اقوامِ عالم کے عروج و زوال کی کہانی عجیب ہے۔ قدرت کا نظام ہر وقت کام کرتا رہتا ہے۔ کسے عروج ملنا چاہیے اور کون زوال کا حق دار ہے‘ یہ طے کرنا قدرت کا کام ہے۔ انسان کو تو صرف کوشش کے مرحلے سے گزرنا ہے۔ کسی بھی کوشش کی جزا کا معاملہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی کو یہ طے کرنا ہے کہ کس کی کتنی محنت کا کتنا صلہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات چونکہ عادل ہے‘ اِس لیے ہمیں اس بات کا یقینِ کامل ہونا چاہیے کہ جب اللہ کی طرف سے صلہ عطا کیا جائے گا تو پورا ہی ہوگا۔ بہر کیف! کسی بھی قوم کے عروج اور زوال کے لمحات بہت عجیب ہوتے ہیں۔ بہت کچھ دکھائی تو دے رہا ہوتا ہے‘ سمجھ ہی میں نہیں آتا۔ کبھی کبھی تو یہ بھی ہوتا ہے کہ سب کچھ سمجھ میں آرہا ہوتا ہے مگر معقول منصوبہ سازی کی توفیق عطا نہیں ہوتی۔ جب کسی بھی قوم پر مشکل لمحات آتے ہیں تب بہت کچھ ویسا نہیں رہتا جیسا دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ حواس قابو میں نہیں رہتے اور لوگ بہت کچھ جانتے بوجھتے بھی خود کو مشکل میں ڈالتے ہیں، پریشانی کا گراف بلند کرتے جاتے ہیں۔ انسان کا معاملہ عجیب ہے۔ جس وقت اُسے ذہن سے کام لینا ہوتا ہے تبھی وہ ذہن کو ایک طرف رکھ دیتا ہے اور شدید بدحواسی کی آغوش میں جا بیٹھتا ہے۔ مشکل لمحات اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ ہم کچھ کرنے کے قابل ہیں بھی یا نہیں۔ مشکلات کا سامنا کرنے کی صورت ہی میں انسان پر اپنے جوہر کھلتے ہیں۔ کسی بھی قوم یا معاشرے میں کس قدر استحکام پایا جاتا ہے‘ اِس کا حقیقی جائزہ لینے کے لیے کم از کم پانچ شعبوں پر متوجہ ہونا چاہیے۔ سیاست، معیشت، تعلیم، فنونِ لطیفہ اور علم و ہنر۔ ان شعبوں کی مجموعی کیفیت پورے معاشرے کی اصلیت بیان کرتی ہے۔ ان پانچ شعبوں کا استحکام ہی ملک و قوم کو حقیقی استحکام عطا کرتا ہے۔
آئیے، ذرا اس بات کا جائزہ لیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ پاکستان میں سیاست کہاں کھڑی ہے‘ یہ ہم سبھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاست کہیں بھی کھڑی نہیں بلکہ لیٹ چکی ہے۔ سیاسی ماحول نے ریاست کے انتظامی امور کو بھی کچھ کا کچھ کردیا ہے۔ اس کے نتیجے میں پورا ماحول ہی بے دم سا ہوگیا ہے۔ اس حقیقت سے اب کوئی بھی شخص انکار نہیں کرسکتا کہ ہماری سیاست محض تمسخر کی شے بن کر رہ گئی ہے۔ سیاست کا مطلب ہے ملک کو چلانے کا ہنر۔ اس ہنر سے وابستہ افراد کی ذہنی سطح کیا ہے‘ یہ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں۔ سیاست کو الزام و دشنام میں بدلنے والوں کا بول بالا ہے۔ سیاست کے نام پر ملک و قوم کا سبھی کچھ برباد کرنے کی روش پر گامزن افراد کو ہم نے اپنی راہ نمائی کا فریضہ سونپ رکھا ہے۔ بقول میرؔ ہم جس کے سبب بیمار ہوتے ہیں‘ اسی عطار کے لڑکے سے بار بار دوا لیتے ہیں!
آج ہمارا معاشرہ کم و بیش تمام شعبوں میں پس ماندگی کی انتہا کو چھو رہا ہے۔ بعض معاملات میں تو معاملات پاتال سے جا لگے ہیں۔ سیاست کا حال ہم نے دیکھ لیا ہے۔ سیاسی خرابیوں ہی نے معیشت کو بھی تلپٹ کر رکھا ہے۔ معاشی معاملات کسی بھی انسان اور قوم کی زندگی کا انتہائی بنیادی جُز ہوتے ہیں۔ معاشی معاملات کی درستی ہی کسی بھی فرد اور قوم کو حقیقی سُکون، خوش حالی اور استحکام عطا کرتی ہے۔ ہم نے دوسرے بہت سے معاملات کی طرح معاشی امور کو بھی انتہائی خرابیوں کی نذر کر رکھا ہے۔ معاشی معاملات میں پایا جانے والا عدم توازن زندگی کے ہر پہلو کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ ہمارے ہاں ہر سطح کی انتظامی مشینری معاشی معاملات کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہر شعبے میں مافیا راج قائم ہوچکا ہے۔ کرپشن نے معاشرے یا قوم کا برا چاہنے والوں کو ایک پلیٹ فارم پر لا کھڑا کیا ہے۔
سیاست اور معیشت کا حال برا ہو تو ایک شعبہ معاملات کو درست کرتا ہے۔ تعلیم کے شعبے کی ذمہ داری ہے کہ معاشرے کی اصلاح کرے، لوگوں کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بننے میں مدد دے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ قدرت نے جس شعبے کو معاشرے کی اصلاح پر مامور کیا ہے‘ وہ بھی مال بنانے میں لگا ہوا ہے۔ آج کے ہمارے معاشرے میں تعلیم و تعلم خدمت سے زیادہ کاروبار کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ معاشرے کی اصلاح کا کام ایک طرف رہ گیا ہے۔ اہلِ علم پر فرض ہے کہ نئی نسل کو آنے والے دور کے لیے تیار کریں۔ یہ قومی خدمت ہے مگر اہلِ علم کا یہ حال ہے کہ اُنہیں اپنے مستقبل کی فکر لاحق رہتی ہے۔ علم کا حصول معاشرے کے لیے ہوتا ہے اور علم کی تقسیم و ترسیل بھی اِسی مقصد کے تحت ہونی چاہیے۔ جب معاشرہ خالص مادّہ پرست ذہنیت کا حامل ہوچکا ہو تب تعلیم و تربیت کے شعبے سے وابستہ شخصیات آگے بڑھ کر اخلاقی و روحانی بلندی کا درس دیتی ہیں، لوگوں کو بتاتی ہیں کہ محض مادّی سکھ سب کچھ نہیں۔ ہر انسان کو معاشرے کے لیے بھی بہت کچھ کرنا ہوتا ہے۔ معاشرے پستی کی زد میں ہوں تو عام آدمی کو سب کا بھلا سوچنے کی طرف مائل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔
کسی بھی معاشرے کو حقیقی اخلاقی و رُوحانی بلندی کی طرف لے جانے میں ذوقِ جمال کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ فنونِ لطیفہ کی طرف جھکاؤ ہی طے کرتا ہے کہ معاشرہ آگے بڑھے گا یا پیچھے ہٹے گا۔ ترقی یافتہ معاشروں کا جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں عام آدمی میں بھی کسی نہ کسی حد تک ذوقِ لطیف پایا جاتا ہے۔ ذوقِ لطیف یعنی فنونِ لطیفہ کو پسند کرنے‘ پروان چڑھانے کا جذبہ و شوق۔ شعر و ادب، مصوری، مجسمہ سازی، فنِ تعمیر، اداکاری، موسیقی اور دیگر فنونِ لطیفہ میں معاشرے کی عمومی دلچسپی ہی طے کرتی ہے کہ معاشرہ کس طرف جارہا ہے اور کیا کرسکے گا۔ ہمارے ہاں عام آدمی کو فنونِ لطیفہ سے اب بظاہر کچھ بھی غرض نہیں۔ شعر و ادب محض چند افراد کے شوق کا معاملہ نہیں ہونا چاہیے۔ عام آدمی کو بھی اپنی ذہنی سطح بلند کرنے کی خاطر شعر و ادب سے شغف رکھنا چاہیے۔ عام آدمی کے ذوق کی بلندی معاشرے میں بہتری لاتی ہے۔
آج کے ہمارے معاشرے میں لوگ دن رات صرف کمانے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔ ہر شخص زیادہ سے زیادہ کمانے کی دُھن میں باقی سب کچھ فراموش کر چکا ہے۔ لوگ کوئی معیاری فلم بھی دیکھتے ہیں تو محض طائرانہ انداز سے۔ اُس سے بھرپور لطف نہیں پاتے۔ فراغت کے لمحات میں فضول گفتگو کو مزاج کا حصہ بنالیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں موسیقی کا ورثہ بھی کم نہیں مگر لوگ پرانے گیتوں کے ذریعے اپنے ذوق کی اصلاح نہیں کرتے، معیاری ادب پڑھ کر اپنی ذہنی سطح بلند نہیں کرتے۔ اب لوگ کوئی بھی علم و ہنر سیکھتے ہیں تو اُسے اپنے اعلیٰ ذوق کے اظہار کا ذریعہ بنانے کے بجائے محض مال بٹورنے کا ذریعے بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ہم بھول گئے ہیں کہ ہر کام محض مالی منفعت کے لیے نہیں کیا جاتا۔
جب کسی معاشرے میں ہر طرف صرف زوال دکھائی دے رہا ہو تب اہلِ علم و فن ہی کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے دانش سے نوازا ہے اُنہیں پورے معاشرے کی اصلاح کے حوالے سے سنجیدہ ہونا ہے‘ کچھ کرنا ہے۔ اساتذہ، شعرا، مصنفین، اداکار، گلوکار، مصور اور فنونِ لطیفہ سے وابستہ دیگر افراد اگر سنجیدہ ہوں اور معاشرے کے لیے کچھ کرنا چاہیں تو بہتری آسکتی ہے۔ ہر معاملے میں صرف مالی منفعت پر نظر رکھنے والوں سے معاشرے کی خدمت نہیں ہوسکتی۔ جنہیں نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور تہذیب و تطہیر کا فریضہ سونپا گیا ہے وہ اپنی جیب اور تجوری بھرنے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں کسی بھی بہتری کے امکان کے بارے میں کیا سوچا جاسکتا ہے؟ کسی بھی معاشرے کو پس ماندگی سے نکالنے میں حقیقی عملی کردار نئی نسل ادا کرتی ہے۔ نئی نسل کو اس کردار کے لیے تیار کرنا اہلِ علم و فن کا کام ہے۔ تعلیم و تربیت کے شعبے سے وابستہ افراد کے علاوہ فنونِ لطیفہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو بھی اپنا کردار پوری دیانت سے ادا کرنا ہے۔ نئی نسل کو اہلِ علم و فن ہی بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے حقیقی مہمیز دے سکتے ہیں۔