کہنے کو سو طرح کے انسان پائے جاتے ہیں۔ کوئی ہر وقت چیخنے چلانے پر یقین رکھتا ہے تو کوئی خاموشی کو ترجیح دیتا ہے۔ کسی کو لوگوں سے ملنا زیادہ پسند ہوتا ہے تو کسی کو تنہائی راس آتی ہے۔ کوئی گھر میں بیٹھنا بالکل پسند نہیں کرتا تو کوئی گھر سے نکلنے کے بارے میں خال خال ہی سوچتا ہے۔ انسانوں کے رویے بدلتے ضرور ہیں مگر ایک خاص ڈگر ہی پر چلتے رہتے ہیں۔ لوگ اپنے مزاج اور رویوں پر زیادہ غور نہیں کرتے اور اسی لیے مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کے معاملے میں بھی ناکام رہتے ہیں۔ تمام متعلقہ حقائق کو ذہن میں رکھتے ہوئے غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اِس دنیا میں صرف دو طرح کے انسان پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو علی الصباح اٹھنے پر یقین رکھتے ہیں اور اٹھتے بھی ہیں اور دوسرے وہ جو دن چڑھے تک سوئے رہتے ہیں۔ اِن دو اقسام ہی کی بنیاد پر فیصلہ ہوتا ہے کہ کون کیسا ہے‘ کیا کرسکتا ہے اور کیا کر رہا ہے۔ دنیا بھر میں وہی لوگ کامیاب رہتے ہیں جو رات کو جلد سوتے اور صبح جلد اٹھ جاتے ہیں۔ بھرپور نیند اُنہی اوقات میں ممکن ہے جو قدرت نے ہمارے لیے طے کردیے ہیں۔ اگر کوئی کسی جواز کے بغیر محض دوستوں کی محفل میں رات بھر جاگتا رہے اور فجر کے وقت سوئے تو شام چار بجے تک سوتے رہنے پر بھی نیند پوری نہیں ہوتی، جسم بکھرا بکھرا سا محسوس ہوتا ہے۔ نیند پوری کرنے کا یہ طریقہ چونکہ قدرت کے طے کردہ اصولوں سے انحراف پر مبنی ہے‘ اس لیے اِس کے نتیجے میں صرف خرابی پیدا ہوتی ہے۔
رات کی پُرسکون نیند انسان کے حواس کو بہتر حالت میں رکھتی ہے۔ وہ پورے ماحول سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے وقت گزارتا ہے اور یوں کارکردگی کا گراف بھی بلند ہوتا ہے۔ پُرسکون اور خلل سے پاک نیند ہی انسان کو حقیقی معنوں میں صحت مند رکھتی ہے۔ محض نیند کی کمی یا خرابی جسم میں بہت سی پیچیدگیاں پیدا کرتی ہے۔ نیند پوری نہ ہونے سے انسان مکمل حاضر دماغی کی حالت سے بھی بہت دور رہتا ہے۔ سَحر خیزی یعنی علی الصباح اٹھنا انسان کیا، معاشروں کے لیے بھی نعمت ہے۔ دنیا بھر میں وہی معاشرے بھرپور کامیابی سے ہم کنار پائے گئے ہیں جن میں لوگ سحر خیزی کے عادی ہوں اور اس معاملے میں اصولوں پر سمجھوتا نہ کرتے ہوں۔ سحر خیزی ہر اعتبار سے ایک بڑی اور فیصلہ کن نعمت ہے۔ فجر کے وقت بیدار ہونا، اللہ کو یاد کرنا اور پھر یومیہ معمولات میں مشغول ہو جانا محض ایک عادت نہیں‘ بلکہ نعمت ہے۔ جو لوگ سحر خیزی کے عادی ہیں وہ دن بھر توانا رہتے ہیں۔ صبح کے اوقات میں آلودگی سے پاک ٹھنڈی ہوا ہمارے پھیپھڑوں میں تازگی بھر دیتی ہے۔ صبح جلد بیدار ہوکر تھوڑی ورزش یا محض چہل قدمی کرنے والوں کو دوسروں سے زیادہ ہشاش بشاش پایا گیا ہے۔ وہ دن بھر اپنے معاشی اور معاشرتی معمولات میں بھرپور دلچسپی لیتے ہیں اور اُن کی کارکردگی بہتر رہتی ہے۔
سحر خیزی ایسا وصف ہے جو انسان کو فطرت سے جوڑتا ہے۔ اس کی بدولت انسان بھرپور حاضر دماغی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے قابل ہوپاتا ہے۔ سحر خیزی کے عادی افراد کو آپ شاید ہی بیزار پائیں۔ صبح کے اوقات میں معاشی سرگرمیاں شروع کرنے سے انسان سستی سے بھی دور رہتا ہے۔ کاہلی سے دور رہنا بھی کامیابی کی شاہ کلید ہے۔ اگر نیند پوری نہ ہوئی ہو تو جسم اینٹھا سا رہتا ہے۔ ایسے میں ذہن بھی ڈھنگ سے کام نہیں کر پاتا اور دن بھر بے سبب سی تھکن محسوس ہوتی رہتی ہے۔ جو لوگ کسی ضرورت یا جواز کے بغیر رات دیر گئے تک جاگتے ہیں وہ صبح سویرے بیدار نہیں ہو پاتے۔ دن چڑھے تک سوئے رہنے سے اُن کی نیند بھی پوری نہیں ہوتی اور سستی بھی برقرار رہتی ہے۔ یہ آلکسی سارے کام بگاڑ دیتی ہے۔ جب دنیا جاگ چکی ہو اور کام بھی کر رہی ہو تب آپ کا محوِ خواب رہنا عجیب ہی کہلائے گا۔ سب کے ساتھ ہم آہنگ رہتے ہوئے زندگی بسر کرنا ہی آپ کو بھرپور کامیابی کی طرف لے جاسکتا ہے۔ دن چڑھے تک بستر نہ چھوڑنے والے کامیابی کی ٹرین مِس کردیتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں کامیابی سے ہم کنار اور ناکامی سے دوچار ہونے والوں کا موازنہ کرنا ہو تو یہ دیکھیے کہ سحر خیزی کس حد تک ہے۔ بہت سے معاشروں میں رات دیر گئے تک جاگنے کا کلچر پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی چند ایک بڑے شہر ایسے ہیں جن میں لوگ خواہ مخواہ رات کے پچھلے پہر تک جاگتے رہتے ہیں۔ یہ کلچر زندگی کو عدم توازن سے دوچار کرچکا ہے مگر لوگ باز نہیں آ رہے۔
کراچی میں بہت سے لوگ بہت سے چیزوں کے نشے کی حد تک عادی ہیں۔ نئی نسل کو وقت ضائع کرنے کا بھی نشہ ہے۔ اس کا آسان ترین طریقہ ہے رات رات بھر جاگتے رہنا۔ مل بیٹھنے کے نام پر اپنے ہی وقت، نیند اور صحت کو ٹھکانے لگانا کہاں کی دانش مندی ہے؟ کوئی کتنا ہی سمجھائے،نوجوان وقت، توانائی، صحت اور نیند‘ سبھی کچھ قربان کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ یہ کلچر اس حد تک پروان چڑھ چکا ہے کہ بہت سے لڑکے دوسروں کی دیکھا دیکھی گھر سے غائب رہتے اور ہوٹلوں پر پائے جاتے ہیں۔ دوستوں کے گروپ چائے کے ہوٹلوں پر بیٹھے ہوئے یا پھر موٹر سائیکلوں پر دندناتے ہوئے ملتے ہیں۔ دونوں ہی صورتوں میں وقت، توانائی اور صحت‘ تینوں کا ضیاع ہو رہا ہے۔ یہ بات تو والدین کے سوچنے کی ہے کہ اُن کے بچے رات کو جلدی کیوں نہیں ہوتے اور سحر خیزی کے عادی کیوں نہیں ہوتے۔ خود والدین کو رات جلدی سونے کی عادت پروان چڑھانی چاہیے تاکہ علی الصباح اٹھ کر فطرت کے اصولوں کے مطابق دن شروع کیا جاسکے۔ جب والدین ہی میں سحر خیزی کا قوی رجحان نہ پایا جاتا ہو تو پھر اولاد سے کیا توقع وابستہ کی جائے؟ کم و بیش ہر انسان جانتا ہے کہ بھرپور نیند کے بعد علی الصباح بیدار ہونے ہی میں ساری خیر و برکت پنہاں ہے مگر پھر بھی لوگ اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ برسوں کے عمل میں جو عادات پروان چڑھی ہوں وہ آسانی سے کہاں جان چھوڑتی ہیں؟ آج شہروں کا یہ حال ہے کہ لوگ نیند کا فطری کوٹہ پورا نہیں کرتے اور اِس کے نتیجے میں صحت کی خرابی سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے اصلاحِ احوال پر ذرا بھی توجہ نہیں دی جا رہی۔
سحر خیزی عمومی صحت کا معیار ہی بلند نہیں کرتی بلکہ افرادی قوت کا معیار بھی بلند کرتی ہے۔ سحر خیزی انسان کو بھرپور لگن کے ساتھ کام کرنے کی لگن اور توانائی عطا کرتی ہے۔ صبح کی غیر آلودہ فضا میں سانس لینے والے اپنے پورے وجود میں تازگی محسوس کرتے ہوئے کام کرنے پر مائل ہوتے ہیں۔ جو لوگ دن چڑھے تک سوتے رہتے ہیں وہ جب بیدار ہوتے ہیں تب پورا دن ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے اور دنیا اپنا کام کرچکی ہوتی ہے۔ بعض شعبے تو ہیں ہی ایسے کہ اگر صبح کے تر و تازہ اوقات میں کام شروع نہ کیا جائے تو پورا دن خراب گزرتا ہے، پیداوار اور معیار‘ دونوں متاثر ہوتے ہیں۔ رات دیر سے سونے والے بالعموم دن کے اوقات میں نیند پوری نہیں کر پاتے اور جب وہ کام پر جاتے ہیں تو دل جمعی سے کچھ نہیں کر پاتے اور اگر جیسے تیسے وقت دے بھی دیں تو کام کا معیار بلند نہیں ہو پاتا۔ یہ سب کچھ پورے معاشرے کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔ کسی بھی معاشرے کو اَپ گریڈ کرنے کے لیے افرادی قوت کا معیاری ہونا ناگزیر ہے۔ افرادی قوت (یعنی کام کرنے والے افراد) ہنر مند ہوں تو کیا کہنے اور اگر اُن میں کام کرنے کی لگن توانا ہوں تو اِسے سونے پر سہاگا کہیے۔ مگر جناب! کوئی ہنر مند بھی ہو اور کام کرنے کی لگن بھی توانا ہو تو کرے گا کیا اگر صحت کے معاملے میں گڑبڑ پائی جاتی ہو تو؟ کھانے پینے اور نیند کے معاملات میں لاپروائی برتنے والے تعلیم و ہنر یافتہ ہونے پر بھی کچھ زیادہ اور متاثر کن کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔ سوشل میڈیا کی لَت نے نئی نسل کے ساتھ ساتھ پرانی نسل کو بھی بہت حد تک بگاڑ دیا ہے۔ رات گئے تک سمارٹ فون پر کچھ نہ کچھ دیکھتے اور سُنتے رہنے کی عادت لوگوں کو نیند کا معاملہ بالائے طاق رکھنے پر اُکساتی رہتی ہے۔