امریکی پالیسیاں کئی طرح کے گل ایک ساتھ کھلا رہی ہیں۔ ایک طرف یہ ثابت کرنے کا ہَوکا ہے کہ طاقت برقرار ہے اور دوسری طرف یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ کہیں دنیا پر کمزوری منکشف نہ ہو جائے۔ ایک دنیا ہے کہ امریکا کا تماشا دیکھ رہی ہے۔ حد یہ ہے کہ تماشا دیکھنے والوں میں یورپ بھی شامل ہے۔ یورپ نے یوکرین پر روس کے حملے کے بعد کی صورتِ حال میں زیادہ کھل کر کچھ کہنے اور کرنے سے گریز کیا ہے جبکہ امریکا بڑھ چڑھ کر بول رہا ہے تاکہ دنیا بھر کے کمزوروں کو یہ پیغام ملے کہ اُسے کمزور نہ سمجھا جائے‘ ناراضی مول لینے اور تصادم سے گریز کیا جائے۔
کیا واقعی امریکا کی طاقت وہی ہے جو اب تک رہی ہے؟ یہ سوال دنیا بھر میں تجزیہ کاروں کے ذہنوں میں گردش کر رہا ہے۔ امریکا یہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہا ہے کہ وہ اب بھی پہلا سا ہے‘ پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں بند کرسکتا ہے اور جب جہاں چاہے سارا کھیل ختم کرکے اپنی مرضی کی بساط بچھاسکتا ہے۔ امریکا طاقتور تو خیر اب بھی ہے مگر یہ بھی ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اب وہ بات نہیں رہی۔ وہ تمام معاملات کو خالصاً اپنی مرضی کی لاٹھی سے نہیں ہانک سکتا۔ اُسے منہ دینے والے سامنے آچکے ہیں۔ روس نے یوکرین پر لشکر کشی کے ذریعے اعلان کردیا ہے کہ اب کوئی اُسے ہلکا نہ لے۔ اب وہ بیک سیٹ پر بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔ چین نے اُس کا ساتھ دیا ہے۔ وسط ایشیا کی ریاستیں بھی روس کے ساتھ ہیں۔ ایسے میں امریکا اور یورپ کے لیے بہت سے معاملات میں فکر مندی کی گنجائش پیدا ہوئی ہے۔ وہ عالمی سیاسی و معاشی نظام کو اپنی مرضی کے مطابق چلاتے اور وقتاً فوقتاً اپنی مرضی کے مطابق تبدیل کرتے آئے ہیں۔ اب ایسا زیادہ دن نہیں چل سکتا۔
یوکرین کے معاملے میں امریکا نے روس کے ساتھ ساتھ چین کو بھی دبوچنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ پہلے روس کے خلاف پابندیوں کا اعلان کیا گیا۔ دھمکیاں دی گئیں کہ جو ملک روس کے ساتھ مل کر کام کرے گا اُس پر بھی پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ یہ پاکستان اور ایسے ہی دوسرے بہت سے ممالک کے لیے واضح پیغام تھا جو چین اور روس کی طرف جھکنے کے لیے معقول مواقع تلاش کر رہے ہیں۔ جواب میں روس نے امریکی صدر اور دیگر اہم شخصیات پر پابندی عائد کرنے کے ساتھ ساتھ کونسل آف یورپ سے نکلنے کا اعلان بھی کردیا۔ روس کا یہ اقدام اس بات کی دلیل ہے کہ امریکا اور یورپ کی طرف سے عائد کی جانے والی پابندیوں کو وہ جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔
روس پر پابندیاں لگانے کے ساتھ ساتھ چین کو بھی انتباہ کیا گیا کہ اگر وہ روس کا ساتھ دے گا تو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔ امریکا اور چین کے درمیان معاملات میں ایسی کشیدگی در آئی کہ 14 مارچ 2022ء کو اٹلی کے دارالحکومت روم میں امریکی صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیون اور چینی دفتر برائے امورِ خارجہ کے ڈائریکٹر جنرل ینگ جئیچی کی ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات کم و بیش سات گھنٹے جاری رہی۔ اس ملاقات کے دوران فریقین نے ایک دوسرے سے کھل کر شکایتیں کیں۔ امریکا نے واضح انتباہ کیا کہ روس کا ساتھ نہ دیا جائے اور بالخصوص اُسے عسکری یا معاشی امداد نہ دی جائے۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ روس نے چین سے عسکری اور معاشی مدد مانگی ہے۔ امریکی قیادت سمجھتی ہے کہ اس وقت روس کی مدد کرنا یوکرین کو مضبوط کرنے کے مغربی اقدامات کو غیر موثر بنانے کے مترادف ہوگا۔
کیا امریکی قیادت اس مرحلے پر چین کو دبوچ سکتی ہے؟ کیا چین کی پوزیشن ایسی ہے کہ وہ امریکا کی کسی بھی دھمکی سے مرعوب ہوکر ایک طرف ہٹ جائے اور روس کو تنہا چھوڑ دے؟ آثار و قرائن تو کوئی اور ہی کہانی سنارہے ہیں۔ چین اب تک ڈٹا ہوا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ یوکرین کا بحران ہر بڑی طاقت کے لیے لٹمس ٹیسٹ کی طرح ہے۔ روس کو میدان میں رہنا ہے۔ چین کو اس کا ساتھ دیتے رہنا ہے۔ امریکا کو یورپ کے ساتھ مل کر باقی دنیا کو یہ یقین دلانا ہے کہ بگڑے ہوئے معاملات کو سنوارنے والی اُس کی قوت اب بھی وہی ہے جبکہ ایسا نہیں ہے۔
یوکرین کے معاملے میں امریکا اور یورپ نے جس طور محض تماشائی کا کردار ادا کرتے رہنے کو ترجیح دی ہے اُس سے دنیا کو یہ پیغام مل چکا ہے کہ امریکا واحد فیصلہ کن قوت نہیں۔ یورپ بھی اس بات کو سمجھتا ہے کہ تمام معاملات امریکا کے ہاتھ میں نہیں دیے جاسکتے۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ بھی اس وقت مخمصے ہی کی حالت میں ہے۔ جرمنی نے یوکرین کی حالت دیکھ کر یہ سبق سیکھا ہے کہ اپنے دفاع کے لیے کسی پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے اور یہی سبب ہے کہ وہ اپنی فوج کو وسعت دینے اور زیادہ مضبوط کرنے کی منصوبہ سازی کر رہا ہے۔ دوسری طرف جاپان بھی اب باضابطہ فوج تیار کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ ایسے میں امریکا کہاں کھڑا ہے؟ یہ حقیقت تو اب بہت حد تک بے نقاب ہوچکی ہے کہ اُس کی طاقت کا وہ عالم نہیں رہا جو ہوا کرتا تھا۔ امریکا بہت سے معاملات میں ضعف کا شکار ہے مگر چونکہ وہ واحد سپر پاور کی حیثیت سے عالمی نظام کے بیشتر پہلوؤں پر متصرف رہا ہے اس لیے اُس کے اثرات اب بھی برقرار ہیں۔
امریکا چاہتا ہے کہ اُس کی پوزیشن ویسی دکھائی نہ دے جیسی ہے۔ وہ کمزوری چھپانا چاہتا ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ جن ممالک کو ڈرا دھمکاکر اپنی طرف رکھا جاسکتا ہے رکھا جائے۔ پاکستان کو بھی مختلف طریقوں سے دھمکانے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ سب کچھ کتنے دن چل سکتا ہے پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا۔ ہاں‘ یہ ماننا پڑے گا کہ پاک امریکا تعلقات کا بھی وہ عالم نہیں رہا جو چند برس پہلے تک تھا۔ کشیدگی نمایاں ہوچلی ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ امریکا نے پارٹنر شپ کے نام پر پاکستان کو غلام بنانے کی روش ترک نہیں کی ۔ پاکستانی سیاست و معیشت میں نمایاں مداخلت کے ذریعے معاملات کو بگاڑنے کی امریکی پالیسی اب بھی کہیں نہیں گئی۔
یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ امریکا موجود ہے اور عالمی نظام میں اپنی پوزیشن برقرار رکھنے کی تگ و دَو کر رہا ہے۔ اُس کے کمزور پڑ جانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ عالمی معاملات میں مداخلت اور انہیں اپنے مفادات کے مطابق تبدیل کرنے کی صلاحیت سے مکمل محروم ہوگیا ہے۔ امریکا اپنی روش مزید دس پندرہ سال تک ترک نہیں کرے گا۔ جس کی برتری غیر معمولی رہی ہو وہ کمزور پڑ جانے پر بھی یہ تاثر نہیں دینا چاہتا کہ وہ کمزور پڑچکا ہے۔ امریکا بھی بہت نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جس نے دنیا بھر میں خرابیاں پیدا کی ہوں وہ اپنے کمزور پڑ جانے کے تصور سے ہمیشہ کانپتا رہتا ہے کیونکہ اُسے اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ جن جن کو اُس نے برباد کیا ہے اگر وہ سب مل کر‘ ایک ہوکر سامنے آگئے تو کھٹیا کھڑی ہوتے دیر نہیں لگے گی۔
اس وقت سب سے بڑا چیلنج روس کو یوکرین میں مزید تباہی سے روکنا ہے۔ اوباما انتظامیہ میں مشرقی ایشیا کے لیے اعلیٰ ترین سفارت کار اور بائیڈن انتظامیہ سے بھی خاصی قربت رکھنے والے ڈینیل رسل کہتے ہیں کہ یوکرین میں جنگ روکنے کے حوالے سے چین سے ثالث کا کردار ادا کرنے کی زیادہ امید نہیں رکھی جاسکتی‘ چاہے وہ اس جنگ کے چھیڑے جانے میں کردار ادا کرنے کے الزام سے بریت پانے کے لیے ہی ایسا کرے۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ امریکا جس طور چین کو دھمکا رہا ہے اور اُس پر حاوی ہونے کی کوشش کر رہا ہے اُسے دیکھتے ہوئے سوچا جاسکتا ہے کہ چینی قیادت یوکرین کی جنگ رکوانے میں زیادہ دلچسپی نہیں لے گی۔ ایسے میں امریکا کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔ اُس کے مخمصے کا گراف بھی بلند ہوتا جارہا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کے سر پر بہت بڑا پوٹلا آ پڑا ہے۔ روس نے وختا ڈال رکھا ہے۔ اور چین بھی کچھ کم ستم نہیں ڈھارہا۔ وہ کسی دھمکی سے مرعوب ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ امریکا جس نازک موڑ پر کھڑا ہے اُسے دیکھتے ہوئے (فرازؔ کی روح سے معذرت کے ساتھ) یہی کہا جاسکتا ہے ع
یہ عالم ''ضُعف‘‘ کا دیکھا نہ جائے!