"MIK" (space) message & send to 7575

ایٹمی جنگ کی ڈگڈگی

یوکرین پر روس کی لشکر کشی کو ایک ماہ گزر چکا ہے۔ اس لشکر کشی سے پہلے بھی روس نے ایٹمی حملوں کی بات کہی تھی اور جنگ شروع ہو جانے کے بعد بھی ایٹمی حملوں کا راگ تواتر سے الاپا جاتا رہا ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین پر حملوں کے لیے گرین سگنل دینے کے ساتھ ساتھ اپنی نیوکلیئر فورس کو ہائی الرٹ رہنے کا حکم بھی دے دیا۔ یہ گویا ریڈ سگنل تھا۔ اب اُنہوں نے ایٹمی حملوں کی صورت میں شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے سے متعلق مشقوں کا حکم بھی دیا ہے۔ اس حکم سے دنیا مزید دہل گئی ہے۔ مغربی میڈیا میں اس حوالے سے شور مچا ہوا ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ کیا واقعی کوئی ایٹمی جنگ ہوسکتی ہے؟ کیا روسی صدر ایسا کوئی انتہائی قدم اٹھا سکتے ہیں؟ ماہرین کہتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیار اصلاً ردِ جارحیت کے لیے ہیں یعنی ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی میں کوئی بھی ایٹمی ہتھیاروں سے حملے کی حماقت نہیں کرے گا۔ ایسے میں یہ سوچنا بہت عجیب سا لگتا ہے کہ پوتن یا کوئی لیڈر ایٹمی جنگ کے بارے میں سوچ بھی سکتا ہے۔ البرٹ آئن سٹائن نے کہا تھا کہ تیسری عالمی جنگ ایٹمی ہتھیاروں سے ہوئی تو چوتھی عالمی جنگ پتھروں سے ہوگی! سیدھی سی بات ہے‘ جب کچھ بچے گا ہی نہیں تو ہتھیار کی حیثیت سے استعمال کرنے کے لیے صرف پتھر رہ جائیں گے۔
کیا ایٹمی حملوں کی بات کسی خاص مقصد کے تحت کہی جارہی ہے؟ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ روسی صدر کی طرف سے ایٹمی حملوں کی بات کو دنیا نے سنجیدگی سے لیا ہے۔ یہ سنجیدگی دراصل کاروباری طبقے نے دکھائی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے ایک زمانے سے ایٹمی حملوں سے بچاؤ کی تیاریاں کر رکھی ہیں۔ امریکا اور یورپ میں ایسے ہزاروں بنکرز ہیں جن میں ایٹمی حملوں سے بچاؤ کے لیے پناہ لی جاسکتی ہے۔ متعدد ممالک میں مکانات کے اندر ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاری سے بچاؤ کا انتظام کیا گیا ہے۔ غیر معمولی مالی حیثیت کے حامل افراد کے لیے گھر کے اندر اینٹی نیوکلیئر بنکر بنوانا کوئی انوکھی بات نہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں بہت سے مالدار افراد نے ایٹمی‘ کیمیائی اور جراثیمی ہتھیاروں سے بچاؤ ممکن بنانے والے بنکرز بنوا رکھے ہیں۔
امریکا‘ برطانیہ‘ فرانس‘ سوئیڈن‘ سوئٹزر لینڈ‘ فن لینڈ‘ آسٹریا‘ جرمنی‘ چین‘ جاپان‘ روس اور دیگر بہت سے ترقی یافتہ اور خوش حال ممالک میں ایٹمی ہتھیاروں کے انتہائی تباہ کن اثرات سے بہت حد تک محفوظ رہنے کے لیے بنکرز بنائے گئے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ ایٹمی حملے کی صورتحال میں ان بنکرز تک جانے کی مہلت کتنوں کو مل پائے گی اور یہ کہ ان بنکرز میں رہتے ہوئے
زندہ رہنے میں کتنے لوگ کامیاب ہو پائیں گے۔
سوا دو سال قبل جب کورونا کی پہلی لہر شروع ہوئی تھی تب ''نظریۂ سازش‘‘ کے تحت بہت کچھ بیان کیا گیا تھا۔ بہت سوں کا خیال تھا کہ یہ سب کچھ ناٹک ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بڑی طاقتیں معاملات کو اپنے ہاتھ سے نکلتے ہوئے دیکھ کر بدحواس ہو گئی ہیں اور اب تمام معاملات کو پلٹ کر بہت کچھ اپنے حق میں کرنا چاہتی ہیں۔ اسے ماہرین نے ''گریٹ ری سیٹ‘‘ کا نام دیا۔ بات اگر پوری طرح سچ نہیں تھی تو پوری طرح جھوٹ بھی نہیں تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ کورونا کی وبا کے تحت دو برس گزار کر ترقی یافتہ ممالک نے بہت سے معاملات کو اپنے حق میں کرلیا۔ پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو اکھاڑ پچھاڑ کے مراحل سے گزار کر مزید کمزور کردیا گیا۔ ترقی یافتہ دنیا کی مالی حیثیت اِتنی مستحکم ہے کہ وہ مزید دو ڈھائی سال بھی کورونا کی روک تھام کے نام پر نافذ کی جانے والی پابندیوں کے ساتھ جی سکتی ہے۔
جب کام ہوگیا تب کورونا کے نام پر عائد کی جانے والی پابندیاں بھی ختم کردی گئیں۔ تو کیا اب یہ سمجھا جائے کہ ایٹمی جنگ کی باتیں کسی خاص مقصد کے تحت کی جارہی ہیں؟ ایٹمی حملے کی تباہ کاری سے بچانے والے بنکرز کی تیاری کوئی نیا معاملہ نہیں مگر یہ بات ضرور قابلِ غور ہے کہ ہر طرح کے میڈیا پر ایٹمی جنگ کا ڈھول پیٹے جانے کے نتیجے میں اب ان بنکرز کی فروخت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ امریکا اور یورپ میں یہ بنکرز تیزی سے مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ یورپ کے متعدد ممالک میں گھروں کے اندر تہہ خانے میں اینٹی نیوکلیئر بنکرز پائے جاتے ہیں۔ سوئٹزر لینڈ کے کم و بیش 80 فیصد گھروں میں یہ بنکرز موجود ہیں۔ اب تک اِن بنکرز کی تیاری پر تقریباً 30 ارب ڈالر خرچ ہوچکے ہیں۔ فی زمانہ تہہ خانے میں دو یا تین منزلہ بنکرز ڈیڑھ سے دو کروڑ روپے بنتا ہے۔ ان بنکرز میں ہوا‘ پانی‘ بجلی‘ باتھ روم اور کچن کا انتظام کیا جاتا ہے۔ حکومتوں کی طرف سے بنوائے جانے والے بڑے بنکرز میں 15 سے 20 ہزار افراد بھی سماسکتے ہیں۔ ان بنکرز میں کئی ہفتوں کا خوراک کا ذخیرہ بھی ہوتا ہے۔ صرف یہی نہیں‘ ان بنکرز میں علاج کی سہولتیں بھی میسر ہوتی ہیں۔ بعض بنکرز میں میٹرنٹی ہوم تک بنائے گئے ہیں۔ لاک اپ اور جیل والے بنکرز بھی موجود ہیں! سوویت یونین کے زمانے میں زیرِ زمین ریلوے سٹیشنز کو اتنا مضبوط بنایا جاتا تھا کہ ضرورت پڑنے پر اُن سے اینٹی نیوکلیئر بنکر کا کام بھی لیا جاسکے۔ یوکرین میں بھی زیرِ زمین ریلوے سٹیشن انتہائی مضبوط ہیں اور روسی فوج کے حملوں سے بچنے کے لیے لاکھوں افراد نے ان سٹیشنز میں پناہ لے رکھی ہے۔
کیا ایٹمی حملوں کی ڈگڈگی بجاکر اینٹی نیوکلیئر بنکرز کا کلچر عام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟ لگتا تو کچھ ایسا ہی ہے۔ فی زمانہ ہر معاملہ کمرشل اِزم کی نذر ہوکر رہ گیا ہے۔ کھلے بازار کی معیشت میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جہاں کنزیومر اِزم عام ہو جائے وہاں خوشی اور غم کے ہر موقع سے اقتصادی فوائد بٹورنے کا سوچا جاتا ہے۔ یہ ٹرینڈ بھی مغرب ہی کا دیا ہوا ہے۔ وہاں اب ہر معاملے کو خالص کاروباری نقطۂ نظر سے دیکھا اور برتا جاتا ہے۔
دنیا نے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے ہونے والی تباہ کاری کے مناظر دیکھے ہیں۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر گرائے جانے والے امریکی ایٹم بموں (لٹل بوائے اور فیٹ مین) نے جو تباہی برپا کی اُسے لوگ آج تک نہیں بھولے۔ آج نو ممالک کے پاس جو ایٹمی ہتھیار ہیں اُن کی تباہ کاری گرائے جانے والے دو ایٹم بموں کی تباہ کاری سے سیکڑوں گنا ہوگی۔ سبھی جانتے ہیں کہ ایٹمی جنگ چھڑنے کا مطلب ہے دنیا کا صفایا۔ صرف روس کے پاس اتنے ایٹم بم ہیں کہ دنیا کو کئی بار تباہ کیا جاسکتا ہے۔ ایٹمی ہتھیار رکھنے والوں کو اندازہ ہے کہ اگر نوبت ان کے استعمال تک پہنچ گئی تو روئے ارض پر قیامت کا سماں ہی برپا ہونا ہے یعنی کچھ بھی نہ بچ سکے گا۔
تو پھر ایٹمی جنگ کی بات لبوں تک آ کیوں رہی ہے؟ کیا ایٹمی حملوں کی تباہ کاری سے بچاؤ کے آئٹمز کی مارکیٹ کو بڑھاوا دیا جارہا ہے؟ اب بڑی طاقتوں کو کون سا ''ری سیٹ‘‘ درکار ہے؟ کورونا کی وبا کے نام پر دو سال تک بڑی طاقتوں نے دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق چلاکر خوب فوائد بٹورے ہیں۔ یوکرین پر روسی لشکر کشی کے بعد سے اب تک ایٹمی جنگ کی باتیں محض قائدین کی زبانوں پر نہیں ہیں بلکہ تجزیہ کار بھی خوب لکھ رہے ہیں۔ دنیا کو بتایا جارہا ہے کہ آج کے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے کس نوعیت کی تباہی رونما ہوسکتی ہے۔ اس کا ایک واضح مطلب یہ ہے کہ دنیا بھر میں ایٹمی حملوں سے بچاؤ کے لیے درکار ساز و سامان کی خریداری بڑھانے کی تیاری کی جارہی ہے۔ یہ گویا جنگ سے بچاؤ کے نام پر ایک نیا مارکیٹنگ کلچر متعارف کرانے کا معاملہ ہوا۔
ترقی یافتہ دنیا میں اینٹی نیوکلیئر بنکرز بنائے اور بیچے جاسکتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک ایسی پوزیشن میں ہیں ہی نہیں کہ ایسے بنکرز کے متحمل ہوسکیں۔ تو کیا دنیا کو مزید تقسیم کرنے کی تیاری کی جارہی ہے؟ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے بیشتر باشندوں کی سلامتی یقینی بنانے کے حوالے سے مطمئن ہو جانے کے بعد ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی طرف چل پڑیں؟ پس ماندہ ممالک کے انسانوں کو تو ترقی یافتہ دنیا انسانوں ہی میں شمار نہیں کرتی۔ ایسے میں خدشات کا ابھرنا فطری امر ہے۔ اور کچھ ہو نہ ہو‘ ایٹمی جنگ کے متواتر ذکر سے دنیا بھر میں لوگوں کا بلڈ پریشر بڑھتا جارہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں