قوم پر نازک وقت ہے۔ ویسے تو خیر وہ کون سا موڑ تھا جب ہم خطرات میں گِھرے ہوئے نہیں تھے مگر اب کے معاملہ بہت مختلف اور سنگین تر ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ ایک طرف تو ہم پر بڑی طاقتوں کا دباؤ ہے اور دوسری طرف اپنی یعنی اندرونی الجھنیں بھی کچھ کم نہیں۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ عروج پر ہے۔ اب ہمارے نصیب میں ایسا ہی عروج رہ گیا ہے۔ کوئی کچھ بھی سمجھنے کو تیار نہیں۔ قوم حیران و پریشان کھڑی یہ تماشا دیکھ رہی ہے۔ جو سیاہ و سفید کے مالک ہیں وہ ہر معاملے میں من مانی کر رہے ہیں۔ انہیں ذاتی اور گروہی مفادات کی تکمیل و تحفظ ہی سے فرصت نہیں۔ قوم کا کیا ہوگا اس حوالے سے سوچنے کی توفیق کم ہی لوگوں کو ہے۔
او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ایسے وقت ہو رہا ہے جب ملک میں سیاسی محاذ آرائی اپنی ممکنہ انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ اہلِ وطن پریشان ہیں کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ اور یہ بھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کروٹ لیتے لیتے یہ اونٹ کسی پر ایسا گرے کہ وہ اٹھ نہ سکے۔ ایسا ہوا تو حالات مزید سنگین ہو جائیں گے۔ بحث تو اس موضوع پر بھی ہو رہی ہے کہ یہ سب کچھ ہو رہا ہے یا کروایا جارہا ہے۔ معاملات جس انداز سے کوئی شکل اختیار کرتے دکھائی دے رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ع
کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
کچھ تو ہو رہا ہے اور بہت کچھ کروایا جارہا ہے۔ یہ بات محض شک یا گمان کی نہیں بلکہ ٹھوس حقیقت بن کر سامنے ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین ایک بار پھر استعمال ہوگئے ہیں۔ اب تو عام پاکستانی بھی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ حکومت کو گرانے کا ٹاسک دیا گیا ہے اور سیاسی قائدین اپنے اپنے کام پر لگے ہوئے ہیں۔ پورے یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ مزدوری کیا طے ہوئی ہے مگر سوشل اور مین سٹریم میڈیا کی بہت سی رپورٹس اور انٹرویوز کی بنیاد پر یہ بات کہی جانے لگی ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو مزید برداشت کرنے کے موڈ میں نہ ہونے کے باعث مغربی حکومتیں چاہتی ہیں کہ عمران خان منصب پر برقرار نہ رہیں۔ اس حوالے سے بھی اب کوئی شک نہیں رہا کہ عمران خان نے جیسے ہی ٹریک بدلنے کی بات کہی‘ مغربی طاقتیں پی ٹی آئی حکومت کی بنیادیں ہلانے پر تْل گئیں۔ عمران خان کا روس کا دورہ ٹریک بدلنے کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں میں ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ امریکا اور یورپ کو کسی صورت منظور اور قبول نہیں کہ پاکستان ٹریک بدلے اور ایشین بلاک کی طرف زیادہ جھکاؤ ظاہر کرے۔
امریکا اور یورپ کی بھرپور کوشش ہے کہ ایشیا کو طاقت کے مرکز میں تبدیل ہونے سے روکا جائے اور جہاں تک ممکن ہو اس حوالے سے معاملات کو تاخیر سے دوچار کیا جائے۔ چین اور روس کی بڑھتی ہوئی قوت اور جارحیت پسندی کی روش نے مغرب کو پریشان کردیا ہے۔ مغربی قائدین اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ چین اور روس کو طاقت کے ذریعے نہیں روکا جاسکتا۔ ہاں‘ ایشیائی ممالک اور خطوں میں اندرونی خلفشار اور باہمی اختلافات کو ہوا دے کر چین اور روس کی راہ مسدود کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چین اور روس کی راہ مکمل طور پر مسدود نہیں کی جاسکتی مگر اتنا ضرور ہے کہ مغربی قوتیں اپنے مفادات کو زیادہ تحفظ فراہم کرنے کی خاطر تاخیری حربے بروئے کار لارہی ہیں۔ جنہیں دبایا جاسکتا ہے اُن پر دباؤ بڑھاکر معاملات کو الجھایا جارہا ہے۔
وزیر اعظم نے جس انداز سے روس کا دورہ کیا ہے اُس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس اہم موڑ پر وہ سب کچھ اپنی مرضی اور پسند نہیں کر رہے اور نہ ہی یہ ہٹ دھرمی کا کیس ہے۔ روس کا دورہ مقتدرہ کی رضامندی کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔ اہم قومی امور میں تمام فیصلے مشاورت اور رضامندی ہی سے کیے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم نے ٹریک بدلنے کا عندیہ دیا تو مغرب کو تکلیف محسوس ہوئی۔ اُس نے وہی کیا جو وہ کرسکتا تھا۔ پاکستان میں جنہیں وہ اپنے حاشیہ برداروں میں شمار کرتا ہے اُنہیں متحرک کردیا گیا۔ حاشیہ برداروں کے متحرک ہونے کی اور بھی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ایک بڑی مشکل یہ بھی تو ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے بہت سے معاملات میں مغربی آقاؤں کے سامنے دبنے اور بھیگی بلی بننے پر مجبور ہیں۔مغربی طاقتیں معاشی مفادات سے اپنی ہر بات منواتی آئی ہیں۔بظاہر اب بھی یہی ہو رہا ہے۔ امریکا اور یورپ میں جن کے اثاثے ہیں وہ پریشانی کے عالم میں‘ اُن کی ہر بات ماننے پر مجبور ہیں۔ انکار کی صورت میں اُن کے مفادات داؤ پر لگ سکتے ہیں۔
بہر کیف‘ یہ محاذ آرائی کا محل ہرگز نہیں۔ کورونا کی وبا سے نمٹنے میں دو سال لگے ہیں۔ اس دوران دنیا بھر میں معیشتوں کو شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ پاکستان بھی اسی دنیا کا حصہ ہے۔ جو کچھ دوسروں کے معاملے میں ہوا وہی ہمارے معاملے میں بھی ہوا۔ اہلِ وطن بھی دیکھ رہے ہیں کہ کورونا کی وبا کے دوران معیشت کا بہت برا حال ہوا۔ لاکھوں افراد بے روزگار ہوگئے۔ مہنگائی بڑھی۔ افلاس کا گراف بھی بلند ہوا۔ ایسے میں حکومت کے خلاف کسی بھی نوع کی تحریک کا کوئی جواز بنتا ہی نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ وقت حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کا ہے۔ کسی نہ کسی طور ایسا ماحول پیدا ہونے دیا جائے جس میں معیشت پھلے پھولے‘ لوگوں کو روزگار ملے اور ہر شعبہ بحالی کی طرف رواں ہو۔ افسوس کہ ایسا تو کچھ ہو نہیں رہا اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ سیاسی محاذ آرائی معیشت کیلئے انتہائی نقصان دہ ہے۔ برآمدی شعبہ پہلے ہی بہت بری حالت میں ہے۔ سیاسی معاملات میں بے یقینی کی سی کیفیت پیدا ہوئی ہے تو معاشی سرگرمیاں بھی بے یقینی کی گرفت میں آتی جارہی ہیں۔ سٹاک مارکیٹ پر بھی سیاسی و معاشی صورتِ حال کے شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ صنعت کار اور تاجر شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ نئے کاروباری معاملات کا ڈول ڈالیں یا سیاسی صورتِ حال کے کسی منطقی انجام تک پہنچنے کا انتظار کریں۔ بہت سوں نے سرمایہ کاری کی تیاری کر بھی لی تھی تو فی الحال ہاتھ روک لیا ہے۔ کچھ بھی تو واضح نہیں کہ یہ حکومت کہاں تک مقابلہ کر پائے گی اور یہ کہ اگر اس کے خاتمے کی صورت میں نئی حکومت بنی تو وہ معاشی جمود دور کر سکے گی یا نہیں۔
او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے حوالے سے بھی چند نازیبا باتیں کی گئیں۔ یہ قوم کا معاملہ ہے‘ سیاسی بازی گری کا میدان نہیں۔ اسلام آباد کی انتظامیہ نے حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی کو ریڈ زون‘ ڈی چوک میں جلسے کی اجازت دینے سے انکار کردیا ہے۔ یہ بالکل درست اقدام ہے کیونکہ معاملہ ملک کی ساکھ کا بھی ہے۔ اس وقت وفاقی دارالحکومت کا ماحول اس حد تک خراب کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ ریاستی معاملات متاثر ہوں۔ چند برس قبل اسلام آباد میں دھرنے کے باعث ہی معاملات اتنے خراب ہوگئے تھے کہ چین کے صدر شی جن پنگ کا دورہ منسوخ کرنا پڑا تھا۔ اب ہم ایسی کسی بھی صورتِ حال کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ لازم ہے کہ ریاست کو ناکام بنانے والے معاملات کی راہ روکی جائے۔ ایک دنیا ہماری بربادی اور ناکامی کا تماشا دیکھنے کو بے تاب ہے۔ اچھا ہے کہ وہ بے تاب ہی رہے‘ تماشا دیکھنے میں کامیاب نہ ہو۔
علاقائی اور عالمی حالات کا تقاضا ہے کہ ہمارے ہاں ایسی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ نہ ہو جس کے نتیجے میں معاملات بالکل بے قابو ہو جائیں یا پھر سبھی کچھ سرد خانے کی نذر ہو جائے۔ لازم ہے کہ قومی مفاد کو ہر حال میں مقدم رکھا جائے۔ اکھاڑ پچھاڑ کی سیاست ہمارے ہاں دو عشروں سے جاری ہے۔ یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔ جسے عوام ووٹ دیں اسے پانچ سال تک حکومت کرنے کا حق دیا جائے۔ جمہوریت کا تسلسل ہی اس کی طاقت ہے۔ ملک میں حقیقی جمہوری کلچر اسی صورت پروان چڑھ سکتا ہے کہ جمہوریت کو کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ یہ موقع ہم سب مل کر دیں گے۔ سیاست دانوں کو اس معاملے میں اپنا کردار زیادہ نمایاں انداز سے ادا کرنا ہے۔ ملک کے معاملات اول تا آخر انہی کو دیکھنا ہوتے ہیں۔ ملک کا مدار بہت حد تک اُن کی نیت اور عزائم پر ہے۔