کورونا کی وبا نے اور کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو، دنیا کو تقسیم ضرور کردیا۔ اس وبا کے بارے میں ابتدا ہی سے نظریۂ سازش کی بات کی جارہی تھی۔ جس انداز سے اس وبا کی روک تھام کے نام پر پوری دنیا کو دیوار سے لگایا گیا‘ اُس سے لگتا تو ایسا ہی تھا کہ یہ سب کچھ طے شدہ تھا۔ کورونا کی روک تھام کے حوالے سے سب سے زیادہ شور ترقی یافتہ دنیا نے مچایا اور باقی دنیا کو بھی اس بات کا پابند کیا کہ کورنا کی روک تھام کے نام پر متعارف کرائے جانے والے ایس او پیز پر بھرپور عمل کرے۔ یہ سب کچھ لازم تھا تو ٹھیک ہے مگر یہ کیا کہ ایک طرف تو کورونا وائرس کے نئے ویری اینٹس کی آمد کا غلغلہ ہے اور دوسری طرف ترقی یافتہ دنیا انتہائی پُراسرار انداز سے ایک طرف ہوگئی ہے۔ کورونا کی روک تھام کے نام پر اپنائے گئے تمام ایس او پیز کی بساط لپیٹ دی گئی ہے۔ ٹیسٹنگ اور ٹریکنگ ختم کردی گئی ہے۔ ماسک پر زور دیا جارہا ہے نہ سماجی فاصلے پر۔ سب کچھ راتوں رات بدل گیا ہے۔ بہت تیزی سے یہ طے کرلیا گیا ہے کہ اب کوئی خطرہ نہیں رہا۔ میڈیا میں کورونا کے نئے ویری اینٹس کی خبریں آتی رہتی ہیں مگر یہ سب کچھ بظاہر لہو گرم رکھنے کا بہانہ ہے۔ کورونا کی ٹیسٹنگ، ٹریکنگ اور تحقیق سے متعلق فنڈنگ روک دی گئی ہے۔ امریکا میں ری پبلکنز دفاعی بجٹ بڑھانے کے درپے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کورونا کی وبا کی روک تھام کے نام پر کیے جانے والے تمام اقدامات ترک کرکے متعلقہ فنڈز دفاعی بجٹ میں ڈال دیے جائیں۔ صحتِ عامہ کے لیے کانگریس میں پیش کیے جانے والے 22.5 ارب ڈالر کے پیکیج کو بھی ری پبلکنز کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا رہا ہے۔
تیسری دنیا کے مسائل برقرار ہیں۔ پسماندہ ممالک کی معیشتیں اب تک الجھی ہوئی ہیں۔ کورونا کی وبا سے قبل جو وبائیں موجود تھیں‘ وہ اب تک ہیں اور ان کے فوری ختم ہونے کا کوئی امکان بھی نہیں۔ کورونا کی وبا نے سر اٹھایا تو ذیا بیطس، ملیریا، ڈینگی، معدے کے امراض اور دیگر وباؤں کی روک تھام کے لیے کی جانے والی کوششیں ترک کردی گئیں۔ مختلف عوارض کے علاج سے متعلق اقدامات کے بارے میں لوگ دہائیاں دیتے رہ گئے مگر سارا زور کورونا کی وبا پر لگایا گیا۔ پوری دنیا میں یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ کورونا کو نہ روکا گیا تو یہ پوری دنیا کو کھا جائے گا جبکہ حقیقتاً ایسا کچھ نہیں تھا۔ ابتدا میں میتوں کی تدفین بھی ایک مسئلہ بن گئی۔ لوگوں کو جنازوں میں شریک ہونے سے بھی روک دیا گیا۔ ایسا ماحول پیدا کیا گیا کہ لوگ میت کو ہاتھ لگانے سے بھی ڈرتے رہے۔ اب جن لوگوں کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ کورونا کی وبا سے مرے ہیں‘ اُن کی میت کو دفنانے میں کوئی ہڑبونگ نہیں مچتی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ پورا ماحول پیدا کیا گیا تھا۔ لوگوں کو خوفزدہ کرکے ایک طرف دھکیل دیا گیا تھا۔ تیسری دنیا کے لوگ اب بھی اُن وباؤں کے شکنجے میں ہیں جو کورونا کی وبا کے وارد ہونے سے قبل بھی اُن کی زندگی کا حصہ تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تیسری دنیا یعنی انتہائی پس ماندہ ممالک میں ہر سال لاکھوں افراد امراضِ قلب، امراضِ معدہ، ذیابیطس، ملیریا، ڈینگی وغیرہ کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترتے ہیں۔ ترقی یافتہ اقوام ان وباؤں کی روک تھام کے لیے پس ماندہ اقوام کو برائے نام فنڈز دیتی ہیں۔ حالات کی چکی میں پسے ہوئے ممالک کے لوگ صحت کے حوالے سے انتہائی مشکلات سے دوچار ہیں۔ صحتِ عامہ کا گرتا ہوا معیار عمومی اوسط عمر بھی گھٹا رہا ہے۔
امریکا، برطانیہ، سوئٹزر لینڈ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک نے کورونا کی روک تھام کے لیے برطانیہ کے امپیریل کالج مین ریئل ٹائم اسیسمنٹ آف کمیونٹی ٹرانسمیشن پروگرام اور کنگز کالج کووڈ سسٹمز ایپ کو بند کردیا گیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اب اس کی ضرورت نہیں رہی۔ کورونا کی وبا دیکھتے ہی دیکھتے کیسے ختم ہوگئی؟ امریکا کے میری لینڈ یونیورسٹی سکول آف میڈیسن کے انسٹیٹیوٹ آف ہیومن وائرولوجی کی ایسوسی ایٹ پروفیسر نادیہ سیم اگوڈو کہتی ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کسی بھی معاملے میں جو بھی فیصلے کرتے ہیں وہ پوری دنیا اور بالخصوص پس ماندہ ممالک پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ دنیا کی پالیسیاں بدلنے سے پس ماندہ ممالک میں بھی بہت کچھ بدل جاتا ہے۔ صحتِ عامہ سے متعلق فنڈنگ کا بھی ایسا ہی معاملہ ہے۔ امریکا کے معروف جریدے اٹلانٹک نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک نے اگر کورونا کی روک تھام کے حوالے سے فنڈنگ روک دی تو پس ماندہ ممالک میں پائی جانے والی عمومی وباؤں کی روک تھام کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑ جائے گا۔ اس کے نتیجے میں وہاں ہلاکتوں کا گراف بلند ہوگا۔
کورونا کی وبا سے نمٹنے کے اقدامات اگر کہیں سب سے نیم دلانہ تھے تو افریقہ میں تھے۔ افریقی ممالک کی معیشتیں پہلے ہی بہت زیادہ خستہ حال تھیں۔ رہی سہی کسر کورونا کی وبا نے پوری کردی۔ بیشتر افریقی ریاستوں نے کورونا ایس او پیز کی تعمیل کی زحمت گوارا نہ کی۔ افریقا کے طول و عرض میں کورونا کی وبا نے کیا کیفیت پیدا ہوگی اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ پورے افریقہ میں صرف 15 فیصد باشندے ایسے ہیں جنہیں کورونا سے بچاؤ کی ویکسین کی دو خوراکیں دی جاسکیں۔ 20 فیصد افراد وہ ہیں جنہیں صرف ایک خوراک مل سکی۔ دوسری طرف ترقی یافتہ ممالک میں 80 فیصد سے زائد افراد کو کورونا سے بچاؤ کی ویکسین کی دو خوراکیں دی جاچکی ہیں اور بہت سوں نے بوسٹر ڈوز بھی لگوائی ہے۔ اٹلانٹا (امریکا) کے ایموری یونیورسٹی سکول آف میڈیسن کے محقق بوڈما کابسین کا کہنا ہے کہ افریقہ اور دیگر پس ماندہ خطوں کی صورتِ حال بہت خراب ہے۔ ایک طرف تو انہیں کورونا سے بچاؤ کی ویکسین ضرورت کے مطابق نہیں دی گئی اور دیگر عوارض اور وباؤں پر قابو پانے کے حوالے سے جو کچھ کیا جانا چاہیے تھا وہ بھی نہیں کیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ ترقی یافتہ دنیا نے اُنہیں حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔
کورونا کی وبا کے دوران پس ماندہ ممالک کی معیشتوں کے لیے جو الجھنیں پیدا ہوئی تھیں اُن سے مکمل گلو خلاصی اب تک ممکن نہیں ہوسکی ہے۔ معاشی خرابی کے نتیجے میں صحتِ عامہ کے حوالے سے بھی متعدد مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے فنڈنگ کی بھی شدید کمی ہے۔ ایسے میں کوئی بھی اندازہ لگاسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں پس ماندہ ممالک کے لوگوں کو عمومی وباؤں کے ہاتھوں کس نوعیت کی مصیبتیں جھیلنا پڑیں گی۔ آج پس ماندہ ممالک جن مسائل کا شکار ہیں وہ بہت حد تک ترقی یافتہ دنیا ہی کے پیدا کردہ ہیں۔ امریکا اور یورپ نے مل کر صدیوں تک پس ماندہ خطوں کا استحصال کیا ہے، اُن کے قدرتی وسائل لُوٹے ہیں۔ ایک صدی کے دوران ترقی یافتہ ممالک کی پالیسیوں کے ہاتھوں کمزور ممالک کو بہت کچھ جھیلنا پڑا ہے۔ اُنہیں دانستہ پس ماندہ رکھا گیا ہے۔ افریقہ کی مثال بہت واضح ہے۔ یہ براعظم صدیوں سے پس ماندگی کا شکار ہے۔ باقی دنیا سے اسے غیر متعلق کردیا گیا ہے۔ ایک پورا براعظم باقی دنیا کے لیے برائے نام بھی اہمیت کا حامل نہیں۔ اُس کی سیاسی، معاشرتی، ثقافتی اور تہذیبی وقعت کچھ بھی نہیں۔ یہ سب کچھ انسانیت کے خلاف جرائم کے ذیل میں آتا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا نے باقی دنیا پر جو مظالم ڈھائے ہیں اُن کا حساب لیا جانا چاہیے۔ پس ماندہ ممالک میں صحتِ عامہ کے حوالے سے صورتِ حال بہتر بنانے پر خاطر خواہ توجہ دیے جانے کی ضرورت ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران عمومی وباؤں کو قابو میں رکھنے سے متعلق اقدامات ایک طرف رکھ دیے گئے تھے۔ اس کے نتیجے میں کورونا پر قابو پانا تو جیسے تیسے ممکن ہوا، عمومی عوارض اپنی جگہ ہیں۔ ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکا کے پس ماندہ ممالک میں کروڑوں افراد عمومی وباؤں کے ہاتھوں اب تک پریشان ہیں۔ ان وباؤں کے ہاتھوں ہونے والی خاموش ہلاکتیں معاشروں کو تہ و بالا کر رہی ہیں۔ یہ سب کچھ ہم سے فوری توجہ چاہتا ہے۔ سوال کورونا یا کسی اور خصوصی وبا کا نہیں، صحتِ عامہ کا ہے۔ زور وباؤں کے خاتمے پر ہونا چاہیے، کسی خاص وبا کے خاتمے پر نہیں۔ اس معاملے میں مزید تاخیر برداشت نہیں کیا جانی چاہیے۔