"MIK" (space) message & send to 7575

کب تلک پانی کو روئے جائیں ہم؟

گرمیاں شروع ہوتے ہی پانی کی دہائی دینے کا عمل بھی شروع ہوتا ہے۔ یہ ہمارا سالانہ معمول ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس معمول میں شدت آتی جارہی ہے۔ یہ بھی فطری عمل ہے کیونکہ اصلاحِ احوال کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جارہا۔ پانی کا بحران دم توڑنے کا نام نہیں لے رہا۔ اس کے حقیقی اسباب معلوم کرنا کچھ دشوار نہیں۔ شہروں کی آبادی بے ہنگم بڑھ رہی ہے۔ ٹاؤن پلاننگ کے فقدان کے باعث لوگ بنیادی سہولتوں کو ترستے رہتے ہیں۔ پانی کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ پانی کے معاملے نے زیادہ شدت اس لیے اختیار کی ہے کہ یہ ایک معاملہ بہت سے معاملات کو بگاڑ دیتا ہے۔ پانی چونکہ انتہائی بنیادی ضرورت ہے اس لیے اِس کے بغیر کام چلتا نہیں۔ سوال صرف پینے کے پانی کا نہیں‘ برتن اور کپڑے دھونے کے علاوہ نہانے دھونے اور گھر کی صفائی کے لیے بھی پانی کی ضرورت پڑتی ہے۔ پینے کا پانی خریدنا تو کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے‘ باقی ضروریات کے لیے پانی کی خریداری گھر کے بجٹ کی کمر توڑ دیتی ہے۔
کراچی کے بیشتر (غریب و پس ماندہ) علاقوں کے مکینوں کا یہ حال ہے کہ شدید گرمی کے زمانے میں پانی کا حصول اُن کی زندگی کا بنیادی اور کلیدی مقصد ہوکر رہ جاتا ہے۔ لوگ پانی کے لیے یوں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں گویا کسی خزانے کی تلاش میں نکلے ہوں۔ یہ ایک معاملہ اُن کی صلاحیت اور سکت‘ دونوں کو نچوڑ لیتا ہے۔ ایسے میں انسان ڈھنگ سے کمانے اور دیگر معاملات پر متوجہ رہنے کے قابل بھی نہیں رہتا۔ کھاتے پیتے گھرانے تو اپنی ضرورت کے مطابق پانی خرید کر کام چلا لیتے ہیں۔ جن کے لیے یومیہ خوراک کا ڈھنگ سے اہتمام کرنا دردِ سر ہو وہ کیا کریں؟ کیا ہمارے ہاں پانی ضرورت سے کم ہے؟ لگتا تو ایسا ہی ہے مگر ایسا ہے نہیں۔ پوری دیانت اور جاں فشانی سے معاملات کا جائزہ
لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ کراچی جیسے بڑے شہر کے لیے بھی پانی ضرورت کے مطابق ہی میسر ہے۔ تو پھر یہ بحرانی کیفیت کیوں ہے؟ بات اِتنی سی ہے کہ ترسیل اور تقسیم کے نظام میں خرابی سے معاملات بگڑ کر بحران کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ کراچی کے متعدد علاقوں میں پانی اس لیے ناپید یا کمیاب ہے کہ ترسیل و تقسیم کا نظام درست نہیں۔ یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ بیشتر غریب بستیوں کو پانی مل ہی نہیں پاتا مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ متعدد غریب بستیوں اور بالخصوص کچی آبادیوں میں پانی دھڑلّے سے چرایا جاتا ہے۔ لوگ جی بھرکے پانی چراتے ہیں اور اُن سے کچھ بھی وصول نہیں ہو پاتا۔ یہ سارا خسارہ باقاعدگی سے بل ادا کرنے والوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔ بجلی کا بھی یہی کیس ہے۔ ملک کے دوسرے بڑے شہروں کی طرح کراچی میں بھی پانی کی ترسیل و تقسیم کا نظام غیر معیاری ہے۔ پانی کی منصفانہ و متوازن تقسیم کا تصور اب تک ناپید ہے۔ اس حوالے سے سوچنے کا چلن اب تک عام نہیں ہوا۔ کراچی کے بعض علاقوں میں پانی اِتنا آتا ہے کہ سنبھالنے نہیں سنبھلتا اور کہیں اتنا کم آتا ہے کہ لوگ ترستے ہی رہ جاتے ہیں۔ یوں شہرِ قائد دو انتہاؤں کے بیچ ہچکولے کھارہا ہے۔
کراچی کے متعدد علاقوں میں پانی کی ترسیل و تقسیم کا نظام کتنا ناقص ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ گھروں میں تو خوب پانی آتا ہے اور لوگ جی بھرکے مستفید ہوتے ہیں تاہم اپارٹمنٹس والی عمارتوں کے مکین پانی کو ترستے رہتے ہیں۔ بہت سے گھروں میں باقاعدگی سے یعنی دو یا تین دن میں اتنا پانی آتا ہے کہ 12 تا 15 ہزار لیٹر کا زیرِ زمین ٹینک آسانی سے بھر جاتا ہے اور یہ ٹینک بھی لوگ محض چار پانچ دن میں استعمال کر ڈالتے ہیں جبکہ 60 تا 80 گز کے ہر اپارٹمنٹ (فلیٹ) کو متعلقہ انتظامی یونین ہفتے میں ایک بار دو ڈھائی گھنٹے پانی دیتی ہے اور لوگ چھت پر رکھی ہوئی ہزار‘ بارہ سو لیٹر کی ٹنکی کے پانی میں ہفتہ بھر گزارہ کرتے ہیں۔ یہ تو ہوا پانی کی غیر مساوی اور غیر متوازن تقسیم کا معاملہ۔ اِسی سے جڑی تلخ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگ اپنے گھروں میں 12 تا 20 ہزار لیٹر کی گنجائش والا زیرِ زمین ٹینک تعمیر کرواتے ہیں۔ یہ ٹینک عموماً دو تین دن میں نصف تک خرچ ہو جاتے ہیں کیونکہ لوگ پانی سوچے سمجھے بغیر استعمال کرتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ گھر میں ضرورت سے کئی گنا زیادہ پانی ہونے کے باوجود قرب و جوار کے ضرورت مندوں کو تھوڑا سا بھی پانی دینے کی زحمت گوارا نہیں کی جاتی۔ بیشتر علاقوں میں پانی کی شدید قلت کے باعث ٹینکر مافیا کے وارے نیارے ہیں۔ جو لوگ پانی کے استعمال کے معاملے میں لاپروا ہیں وہ اِس کا خمیازہ پانی خریدنے کی صورت میں بھگتتے ہیں۔ ٹینکر مافیا کے لوگ شہر کو پانی فراہم کرنے والے ادارے کے اہلکاروں سے ساز باز کرکے بعض علاقوں میں انتہائی قلت برقرار رکھتے ہیں۔ شدید گرمی میں لوگوں کے پاس پانی خریدنے کے سوا چارہ نہیں ہوتا۔
ضرورت کے مطابق پانی کا حصول یقینی بنانے کے لیے لوگ بورنگ بھی کرواتے ہیں۔ ملک بھر میں زیرِ زمین پانی سے استفادہ کرنے کا چلن عام ہے جس کے نتیجے میں زیرِ زمین پانی کی سطح بہت گرگئی ہے۔ موسلا دھار یا معمول سے بہت زیادہ بارشوں کے بعد زیرِ زمین پانی کی سطح بلند ہو جاتی ہے؛ تاہم یہ کیفیت تھوڑی ہی مدت کے لیے ہوتی ہے۔ کراچی کے بیشتر علاقوں میں زیرِ زمین پانی کی سطح خاصی گری ہوئی ہے۔ لوگوں کو بورنگ پر بہت زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے اور اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ قابلِ استعمال یعنی معیاری پانی نکلے گا۔ بہت سے لوگ انتہائی کھاری پانی پینے اور کھانا پکانے کے لیے استعمال کرنے سے مختلف عوارض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کراچی اور دیگر بڑے شہروں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ صنعتی یونٹس کو بھی پانی درکار ہوتا ہے۔ اُنہیں بھی شہریوں کے حصے ہی سے پانی دیا جاتا ہے۔ بہت سے صنعتکار متعلقہ ادارے کے اہلکاروں سے سازباز کرکے اپنے یونٹس کے لیے زیادہ سے زیادہ پانی حاصل کرتے ہیں اور شہری ترستے ہی رہ جاتے ہیں۔ صنعتی اداروں کی پانی کی ضرورت پوری کرنے پر بھی توجہ دی جانی چاہیے اور کوشش یہ بھی ہونی چاہیے کہ اُنہیں عوام کے حصے سے پانی نہ دیا جائے بلکہ کچھ الگ انتظام ہو۔ صنعت کار پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے کچھ زیادہ بھی ادا کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے مل بیٹھ کر کوئی نظم تیار کیا جانا چاہیے۔
ہمارے ہاں کسی بھی حکومت نے ملک کی ضرورت کے مطابق چھوٹے بڑے ڈیم بنانے پر اب تک خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ بارش کے پانی کا تقریباً 90 فیصد دریاؤں کے راستے سمندر میں جا گرتا ہے۔ سمندر میں گرنے سے قبل اس پانی کو ڈھنگ سے بروئے کار لاکر عوام کی مشکلات دور کی جاسکتی ہیں اور صنعتی و تجارتی استعمال کے لیے بھی بڑے پیمانے پر پانی فراہم کیا جاسکتا ہے۔ بڑے ڈیم بنانا سیاسی معاملہ بھی بن جاتا ہے۔ ایسے میں چھوٹے ڈیم بناکر معاملات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے مگر اس طرف بھی توجہ نہیں دی جارہی۔ ایسا لگتا ہے کہ پانی کے بحران کو بحران سمجھا ہی نہیں جارہا۔ یہ پورا معاملہ متعلقہ مافیا کے حوالے کردیا گیا ہے۔ بڑے شہروں میں لوگ پانی خریدنے پر مجبور ہیں اور دیہی علاقوں کے لوگ صاف پانی کی قلت کے باعث خاصا آلودہ پانی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ یوں پانی کا بحران صحتِ عامہ کے حوالے سے پیچیدگیاں پیدا کرنے کا بھی باعث ہے۔
ایک زمانے سے مین سٹریم میڈیا میں یہ بات زور و شور سے بیان کی جارہی ہے کہ مستقبل کی جنگیں پانی کے مسئلے پر ہوں گی۔ وہ مستقبل خیر سے آچکا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جنگوں سے کہیں بڑھ کر اب پانی کے مسئلے پر خانہ جنگیوں کا خدشہ ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں پانی کی شدید قلت اور غیر متوازن و ناروا ترسیل و تقسیم لوگوں میں شدید اشتعال پیدا کر رہی ہے۔ ایک ہی شہر میں پانی کی انتہائی غیر منصفانہ تقسیم سے آبادیوں کے درمیان شدید منافرت پروان چڑھتی رہتی ہے۔ مختلف النوع تعصبات کی آگ کو ایسے ہی حالات ہوا دیتے ہیں اور پھر معاشرے الٹ پلٹ جاتے ہیں۔ پانی جیسی انتہائی بنیادی شے کی ڈھنگ سے فراہمی یقینی بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں