دنیا بھر میں جہاں اور بہت کچھ تبدیل ہو رہا ہے‘ معاشی رویے بھی تبدیل ہو رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بھی کمانے کے ڈھنگ بدل رہے ہیں۔ لوگ نئے شعبے تلاش کر رہے ہیں۔ روایتی شعبوں میں زیادہ یافت کا امکان نہیں۔ اب لوگ ہر معاملے میں کچھ نہ کچھ جدت چاہتے ہیں‘ کچھ نیا پن دیکھنے کے عادی ہیں۔ اس وقت پوری دنیا میں یہی ٹرینڈ چل رہا ہے۔ لوگ جدت پر جان دے رہے ہیں۔ جو چیز جتنی انوکھی ہوتی ہے وہ اُتنی ہی تیزی سے مقبولیت کی بلندیوں کو چھونے لگتی ہے۔ سوشل میڈیا کی مہربانی سے اب ہر انوکھا معاملہ مقبولیت کے گراف میں بہت اوپر دکھائی دے رہا ہے۔ ہمارا معاشرہ بھی معاشی رویوں کے اعتبار سے بہت سی تبدیلیوں سے گزر رہا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ کم محنت سے زیادہ کمائیں۔ یہ بری بات نہیں۔ دنیا بھر میں انتہائی باصلاحیت افراد مہارت کا اعلیٰ ترین معیار یقینی بناکر کم محنت سے بہت کچھ پاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی اگر یہ سوچ پنپ رہی ہے تو حیرت کی بات نہیں۔ مشکل یہ ہے کہ یہاں لوگ صلاحیتوں کو پروان چڑھانے اور مہارت کا اعلیٰ معیار یقینی بنانے پر متوجہ ہونے کے بجائے صرف اس نکتے پر توجہ مرکز کیے ہوئے ہیں کہ کم محنت سے زیادہ آمدن یقینی بنائی جائے۔ اس کے نتیجے میں جو خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں وہ پیدا ہو رہی ہیں۔
آج کا ہمارا معاشرہ بہت سے معاملات میں شدید خرابیوں سے دوچار ہے۔ معاشی معاملات الجھے ہوئے ہیں۔ لوگ کم وقت میں اور کم محنت سے زیادہ سے زیادہ آمدن چاہتے ہیں۔ خواہش اور کوشش یہ ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے بہت کچھ حاصل ہو جائے۔ یہ ذہنیت روز بروز توانا ہوتی جارہی ہے اور پھیل بھی رہی ہے۔ جب کوئی شخص یہ طے کرلے کہ کم وقت میں زیادہ کمانا ہے تو وہ غیر اخلاقی راستے بھی اختیار کرتا ہے۔ کرپشن کو اِسی سوچ کے ذریعے سے وسعت اور مقبولیت ملتی ہے۔ جب لوگوں کے لیے جائز آمدن سے گزارہ ممکن نہیں ہوتا تب وہ اضافی محنت کے ذریعے آمدن میں اضافہ یقینی بنانے کے بجائے اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور زیادہ حاصل کیا جائے۔ یعنی جائز و ناجائز کا فرق ذہن نشین رکھے بغیر۔ اس کی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں‘ مثلاً رکشہ ڈرائیور ایک مسافر سے کہیں جانے کے جتنے پیسے لیتا ہے کسی اور مسافر سے وہیں جانے کے زیادہ پیسے لیتا ہے۔ وہ صرف یہ دیکھتا ہے کہ مسافر کی ضرورت کتنی شدید ہے۔ اِسی طور پلمبر، الیکٹریشن، بڑھئی، مستری، موٹر سائیکل میکینک اور دوسرے بہت سے شعبوں سے وابستہ لوگ ایک ہی کام کے الگ الگ چارجز لینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ یعنی جیسا مرغا ویسی چھری۔ یہ ذہنیت انتہائی نقصان دہ ہے۔ اِس سے انسان کا پورا کردار داؤ پر لگ جاتا ہے۔ معاشی معاملات میں دیانت بھی دین کا تقاضا ہے۔ رزق کی تلاش میں نکلنے سے پہلے یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ ناجائز طریق سے کچھ نہیں کمایا جائے گا۔
نچلی سطح پر معاشی معاملات میں کرپشن اصلاً اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب انسان یہ طے کرتا ہے کہ اپنے مسائل کے حل کے لیے وسائل میں اضافہ ناجائز طریقوں سے بھی ممکن بنائے گا۔ ہر پس ماندہ معاشرے میں یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب پورے گھر کا بوجھ کسی ایک فرد کے کاندھوں پر ہو۔ کسی ایک فرد کو پورے گھر کے لیے کمانا ہو تو وہ اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر پاتا ہے نہ مہارت میں۔ شعبہ بدلنا بھی، بہت حد تک‘ اُس کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ ایسا اس لیے ہے کہ معاشی مصروفیات طے شدہ ڈگر سے ہٹ کر چلنے کی اجازت نہیں دیتیں۔ ایسے میں ناجائز ذرائع کا آپشن رہ جاتا ہے۔ جب کسی نہ کسی طور زیادہ کمانے کا معاملہ درپیش ہو تب انسان بہت سی اخلاقی حدود و قیود کو یکسر فراموش کردیتا ہے اور خاصا سفاک بھی ہو جاتا ہے۔ اپنے ماحول ہی کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ بہت سے لوگ کسی بھی کام کی ایک اجرت طے کرلیتے ہیں تو پھر اُسے کم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اور تو اور‘ وہ اس بات پر غور بھی نہیں کرتے کہ اگر کسی کی آمدن کم ہو اور وہ زیادہ یا مطلوب اجرت دینے سے قاصر ہو تو تھوڑی بہت رعایت کی جانی چاہیے تاکہ معاشی سرگرمی کے ذریعے اللہ کی خوشنودی کا بھی اہتمام ہو جائے۔ معاشی معاملات میں اللہ تعالیٰ کی مرضی کا خیال رکھنے والے اب خال خال ہی ہیں۔ مختلف پیشوں سے تعلق رکھنے والے افراد اگر کسی غریب کی مجبوری کا احساس کرتے ہوئے تھوڑی سی اجرت چھوڑ دیں تو اِس کی جزا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگی جو مل کر رہے گی۔ خیر‘ یہ ایک الگ بحث ہے۔
آج ہر شخص کسی نہ کسی طور زیادہ سے زیادہ کمانے کی فکر میں غلطاں ہے تو اِس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ اُس پر بوجھ زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں دیہی معاشرے میں خواتین بھی معاشی کردار ادا کرنے سے نہیں کتراتیں؛ تاہم شہری معاشرے میں خواتین معاشی جدوجہد کا حصہ بننے کی ذہنیت کو اپنانے کی طرف اب تک نہیں آ سکیں۔ شہری معاشرے میں نچلی سطح پر کرپشن کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ گھر کا پورا بوجھ ایک فرد کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ کیفیت معاملات کو محض خراب نہیں کر رہی بلکہ مزید بربادی کی طرف بھی لے جارہی ہے۔ جب کسی ایک فرد پر پورے گھر کو چلانے کا بوجھ ہو تو وہ شدید بدحواسی کے عالم میں کچھ بھی کرسکتا ہے اور کر رہا ہے۔ اپنے ماحول میں اور اُس سے باہر‘ اگر آپ لوگوں کے معمولات پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ لوگ معاشی معاملات کو بطریقِ احسن نمٹانے کے بجائے اس طور جیتے ہیں گویا کوئی بوجھ ہو جسے سر سے اتار پھینکنا لازم ہو۔ معاشی جدوجہد جب بوجھ محسوس ہونے لگے‘ تب جان چھڑانے کے لیے انسان کچھ بھی کر گزرنے سے دریغ نہیں کرتا۔
کیا وہ وقت ہمارے معاشرے میں نہیں آگیا جب گھر کی معاشی ذمہ داری نبھانے میں تمام افراد کو کسی نہ کسی حد تک کردار ادا کرنا چاہیے؟ کیا ایسا کرنے کی صورت میں ہم انوکھے کہلائیں گے؟ ایسا نہیں ہے! حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے کئی معاشروں میں بیویاں گھر کا خرچ چلانے میں خاوند کا ہاتھ بٹانے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ بھارت اور بنگلہ دیش اِس کی نمایاں مثال ہیں جہاں خواتینِ خانہ بھی چھوٹا موٹا کام کرتی رہتی ہیں تاکہ کچھ اضافی آمدن ہو اور گھر چلانے کا سارا بوجھ صرف خاوند کو برداشت نہ کرنا پڑے۔ غریب اور زیریں متوسط طبقے میں گھر کو ڈھنگ سے چلانے کے لیے ایسی ہی دانش درکار ہوا کرتی ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ کراچی سمیت پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں خواتین بھی گھریلو سطح پر کچھ نہ کچھ کرنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اس سے وقت بھی اچھا کٹتا تھا اور کچھ آمدن بھی ہو جایا کرتی تھی۔ کورونا کی وبا نے اُس دور کی یاد تازہ کردی کیونکہ کراچی میں بہت سی خواتین نے گھر میں کام کرنے کی ابتدا کی اور گھر چلانے کے لیے مطلوب مالیاتی وسائل کی فراہمی میں اپنا کردار ادا کرنے کی تھوڑی بہت کوشش کرنے کو ترجیح دی۔ یہ چند گھرانوں کا معاملہ ہے۔ مجموعی طور پر پورا معاشرہ اب تک پرانی ڈگر پر گامزن ہے یعنی ایک کما رہا ہے اور چار‘ پانچ یا آٹھ‘ دس کھارہے ہیں۔
شخصی ارتقا کے حوالے سے سوچنے اور لکھنے والوں کو گھر چلانے کے معاملے میں بھی لوگوں کی ذہن سازی پر توجہ دینا چاہیے۔ خواتینِ خانہ کو یہ باور کرایا جائے کہ اُن کا معاشی کردار گھر کے ماحول کو خوش گوار بنانے میں خاصا اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ گھر کے کفیل کا بھی حق ہے کہ اُسے سکون کے سانس لینے کا موقع ملے۔ اس وقت کیفیت یہ ہے کہ گھر کی کفالت کی ذمہ داری جس فرد پر عائد ہوتی ہے وہ وقت سے پہلے بوڑھا اور اَدھ مُوا ہو جاتا ہے۔ گھر چلانے میں معاونت کی ایک صورت یہ ہے کہ اگر خواتینِ خانہ کمانے کے پوزیشن میں نہ ہوں تو کم از کم کچھ ایسا کریں کہ اخراجات کا گراف نیچے لانے میں مدد ملے۔ باہر سے کرائے جانے والے چند ایک کام خود کرنے کی صورت میں بچت ممکن بنائی جاسکتی ہے جو آمدن میں اضافے ہی کی ایک شکل ہے۔ کرنے کو بہت کچھ ہوسکتا ہے‘ کوئی کوشش تو کرے۔