"MIK" (space) message & send to 7575

خوش کون رہ سکتا ہے؟

ہر سال ہیپی نیس انڈیکس جاری کیا جاتا ہے جس کے تحت اُن ممالک کی فہرست دی جاتی ہے جہاں کے لوگ زیادہ خوش رہتے ہیں اور اُن کی زندگی خوشیوں سے عبارت دکھائی دیتی ہے۔ اس وقت دنیا کے خوشحال ترین معاشروں میں سکینڈے نیوین ممالک سرِفہرست ہیں جن میں سویڈن، ڈنمارک، ناروے، فن لینڈ، ہالینڈ وغیرہ شامل ہیں۔ چند ایشیائی معاشرے بھی ہیپی نیس انڈیکس میں نمایاں ہیں۔ ایشیا، افریقہ اور جنوبی امریکا کے بیشتر پس ماندہ معاشرے ہیپی نیس انڈیکس میں بہت نیچے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کا شمار بھی اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں کے لوگ زیادہ خوش نہیں رہتے۔ ع
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی
دنیا بھر میں تجزیہ کار یہ سوال اٹھاتے رہتے ہیں کہ کون سے عوامل انسان کو خوش رکھتے ہیں۔ سکینڈے نیویا کے جو ممالک ہیپی نیس انڈیکس میں بہت اوپر ہیں‘ وہ عملاً مذہب کو ترک کرچکے ہیں‘ وہاں فلاحی ریاست کے تصور کو خوب پروان چڑھایا گیا۔ فلاحی ریاست یا معاشرے کا قیام یقینی بنانے کی خاطر ان ممالک میں ایسا بہت کچھ اپنایا گیا جو عام حالات میں اپنایا نہیں جاتا۔ اب اِسی بات کو لیجیے کہ معاشرے نے فرد کی تمام ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں۔ کسی بھی معاملے میں ریاست بھاگتی ہوئی آتی ہے اور فرد کے لیے راحت کا سامان کرتی ہے۔ فرد کے تمام معاملات کا خیال ریاست رکھتی ہے اور اِس کے عوض ٹیکس وصول کرتی ہے۔ ہر فرد کو چند ایک معاملات میں پابند بھی رہنا پڑتا ہے۔ دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا بھی ایسے معاشروں میں ایک بنیادی شرط ہے۔ یوں معاملات خوش اُسلوبی سے چلتے رہتے ہیں۔ ریاست کم و بیش ہر معاملے کی ذمہ دار ہے۔ اس کا ایک منطقی نتیجہ یہ بھی برآمد ہوا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے قدرے بے نیاز بلکہ لاپروا ہوچکے ہیں۔ لوگوں نے بہت سی سماجی ذمہ داریوں سے آپ کو آزاد کرلیا ہے۔ وہ بہت سے معاملات میں سوچنے کے مکلف ہی نہیں رہے کیونکہ ریاست موجود ہے۔ یہ سب کچھ بہت اچھا لگتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک خاص حد تک ہے بھی اچھا۔ ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ خوش رہنا ہے کیا اور ہم کن باتوں سے خوش رہ سکتے ہیں۔ دنیا کا ہر انسان زیادہ سے زیادہ خوش رہنا چاہتا ہے۔ یہ ممکن ہے مگر اِس کے لیے خاصی تگ و دَو کرنا پڑتی ہے۔ بنیادی سہولتوں سے ہم کنار رہنے والوں کو خاصا مطمئن اور خوش دیکھا گیا ہے۔ جب کوئی ریاست اپنے کام ڈھنگ سے کرتی ہے تب لوگوں کے تفکرات برائے نام رہ جاتے ہیں۔ ایسے میں دل و دماغ کے لیے فرحت کا سامان ہونا لازم ہے۔ یہی کیفیت انسان کو خوش و خرم رکھتی ہے۔ انسان جن باتوں سے خوش رہتا ہے اُن کی ایک عمومی سی فہرست مرتب کی جاسکتی ہے، مثلاً بنیادی سہولتوں کا دستیاب ہونا، معاش کے ذرائع کا میسر ہونا، کیریئر کو پروان چڑھانے میں آسانی، معاشرے میں عمومی سیاسی و معاشرتی استحکام، عمومی رویوں میں اعتدال و استحکام‘ وغیرہ وغیرہ۔ جب یہ سب کچھ ہوتا ہے تب انسان مستقبل کے بارے میں زیادہ فکر مند نہیں رہتا اور یوں اُس کے پاس خوش ہو رہنے کی خاصی گنجائش ہوتی ہے۔
ملحد تجزیہ کار اس نکتے پر زور دے رہے ہیں کہ جن معاشروں نے مذہب کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے‘ وہ زیادہ خوش رہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مذہب کے نام پر جو کچھ ہوتا رہتا ہے‘ اُس کے نتیجے میں معاشرے تلپٹ ہو جاتے ہیں۔ ہم یہ تماشا دیکھتے آئے ہیں۔ پس ماندہ معاشروں میں مذہب اور مسلک کے نام پر ہونے والی لڑائیوں نے ترقی کے عمل کی راہ روک رکھی ہے مگر جو کچھ پس ماندہ معاشروں میں ہوتا رہا ہے اُس کی بنیاد پر ہم مذہب کو موردِ الزام نہیں ٹھہراسکتے۔ مذہب الگ چیز ہے اور مذہبیت بالکل الگ معاملہ۔ اور پھر یہ دیکھنا بھی لازم ہے کہ مذہب کی تعلیمات اپنی جگہ اور مذہب کے نام پر لڑنے والوں کی ذاتی سوچ، خواہش اور ایجنڈے اپنی جگہ۔ مذہب کے نام سے متنفر ہونے والے اس نکتے پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ بگاڑ مذہب یا مذہبی تعلیمات سے نہیں‘ اُس پر عمل کرنے والوں کی بدنیتی اور بد اعمالی کے ہاتھوں پیدا ہوتا ہے۔ ہر پس ماندہ معاشرے کا یہی معاملہ ہے۔ معاشروں میں پائی جانے والی خرابیاں بہت سے عوامل کی پیدا کردہ ہوتی ہیں مگر بات کو گھما پھراکر مذہب تک لایا جاتا ہے اور پھر اسے ہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ مغرب کے ترقی یافتہ معاشروں کے لوگ مذہب سے بیگانے ہوکر خوش ہیں۔ ایشیا کے چند معاشروں کا بھی یہی حال ہے۔ یہ تصور عوام کے ذہنوں میں راسخ کردیا گیا ہے کہ اگر حقیقی ترقی یقینی بنانی ہے اور خوش و خرم رہنا ہے تو اس کی بساط کا لپیٹا جانا ناگزیر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حقیقی مسرت کا اہتمام تو مذہبی تعلیمات کی تعمیل ہی پر منحصر ہے۔ اس حقیقت کو سمجھانا اور منوانا اس لیے بہت مشکل ہے کہ مذہبی معاشروں میں بگاڑ زیادہ پایا جارہا ہے۔ مذہب بیزار دنیا یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ مذہبی معاشروں میں پایا جانے والا بگاڑ مذہب کا پیدا کردہ نہیں بلکہ اِس کی پشت پر افلاس، جہالت اور سیاسی و معاشرتی عدم استحکام ہے۔ خرابیاں پیدا کرنے والے دیگر تمام عوامل کی کار گزاری کو مذہب کے کھاتے میں ڈالنے کا رجحان اس قدر پختہ ہوچکا ہے اب اس حوالے سے آواز اٹھانا بھی بہت بڑا کام ہے۔ عام آدمی کو یہ نکتہ ذہن نشین کرانا بہت مشکل ہے کہ خرابیاں مذہب کے پیرو پیدا کرتے ہیں نہ کہ مذہب کی تعلیمات۔
بات ہو رہی تھی مذہب بیزار معاشروں میں خوش رہنے والوں کی تعداد کے بڑھنے کی۔ مغربی معاشروں میں مذہب سے یکسر بیزاری عام ہے۔ یورپ اس معاملے میں نمایاں ہے۔ اُس نے مذہب سے بیزاری ہی اختیار نہیں کی بلکہ ایجنڈے کے طور پر باقی دنیا کو مذہب بیزار بنانے پر باضابطہ کام کیا ہے۔ لبرل اِزم کے نام پر مذہب سے بیزاری کو فروغ دینے میں یورپ کا کردار بہت نمایاں رہا۔ اِس کے جو خطرناک اور تباہ کن نتائج برآمد ہوسکتے تھے‘ وہ برآمد بھی ہو رہے ہیں۔ مذہب کو سارے فساد کی جڑ ماننے کی ذہنیت نے یورپ کے لوگوں کو ہر معاملے میں صرف دنیا ہی کو سب کچھ سمجھنے کی ذہنیت کا اسیر بنادیا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ تمام اخلاقی حدود و قیود ختم ہوچکی ہیں جو مذہب عائد کرتا ہے۔ جھوٹ نہ بولنا، پورا تولنا، کام کے معاملے میں دیانت پر مبنی رویہ اپنانا، عہد سے نہ مکرنا، فلاحی کام کرنا‘ یہ سب کچھ بالکل درست اور قابلِ تحسین ہے۔ مغربی معاشروں نے دنیا کو بہت کچھ سکھایا بھی ہے۔ معاشی جدوجہد سے متعلق دیانت کا سبق سکھانے میں مغرب پیش پیش رہا۔ انفرادی کارکردگی کے بجائے اداروں کی شکل میں کام کرنے کی روایت بھی مغرب نے محض شروع ہی نہیں کی، قابلِ رشک حد تک پروان بھی چڑھائی۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ بہت اچھا مگر یہ بھی تو دیکھنا چاہیے کہ دُنیوی زندگی کو زیادہ سے زیادہ پُرآسائش بلکہ پُرتعیش بنانے کے لیے اہلِ مغرب نے قیمت کیا ادا کی ہے، اُن کے ہاتھ سے کیا جاتا رہا ہے۔ وہ آج خالص مادّہ پرستانہ زندگی بسر کر رہے ہیں۔ روحانی اقدار کو خیرباد کہہ دیا گیا ہے۔ زندگی سے روحانی اقدار کے نکل جانے کی صورت میں جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کسی بھی چیز سے پُر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اب مغرب کے بہت سے مفکرین اور تجزیہ کار بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں تساہل اور بخل نہیں برت رہے کہ مغرب نے محض دنیا پانے کی خاطر بہت کچھ کھو دیا ہے۔
سوال یہ نہیں ہے کہ کون کتنا خوش ہے۔ دیکھنا ہے کہ خوشی کس قیمت پر حاصل کی گئی ہے۔ مغربی اور بالخصوص یورپی معاشروں نے مذہب، اخلاقیات، روحانیت، آخرت‘ سب کچھ اپنی زندگی سے نکال کر صرف دنیا کو گلے لگالیا ہے اور سمجھا یہ جارہا ہے کہ کوئی بہت بڑا تیر مارا گیا ہے۔ اِن معاشروں کی عمومی خوش حالی یقینا قابلِ رشک اور متاثر کن دکھائی دیتی ہے لیکن قالین کا کونا ذرا سا اٹھاکر دیکھیے تو اچھا خاصی غلاظت صاف دکھائی دے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں