کی صورت میں زندگی روانی سے عبارت ہوگی اور اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی بھلا ہوگا۔ پتھر بننے کا فیصلہ کیا تو سمجھ لیجیے کہ خدا کی عطا کردہ نعمت کو جھٹلایا، ٹھکرایا۔ اگر اللہ تعالیٰ نے دوسروں کے کام آنے کی صلاحیت و سکت عطا فرمائی ہے کہ تو پھر ہمارا فیصلہ وہی ہونا چاہیے جو طے شدہ ہے یعنی صرف اپنے لیے نہیں جینا بلکہ دوسروں کے بھی کام آنا ہے، اُن کی مشکلات بھی دور کرنی ہیں۔
افراد کی طرح نسلوں، قبائل، معاشروں اور ریاستوں کو بھی قدرت کی طرف سے بے پایاں صلاحیت و سکت عطا کی جاتی ہے۔ یہ اہتمام اس لیے ہوتا ہے کہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی بھلا کیا جائے۔ یہ نظام بھی خدا تعالیٰ ہی کا طے کردہ ہے کہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے لیے بھی آسانیاں پیدا کیجیے، اُن کا بھی بھلا کیجیے۔ کسی بھی معاشرے یا ریاست کو بہت کچھ اس لیے عطا کیا جاتا ہے کہ وہ کمتر معاشروں کا خیال رکھے، کمزور ریاستوں کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔ کسی بھی معاشرے یا ریاست کو طاقت اِس لیے نہیں ودیعت کی جاتی کہ اُس کی بنیاد پر مزید طاقت حاصل کرے اور پھر اِس کھیل میں ایسی مست ہو جائے کہ اپنی تخلیق کا مقصد ہی فراموش کردے۔ طاقت صرف اس لیے ہے کہ دوسروں کے کام آیا جائے، نہ کہ اُن کا جینا حرام کردیا جائے۔
ہر دور میں چند معاشروں اور ریاستوں کو دوسروں سے زیادہ عطا کیا جاتا ہے۔ یہ خدا ہی کی مرضی کا معاملہ ہے کہ کسی کو زیادہ ملے اور کسی کو کم۔ جنہیں زیادہ عطا کیا جاتا ہے اُن کے کاندھوں پر چند ذمہ داریوں کا بوجھ بھی ڈالا جاتا ہے۔ جو اِس بوجھ سے بطریقِ احسن نمٹتے ہیں وہی کامیاب ٹھہرتے ہیں۔ جو بوجھ کو کسی نہ کسی طور کاندھے سے اتار پھینکنے پر یقین رکھتے ہیں وہ مغضوب ٹھہرتے ہیں۔ کسی بھی ریاست کو زیادہ طاقت کا دیا جانا اصلاً اس لیے ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے کام آئے، اُن کی مدد کرے تاکہ وہ اپنا معیارِ زندگی بلند کریں۔ کمزور ریاستوں کو بھی ڈھنگ سے جینے کے قابل بنانا بڑی ریاستوں کی اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہی بات اُنہیں عظمت عطا کرتی ہے۔
مختلف ادوار میں ہم دیکھتے ہیں کہ چند ہی ریاستوں نے دوسروں کا خیال رکھا اور زندگی کی دوڑ میں آگے آنے کے حوالے سے اُن کی مدد کی۔ ایسی ریاستوں کے لیے توقیر کا سامان ہوا۔ چند ایک خرابیوں کے باوجود ایسی ریاستیں اپنے وجود کو بامقصد بنانے میں کامیاب رہیں۔ اس معاملے میں ایک واضح مثال قدیم ہندوستان کی ہے۔ قدیم ہندوستان میں دنیا کو دینے کے لیے بہت کچھ تھا اور اُس نے دیا بھی۔ مجموعی طور پر امن پسند معاشرہ ہونے کی بدولت قدیم ہندوستان نے توسیع پسند عزائم اپنانے سے گریز کیا۔ جب عہدِ اول کے مسلمانوں کو طاقت عطا ہوئی تو اُنہوں نے کئی خطوں کی تقدیر بدلنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ مختلف ادوار میں جن ریاستوں نے طاقت ملنے پر اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھا وہ بالآخر مٹ گئیں۔ قدیم یونان نے علم و دانش کے حوالے سے دنیا کو بہت کچھ دیا جبکہ روم کی سلطنت نے صرف توسیع پسندی کو اپنا شعار بنایا۔ بالکل اِسی طور فارس کی سلطنت بھی ملحق خطوں کو کچھ زیادہ دینے میں ناکام رہی اور اِس کا نتیجہ اُس کے نابود ہونے کی صورت میں برآمد ہوا۔
پانچ صدیوں سے دنیا کی حکمرانی مغرب کا مقدر ہے۔ اِن پانچ صدیوں کے دوران مغربی اقوام نے مادّی ترقی کی حیرت انگیز منازل طے کی ہیں مگر انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ وہ اخلاقی سطح پر اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں یکسر ناکام رہی ہیں۔ ان پانچ صدیوں کے دوران مغربی اقوام کی پوری توجہ زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول اور باقی دنیا کو اپنا مطیع و فرماں بردار بنانے پر مرکوز رہی۔ کئی خطوں کو پامال کرکے مغرب نے اپنے لیے بہت بلند معیارِ زندگی یقینی بنایا مگر یہ سب کچھ مادّی سطح پر ہے۔ اخلاقی اور روحانی معاملات میں مغرب بدنصیب رہا۔
آج کی دنیا کو بھی ایسی مضبوط ریاستوں کی ضرورت ہے جو پانی کی سی تاثیر رکھتی ہوں یعنی سب کو ساتھ لے کر چلیں اور کسی بھی حال میں پتھر بننے کو ترجیح نہ دیں یعنی کسی کی راہ میں روڑے نہ اٹکائیں۔ پانی کی خاصیت کو ٹھکراکر پتھر ہو جانے کو گوارا کرنے والے مغرب کا انجام اب سب کے سامنے ہے۔ قدرت نے روح اور اخلاق کی سطح پر دیوالیہ پن اُس کا مقدر کردیا ہے۔