کسی بھی معاشرے میں تمام شعبے کلیدی حیثیت کے حامل نہیں ہوتے۔ بعض شعبوں کی اہمیت ہمیں کچھ زیادہ محسوس ہو رہی ہوتی ہے مگر در حقیقت وہ عمومی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ وقتی طور پر کسی بھی شعبے کا اہم محسوس ہونا اور بات ہے اور فی الواقع اہم ہونا اور بات۔ یہ حقیقت جس نے سمجھ لی‘ وہ کامیابی کی راہ پر گامزن ہوا۔ آج کا ہمارا معاشرہ کم و بیش تمام شعبوں میں غیر معمولی کرپشن کا حامل ہے۔ کرپشن کی گرم بازاری ختم ہونے کا نام تو کیا لے گی، یہ تو بڑھتی ہی جارہی ہے۔ ہر گزرتا دن معاشرے کو مزید کرپشن کی طرف دھکیل رہا ہے۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جنہیں اس ملک پر تصرف بخشا گیا ہے وہ اپنے حصے کا کام کرنے کے بجائے معاملات کو صرف خرابی کی طرف لے جانے کی ذہنیت کے حامل ہیں۔ جہاں تھوڑا بہت بہتر کیا جاسکتا ہے‘ وہاں بھی کچھ نہیں کیا جارہا۔ ہر معاملے میں صرف مالی منفعت کو حتمی مقصود تصور کرلیا گیا ہے۔ ہر شخص کو زیادہ سے زیادہ مال بنانے کی فکر لاحق ہے۔ اس عمل میں اگر اخلاقی و تہذیبی اقدار بھی داؤ پر لگتی ہیں تو لگ جائیں۔ اخلاقی و تہذیبی اقدار کی پروا اب بظاہر کسی کو بھی نہیں۔ لوگ صرف دنیا کمانے کی فکر میں غلطاں ہیں۔
معاشرہ رفتہ رفتہ اُس منزل کی طرف رواں ہے جہاں سبھی کچھ ختم ہو جانا ہے۔ افریقہ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ صدیوں سے یہ خطہ شدید پسماندگی کا شکار ہے۔ غیر معمولی قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے پر بھی یہ پورا خطہ اب تک ابھرنے کی پوزیشن میں نہیں آسکا۔ امریکا اور یورپ نے صدیوں سے اِسے دبوچ رکھا ہے۔ اب چین نے کچھ سرمایہ کاری کی ہے جس کا بنیادی مقصد خطے کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا ہے۔ یہ کوئی بُری بات نہیں کیونکہ امریکا اور یورپ نے بھی صدیوں تک یہی کیا ہے۔ مغرب کی جانب سے چین کی سرمایہ کاری کو افریقہ کے لیے زہر قرار دیا جارہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ امریکا اور یورپ نے مل کر اس خطے کو صدیوں تک غلام بنائے رکھا تو وہ غلامی کیا امرت دھارا تھی! اب منظم سازش کے تحت پاکستان کو بھی افریقہ جیسے حالات کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ ایشیا میں حقیقی خرابی کی تازہ ترین مثال سری لنکا ہے۔ سری لنکن معیشت بیٹھ چکی ہے۔ چین نے وہاں بنیادی ڈھانچے میں غیر معمولی سرمایہ کاری کی مگر پھر بھی سری لنکن قیادت معاشی بحران کو ٹال نہیں سکی۔ سری لنکا میں جو کچھ ہوا‘وہ معاشی سے زیادہ سیاسی خرابیوں کا نتیجہ ہے۔ دو‘ تین خاندانوں نے سیاست کو ذاتی جاگیر بنا رکھا تھا۔ تھوڑی سے توجہ دینے پر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سری لنکا کو بھی سازش کے تحت انتہائی خرابیوں کی طرف دھکیلا گیا ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ نیپال کا بھی ہے۔
کیا اب پاکستان کی باری ہے؟ پاکستان کے حالات بہت مختلف ہیں۔ نیپال اور سری لنکا کے مقابلے میں پاکستان زیادہ بڑا ملک ہے اور اِس کے وسائل زیادہ اور افرادی قوت بھی باصلاحیت اور مستعد ہے۔ اگرچہ رسیاست کو ناکامی سے دوچار کرنے والے عوامل اپنا کام کر رہے ہیں مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سری لنکا اور نیپال جیسے حالات سے پاکستان کو بہ آسانی دوچار نہیں کیا جا سکتا۔ سوال خوش فہمی کا نہیں‘ حقیقت پسندی کا ہے۔ پاکستان میں نئی نسل آبادی کا غالب حصہ ہے۔ یہ نسل ملک میں بھی بہت کچھ کر رہی ہے اور بیرونِ ملک بھی اپنی صلاحیت و سکت کا لوہا منوا رہی ہے۔ معاشرے میں کرپشن بہت پھیل چکی ہے مگر پھر بھی ایسا نہیں کہ مکمل طور پر ناامید ہوکر ایک طرف بیٹھ رہا جائے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمانِ کامل کا تقاضا ہے کہ اُس کی رحمت سے مایوس نہ ہوا جائے، ہمت نہ ہاری جائے اور اپنی سی کوششیں جاری رکھی جائیں۔ ہماری کسی بھی کوشش کا نتیجہ اللہ تعالیٰ کی رحمت پر منحصر ہے۔ ہمارا کام ہے اپنے حصے کا کام کرنا۔
کرپشن اگرچہ معاشرے کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے مگر پھر بھی بہت کچھ باقی ہے۔ اس معاشرے سے علم اٹھالیا گیا ہے نہ ہی فن۔ اہلِ علم و فن آج بھی ہیں اور متحرک ہیں۔ ہاں! مسئلہ یہ ہے کہ بیشتر افراد اپنے حصے کا کام کرنے سے زیادہ مال بنانے کی فکر میں غلطاں ہیں۔ سب سے بڑی کرپشن یہ ہے کہ جنہیں معاشرے کو درست کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہو وہ کرپٹ ہو جائیں، نا اہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود بھی خراب ہوں اور دوسروں کو بھی خراب کریں۔ کسی بھی معاشرے کو پس ماندگی سے نکالنے میں کلیدی کردار تعلیم کے شعبے کا ہوتا ہے اور اس شعبے میں مرکزی مقام پر اُستاد یا معلم کھڑا ہوتا ہے۔ جو پڑھاتا اور سکھاتا ہے وہ دراصل نئی نسل کو مستقبل کے لیے تیار کرتا ہے۔ نئی نسل کو مستقبل کے لیے تیار کرنے کا مطلب معاشرے کی حقیقی خدمت ہے کیونکہ نئی نسل ہی کو ملک سنبھالنا اور چلانا ہوتا ہے۔ بچوں کو زندگی کی بنیادی حقیقتوں کے بارے میں ڈھنگ سے بتانے کا فریضہ اُستاد کا ہے۔ اُستاد ہی صلاحیتوں کا جائزہ لے کر بچوں کے لیے شعبوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ والدین اگر اساتذہ سے رابطے میں رہیں تو اساتذہ انہیں بتاتے رہتے ہیں کہ اُن کا بچہ کیا کرسکتا ہے، کیا بن سکتا ہے۔ اُستاد ہی جان سکتا ہے کہ کس بچے میںکیا بننے اور کیا کرنے کی صلاحیت یا رجحان ہے۔ کبھی کبھی رجحان ہی کی مدد سے صلاحیت کا اندازہ لگایا جاتا ہے اور والدین کو بتایا جاتا ہے کہ وہ بچے کو کس شعبے کی طرف رواں کریں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ شعبہ بھی مالی منفعت کا مؤثر ذریعہ بنالیا گیا ہے۔ اساتذہ کا بنیادی کام نئی نسل کو آنے والے دور کے لیے بہتر انداز سے تیار کرنا ہے مگر اکثر و بیشتر صرف اپنی جیب بھرنے پر توجہ دی جا رہی ہے، الا ماشاء اللہ! بچوں کو تعلیم و تربیت کے نام پر صرف پروفیشنل اِزم سکھایا جارہا ہے۔ معلم کا بنیادی کام اخلاق و اطوار کی تہذیب و تطہیر ہے۔ نئی نسل کو محض کمانے والی مشین نہیں بننا‘ زندگی بسر کرنا ہوتی ہے۔ زندگی صرف مال و دولت کے بل پر بسر نہیں کی جا سکتی۔ نئی نسل کو اور بھی بہت کچھ سکھانا لازم ہے۔ اُسے بتایا جانا چاہیے کہ عملی زندگی میں بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہر چیلنج سے بطریقِ احسن نمٹنا ہی ہمارے حق میں جائے گا۔ کسی بھی چیلنج کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جس طور کوئی بھی زخم نظر انداز کیے جانے پر ناسُور بن سکتا ہے‘ بالکل اِسی طور کوئی بھی اہم چیلنج نظر انداز کیے جانے پر بہت بڑے بحران کی شکل اختیار کرسکتا ہے۔ اور ایسا ہوتا ہی ہے۔ سب سے بڑی کرپشن یہ ہے کہ معاشرے کی تہذیب و تطہیر پر مامور افراد اپنے حصے کا کام بھول کر صرف مالی منفعت کے گڑھے میں جا گریں۔ اہل علم و فن کو معاشرے کی اصلاح کا فریضہ انجام دے کر قومی خدمت انجام دینا ہوتی ہے۔ اُن کے لیے یہی کردار رکھا گیا ہے۔ اگر صرف مالی منفعت ہی سب کچھ ہے تو پھر علم و فن کا شعبہ چھوڑ کر کوئی اور کام کر لیا جائے۔ معیاری ادارہ وہ ہے جو نئی نسل کو صرف کمانے کے لیے تیار نہ کرے بلکہ اچھی زندگی کے لیے بھی تیار کرے تاکہ وہ معاشرے کے لیے زیادہ مفید ثابت ہو۔
اہلِ علم و فن میں اساتذہ بھی ہیں اور شعرا و مصنفین بھی۔ تجزیہ کاروں کو بھی ہم اہلِ علم و فن میں شمار کرسکتے ہیں بشرطیکہ وہ معاشرے کی اصلاح کے لیے لب کشائی کریں۔ خالص غیر جانبداری سے رائے دینے والا اور معاشرے کو راہ دکھانے والا ہر اہلِ علم و فن اس معاشرے کا اثاثہ ہے۔ اُسے اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ تعلیم کے شعبے کو نئی نسل کی حقیقی راہ نمائی کا فریضہ انجام دینا ہے۔ اُس کا یہی کام ہے۔ علم و فن کے شعبے کی لاتعلقی پورے معاشرے کو متاثر کرتی ہے۔ آج کے ہمارے معاشرے کو اہلِ علم و فن کا بھرپور کردار درکار ہے۔ ایسا کردار جو خالص دیانت اور اخلاص پر مبنی ہو۔ صرف مالی منفعت کو حتمی مقصود قرار دے کر مطمئن بیٹھ رہنا اہلِ علم و فن کے شایانِ شان نہیں۔