ملک کو کئی محاذوں پر بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ بعض چیلنج ایسے ہیں کہ کسی صورت نظر انداز کیے جاسکتے ہیں نہ تاخیر ہی کے متحمل ہوسکتے ہیں۔ جو کچھ بھی کرنا ہے تیزی سے کرنا ہے اور بالکل درست انداز سے کرنا ہے۔ ملک میں معاشی اور معاشرتی‘ دونوں اعتبار سے خاصا انتشار ہے۔ یہ انتشار راتوں رات پیدا نہیں ہوا اس لیے راتوں رات ختم بھی نہیں ہوسکتا۔ ہر چیلنج منصوبہ سازی کا متقاضی ہے تاکہ جو کچھ بھی کیا جائے‘ منظم انداز سے کیا جائے۔ ہم وسائل کی شدید قلت کا شکار ہیں۔ جب وسائل کم ہوں تو کم سے کم وسائل صرف کرکے زیادہ سے زیادہ مسائل حل کرنے کی تدابیر کی جانی چاہئیں۔ ہمارے ہاں اس معاملے پر خاطر خواہ توجہ دینے کا رجحان کبھی نہیں رہا۔ اب بھی نہیں ہے! یہی سبب ہے کہ کمیاب وسائل کا بھی بڑا حصہ ضائع ہو جاتا ہے اور قوم مطلوب نتائج کے انتظار میں پڑی سوکھتی رہتی ہے۔
اس وقت معیشت کو سنبھالنے کے علاوہ خارجہ پالیسی کی سمت درست رکھنے کا چیلنج بھی درپیش ہے۔ یہ معاملہ غیر معمولی توجہ چاہتا ہے۔ پاکستان اُن گِنے چُنے ممالک میں سے ہے جن کے لیے بدلتے ہوئے علاقائی و عالمی حالات نے انوکھے چیلنج کھڑے کردیے ہیں۔ پاکستان کو بیک وقت کئی ممالک‘ بالخصوص بڑی طاقتوں سے متوازن تعلقات اُستوار رکھنا ہیں۔ امریکا سے پاکستان کے تعلقات کھٹے میٹھے رہے ہیں۔ یورپی یونین کے ارکان سے بھی پاکستان کے تعلقات ملی جلی کیفیت کے حامل رہے ہیں۔ چین بھی ایک بڑی قوت ہے اور اُس سے بھرپور پارٹنر شپ کے بغیر رہا نہیں جا سکتا۔ برطانیہ سے ہمارے تعلقات معمول کے ہیں یعنی کچھ حاصل ہو رہا ہے نہ کچھ ہاتھ سے جارہا ہے۔ بھارت سے معاملات اچھے خاصے کشیدہ ہیں۔ تعلقات معمول پر لانے کے حوالے سے دونوں ہی طرف سے کچھ نہیں کیا جارہا۔ یہ ہے منظر نامہ!
شہباز شریف وزیر اعظم کی حیثیت سے بیرونی محاذ پر کچھ زیادہ نہیں کرسکتے۔ اُنہیں معاملات کو سمجھنے ہی میں 6 ماہ لگ جائیں گے۔ اِس وقت امریکا ناراض ہے۔ ایسے میں نئی حکومت کو ویسے ہی محتاط ہوکر چلنا ہے۔ صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ کسی بھی نوع کی مہم جُوئی سے مکمل گریز کیا جائے۔ یہ وقت بڑی طاقتوں کے درمیان زور آزمائی کا ہے۔ ہماری آزادی اور خود مختاری اپنی جگہ مگر ہم کسی بھی معاملے میں ایک خاص حد تک ہی جاسکتے ہیں۔ اپنی معاشی حالت پتلی ہو تو زیادہ کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان معاشی اور معاشرتی‘ دونوں اعتبار سے اس وقت کمزور ہے۔ رہی سہی کسر سیاسی خرابیوں نے پوری کردی ہے۔ ایسے میں ملک خارجہ پالیسی کے معاملات میں معقولیت کی ڈگر سے ہٹ کر کچھ بھی نہیں کرسکتا۔ بائیڈن انتظامیہ چند ایک معاملات میں ہم سے ناراض ہے۔ امریکا اگر کمزور پڑا ہے تو یہ اُس کی حقیقت ہے مگر ہماری حقیقت یہ ہے کہ ہم اتنے طاقتور نہیں ہوئے کہ امریکا سمیت کسی بھی قوت کے سامنے سینہ تان کر کھڑے ہوسکیں۔ ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ؎
شاعری کرتے مگر دیکھ تو لیتے پہلے
دردِ دل ہے کہ نہیں، زخمِ جگر ہے کہ نہیں
کوئی بھی قوم اُمورِ خارجہ میں اپنے آپ کو زیادہ اعتماد کے ساتھ اُسی وقت سامنے لاسکتی ہے جب اُس کے پیر زمین پر مضبوطی سے ٹکے ہوئے بلکہ جمے ہوئے ہوں۔ سیاسی اور معاشی استحکام کی منزل سے گزرنے کے بعد ہی یہ مرحلہ آسکتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاسی اور معاشی استحکام کی جو بھی کیفیت ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ان دونوں شعبوں کی خرابیوں نے معاشرت کا بھی بیڑہ غرق کردیا ہے۔ پوری قوم الجھی ہوئی ہے۔ بہت سے غیر ضروری معاملات ہماری زندگی میں یوں داخل و شامل ہوگئے ہیں کہ اب اُن سے بچنے کی راہ نہیں سوجھ رہی۔ یہ وقت ہوش میں آنے، سنبھلنے اور عزم و محنت کے ذریعے مشکلات سے نجات پانے کا ہے۔ افسوس کہ اس حوالے سے کچھ کرنا تو دور کا معاملہ‘ کچھ سوچا بھی نہیں جارہا۔
امورِ خارجہ کے معاملات میں اس وقت غیر معمولی احتیاط لازم ہے۔ کئی ممالک سے بیک وقت تعلقات بہتر بنانے کی سعی ناگزیر ہوچکی ہے۔ ہمیں بڑی طاقتوں کے درمیان جاری رسہ کشی سے بھی بچنا ہے اور اپنے لیے پنپنے کی گنجائش بھی پیدا کرنا ہے۔ یہ انتہائی دشوار گزار مرحلہ ہے۔ اس وقت امریکا، یورپی یونین، روس اور چین کھل کر میدان میں آچکے ہیں۔ ایک طرف امریکا اور یورپی یونین ہیں اور دوسری طرف روس اور چین۔ چین اگرچہ اس وقت بلاک بنانے کے موڈ میں نہیں؛ تاہم وہ اپنی طاقت کا مظاہرہ ضرور کرنا چاہتا ہے۔ اُس نے یوکرین کے معاملے میں روس کے ساتھ کھڑے ہوکر امریکا اور یورپ کو واضح پیغام دیا ہے کہ اُن کی ہر بات من و عن تسلیم نہیں کی جاسکتی۔ ہم نے بھی روس کا ساتھ دیا۔ بعض معاملات میں اپنی مرضی چلائی جاسکتی ہے مگر ہمیں سیاق و سباق بھی دیکھنا ہے اور سٹریٹیجک معاملات و مفادات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا۔
کہا جارہا ہے کہ امریکا اس بات پر ناراض ہے کہ پاکستان نے یوکرین کے بحران میں روس کا کھل کر ساتھ دیا اور عین جنگ چھیڑے جانے کے دن وزیراعظم عمران خان ماسکو میں پائے گئے۔ یہ دورہ اگرچہ پہلے سے طے شدہ تھا؛ تاہم پاکستان کو مشکل میں ڈال گیا۔ پاکستان کو امریکا اور یورپ یونین سے تھوڑا بہت گریزپا بھی ہونا ہے مگر اس کے لیے لازم ہے کہ جامع حکمتِ عملی تیار کی جائے۔ امریکا اور یورپ تھوڑی بہت کمزوری واقع ہونے کے باوجود اب بھی فیصلہ کن قوتیں ہیں۔ پاکستان کو ایک طرف امریکا اور یورپی یونین سے تعلقات بہتر رکھنے ہیں۔ چین کو مطمئن رکھنے کے ساتھ ساتھ بھارت سے بھی بناکر رکھنے ہی میں دانش مندی ہے۔ بھارت بھی مخمصے کی حالت میں ہے۔ وہ روس سے اپنے تعلقات کمزور نہیں کرسکتا جبکہ امریکا اور یورپ اس حوالے سے اس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چین اور بھارت کی ترجیح معاشی معاملات ہیں۔ دونوں ہی تجارت کو بنیاد بناکر آگے بڑھنے کے قائل ہیں۔ سٹریٹیجک معاملات کو درست کرنے کے لیے عسکری قوت استعمال کرنے کی ہمت بھارت میں نہیں۔ چین بھی ایسے تمام معاملات سے دور رہنا چاہتا ہے۔ چینی قیادت کسی بڑے عسکری مناقشے میں الجھ کر وسائل ضائع کرنے کے بجائے معاشی استحکام کی بنیاد پر دنیا بھر کے خطوں کو اپنے آغوش میں لینا چاہتی ہے۔ ایسے میں پاکستان کے حصے کا کام غیر معمولی برد باری کا طالب ہے۔ ہم جذباتیت سے مغلوب ہوگئے تو بہت کچھ اُلٹا سیدھا کر گزریں گے۔ ا ب صرف سیدھا کرنے کی گنجائش ہے۔ قومی مفادات کے تحفظ کا تقاضا ہے کہ کسی کو بے جا ناراض نہ کیا جائے۔
بڑی طاقتوں کے درمیان کھینچا تانی چل رہی ہو تو متعلقین یعنی دونوں سے سَٹے ہوئے چھوٹے ممالک کے لیے انتہائی پریشان کن صورتِ حال پیدا ہو جایا کرتی ہے۔ کمزور ممالک اپنی مرضی کے مطابق نہیں چل سکتے۔ یہ تو ٹھیک ہے مگر اِس سے بڑا مسئلہ ایک دھڑے میں ہونے کا ہوتا ہے۔ کسی نہ کسی طاقت کی ناراضی تو مول لینا ہی پڑتی ہے۔ اس معاملے میں زمینی حقیقتوں کو نظر انداز کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ پاکستان اِس وقت ایسے ہی دو راہے بلکہ تراہے پر کھڑا ہے۔ روس اور چین کی شکل میں ایک دُھندلا سا بلاک ہے اور اُس کے مقابل امریکا اور یورپ کے اتحاد کی شکل میں واضح بلاک ہے۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی! پاکستان کو مسلم دنیا کی طرف بھی دیکھنا ہے۔ دو بلاکس کے مابین مسلم دنیا منقسم ہوئی تو اپنے مفادات پر خود ہی ضرب لگائے گی۔ یہ وقت مضبوط مسلم ممالک کے درمیان وسیع البنیاد مکالمے کا ہے۔ ایسے مواقع پر پاکستان ہمیشہ نمایاں کردار ادا کرتا آیا ہے۔ یہ وقت بھی آگے بڑھنے کا ہے۔ مسلم دنیا کو فیصلہ کرنا ہے کہ مغرب ہی کے آغوش میں بیٹھے رہنا ہے یا چین اور روس کی طرف تھوڑا سا جھکائو پیدا کر کے مغرب سے اپنی چند ایک باتیں بھی منوانی ہیں۔ متمول مسلم ممالک نے اپنے مالیاتی اثاثے مغرب میں رکھے ہوئے ہیں۔ اس معاملے پر بھی نظرِ ثانی کی ضرورت ہے۔
یہ وقت خارجہ پالیسی کے محاذ پر انتہائی محتاط ہوکر چلنے کا ہے۔ بین الریاستی اُمور کو خوش اُسلوبی سے نمٹایا جائے تاکہ کوئی بھی ملک ہمارے مفادات کے خلاف جاکر کچھ کرنے کے بارے میں سوچتے ہوئے عواقب پر بھی غور کرے۔