"MIK" (space) message & send to 7575

یوکرین جنگ کا پھیلاؤ روکنے کا چیلنج

امریکا اور یورپ کی جان پر بن آئی ہے۔ ایسا تو ہونا ہی تھا کیونکہ جو کچھ ان دونوں نے مل کر کم و بیش سات عشروں تک کیا اُس کا کوئی تو منطقی نتیجہ برآمد ہونا تھا۔ سو وہ نتیجہ برآمد ہو رہا ہے۔ مغربی طاقتوں نے مل کر باقی دنیا کو اپنا مطیع و فرماں بردار بنائے رکھنے کے لیے لالچ‘ طاقت‘ سازش ... سبھی کچھ آزمایا ہے۔ امریکا اور یورپ سے جو کچھ بھی بن پڑا ہے وہ انہوں نے کیا ہے اور ہر قدم پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اُن سے زیادہ طاقتور کوئی نہیں اس لیے دنیا پر حکومت کرنے کا حق اگر کسی کو ہے تو وہ صرف مغرب کا خطہ ہے۔
ایسا کب تک چل سکتا ہے؟ وہ منزل آہی گئی ہے جب دنیا کو مل جل کر طے کرنا ہے کہ کون کیا کرے گا‘ کس طور جیے گا اور کس طور باقی دنیا کے لیے دردِ سر ثابت نہیں ہوگا۔ امریکا اور یورپ نے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے جو کچھ اب تک کیا ہے وہ اس بات کا مظہر ہے کہ انہیں باقی دنیا کے کسی بھی فائدے سے کچھ غرض نہیں۔ وہ باقی دنیا کو اگر زندہ رہنے دینا چاہتے ہیں تو صرف اس غرض کے لیے کہ وہ غلامی کا حق ادا کرتے رہیں! ایسے میں روس کی سرکشی مغرب کو بہت کَھل رہی ہے۔ یہ سرکشی بھی مغرب ہی کی پیدا کردہ ہے۔ یوکرین کو روس کے مقابل کھڑا کرنے میں کلیدی کردار تو مغرب ہی نے ادا کیا ہے۔ اگر مغرب نے یوکرین کو معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس (نیٹو) کی رکنیت کا آسرا نہ دیا ہوتا اور اُسے یورپی یونین میں وسیع تر کردار کے خواب نہ دکھائے ہوتے تو روس کو اس حد تک جانے کی تحریک نہ ملی ہوتی۔ اب ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ یوکرین کے بحران کو یورپ کی طرف بڑھنے سے کیسے روکا جائے؟ یورپ چاہتا ہے کہ جنگ کی آگ یوکرین کی حدود تک رہے۔ پولینڈ اور دیگر پڑوسی ممالک بھی کسی خطرناک صورتِ حال سے نمٹنے کی بھرپور تیاری کر رہے ہیں۔ سوال روس سے ٹکرانے کا نہیں بلکہ اُسے آگے بڑھنے سے روکنے کا ہے۔ جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے وہ روسی صدر ولادیمیر پوتن کو مزید برافروختہ کرسکتا ہے۔ پوتن چاہیں گے کہ معاملات اُن کے قابو میں رہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ جو کچھ وہ یوکرین کے معاملے میں کرنا چاہتے ہیں اُسے ناکام بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔ امریکا اور یورپ بضد ہیں کہ یوکرین کے ہاتھ مضبوط کرکے اُسے روس کے مقابل کھڑا رہنے کے قابل بنایا جاتا رہے گا۔ یہ گویا پوتن کو مزید مشتعل کرنے والی بات ہوئی۔
امریکی اخبار دی نیو یارکر کی 10 مارچ کی اشاعت میں رابن رائٹ کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں اس امر پر بحث کی گئی تھی کہ یوکرین کی جنگ کو مغربی کی طرف بڑھنے سے کیسے روکا جائے۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے حال ہی میں پولینڈ کا دورہ کیا تو یوکرین کی سرحد پر پہنچ کر یوکرین میں 15 فٹ اندر جاکر اپنے پولش ہم منصب سے گفتگو کی۔ یہ علامتی ''پیش قدمی‘‘ تھی جو امریکا کی اس پالیسی کا مظہر تھی کہ وہ اور یورپ مل کر یوکرین کی سرحد تک تو پہنچیں گے اور یوکرین کی مدد بھی کریں گے مگر روس پر براہِ راست حملے سے گریز کریں گے۔ امریکا صاف کہہ چکا ہے کہ روس چونکہ ایٹمی قوت ہے اس لیے اس سے براہِ راست تصادم کا خطرہ مول نہیں لیا جاسکتا۔ اگر کسی نے آج تک نہیں دیکھی تو ذرا ''حقیقت پسندی‘‘ دیکھ لے! کمزور ریاستوں کو دبوچنے کے شوقین امریکا اور یورپ کو زمینی حقیقتوں کا خوب ادراک ہے۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کس کے پیچھے کہاں تک جانا ہے۔ اور کس اوکھلی میں سر دینے سے یکسر گریز کرنا ہے۔ افغانستان جیسے جنگ اور خانہ جنگی سے تباہ حال ملک کا مزید تیا پانچا کرنا تھا تو امریکا اور یورپ ایک ہوئے۔ اس کے بعد عراق کو نشانے پر لیا۔ پھر لیبیا اور اس کے بعد شام۔ خوب فوجیں بھیجی گئیں۔ جنگی ساز و سامان کی ترسیل بھی خوب رہی مگر جب روس جیسا دھانسو قسم کا حریف سامنے آیا تو امریکا اور یورپ اپنے سے منہ لے کر رہ گئے۔ نام نہاد واحد سپر پاور کے صدر جو بائیڈن نے صاف کہہ دیا کہ یوکرین کی لڑائی میں کودا نہیں جاسکتا۔ ہاں‘ اسلحہ اور دیگر ساز و سامان دیتے رہیں گے۔ یوکرین منتظر ہی رہا کہ اُسے آسرا دینے والے کچھ آگے بڑھیں‘ کچھ کرکے دکھائیں مگر کچھ بھی نہ ہوا۔
کیا یورپ کو اس بات کا خوف لاحق ہے کہ روسی قیادت یوکرین پر تھوپی جانے والی جنگ کو وسعت دینے کی کوشش کرے گی؟ لگتا تو ایسا ہی ہے۔ مالدووا میں انٹونی بلنکن کی میٹ دی پریس کے بعد سے اب تک امریکا نے ہزاروں فوجی متعدد یورپی ممالک میں تعینات کیے ہیں۔ پولینڈ کو امریکی پیٹریاٹ میزائل دیے گئے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وسطی یورپ پر امریکا کے B-52 لانگ رینج بمبار طیاروں کی پروازیں جاری ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ جو کچھ کل تک unthinkable تھا‘ اب thinkable ہوچکا ہے۔ جس کیفیت کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی مغرب کو ڈر لگتا تھا‘ وہ کیفیت اب وارد ہوا چاہتی ہے۔ کوئی معمولی سی لغزش پورے یورپ کو جنگ کے الاؤ میں دھکیل سکتی ہے۔
امریکی خفیہ اداروں نے ایک ہائی پروفائل رپورٹ میں بتایا ہے کہ روسی قیادت یوکرین کے معاملے میں اپنی بات منوانے کے بعد یورپ کے بیشتر ممالک پر دباؤ ڈالنے کے موڈ میں ہے تاکہ وہ روس کے عزائم کی راہ میں دیوار بننے کے بارے میں سوچنا بھی چھوڑ دیں۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور روس میں سابق امریکی سفیر ولیم برنز سے جب ایوانِ نمائندگان کے رکن جیکی سپیئر نے پوچھا کہ کیا روسی قیادت یوکرین میں جاری لڑائی کی توسیع نہیں چاہے گی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم یہی تو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ روس کی تھوپی ہوئی جنگ یوکرین تک محدود رہے۔ اس کے لیے یوکرین کی بھرپور مدد کی جائے گی۔
امریکا نے چین کو خبردار کیا ہے کہ وہ یوکرین کے معاملے میں روس کا ساتھ دینے سے گریز کرے۔ روس پر عائد کی جانے والی پابندیوں کے منفی اثرات سے نمٹنے میں روس کی معاونت کو مغربی طاقتیں یوکرین کو مضبوط بنانے کی کوششوں کے خلاف سازش کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ چین کو انتباہ کیا گیا ہے کہ وہ روس کو ہتھیار فراہم کرے نہ معاشی امداد۔ روس کی تجارت پر بھی قدغن لگائی جارہی ہے۔ چینی قیادت سے کہا گیا ہے کہ اگر اس نے تجارت و مالیات سے متعلق امور میں روس کی مدد کی تو سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ ایسے میں ذہنوں کے پردے پر یہ بات بھی تو ابھر سکتی ہے کہ روس کی مدد کرنے پر چین اور دیگر ممالک کو انتباہ کیا جاسکتا ہے تو پھر روس بھی یوکرین کی مدد کیے جانے پر مزید برہم اور مشتعل ہوسکتا ہے۔ اگر یوکرین کو مضبوط کرنے کا عمل جاری رہا اور پڑوسی ممالک اس عمل میں امریکا کے پارٹنر ثابت ہوئے تو کیا روسی قیادت ان پر نہیں چڑھ دوڑے گی؟ یوکرین کو مغرب کی طرف سے ملنے والے لارے لپے ہی تو تھے جو روس کو مشتعل کرنے کا سبب بنے اور معاملہ لشکر کشی تک پہنچا۔ اگر امریکا اور یورپ نے میدان میں خود اُترنے کے بجائے یوکرین کو مہرہ بناکر روس کو گھیرنے کی کوشش کی تو معاملات اتنے خراب ہوجائیں گے کہ پورا خطہ جنگ کے الاؤ میں بھسم ہوجائے گا۔
یوکرین کے معاملے میں امریکا اور یورپ کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں اور اب چین کو بھی دھمکایا جارہا ہے۔ اگر پابندیوں کے اطلاق کا منطقی نتیجہ متعدد معیشتوں کے لیے خرابی کی شکل میں برآمد ہوا تو کیا ہوگا؟ ایسی صورت میں تو جنگ کو وسعت اختیار کرنے سے روکا نہ جاسکے گا۔ امریکا اور یورپ کے لیے سب سے بڑا چیلنج اپنی برتر حیثیت کو برقرار رکھنا یا کمزوری کا تاثر زائل کرنا ہے۔ اس منزل سے کامیاب گزر کر ہی وہ عالمی سیاست و معیشت میں اپنی بات منواتے رہنے کی پوزیشن میں آسکیں گے۔ فی الحال تو ایسا نہیں لگتا کہ یہ دونوں خطے اپنی پوزیشن برقرار رکھنے میں نمایاں طور پر کامیاب ہوسکیں گے۔ وہ موڑ آچکا ہے جہاں کوئی معمولی سی لغزش بھی پوری دنیا کو انتہائی تباہ کن جنگ کی طرف دھکیل سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں