کیا اس بات میں اب کوئی شک رہ گیا ہے دنیا میں کسی بھی بڑی انقلابی تبدیلی کی راہ اگر ہموار ہوگی تو انٹرنیٹ کی مدد سے ہوگی؟ کم و بیش دو عشروں کے دوران دنیا بھر میں انٹرنیٹ نے زندگی کے ہر شعبے کو اُلٹ پلٹ کر رکھ دیا ہے۔ کوئی کیسا ہی غیر حقیقت پسند ہو، انٹرنیٹ کے وسیع اور گہرے اثرات سے انکار نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی ایسا کرے گا تو سمجھا جائے گا کہ اُس کے ذہن میں کوئی خلل پایا جاتا ہے۔ مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس سمیت چند اعلیٰ شخصیات نے انٹرنیٹ کی بندش کا شوشہ چھوڑ کر سنسنی پھیلانے کی کوشش کی مگر سبھی جانتے ہیں کہ اب یہ ممکن نہیں۔ انٹرنیٹ اُس گھوڑے کے مانند ہے جس کی لگام اُس کے سوار کے ہاتھ میں ضرور ہے مگر رفتار پر تصرف برائے نام بھی نہیں!
انٹرنیٹ کی دنیا میں اگر حقیقی انقلاب کسی نے برپا کیا تو وہ گوگل ہے۔ گوگل نے کئی انقلابی اقدامات کے ذریعے دنیا کو کچھ سے کچھ کر دیا ہے۔ اب گوگل نے وہ قدم اٹھایا ہے جو پوری دنیا میں کارپوریٹ کلچر کی ہیئت ہی تبدیل کردے گا۔ گوگل نے اپنے ہاں ملازمت تلاش کرنے والوں کے لیے ڈگری کا خانہ اُڑا دیا ہے۔ اب گوگل کے کسی بھی شعبے میں ملازمت پانے کے لیے ڈگری کی کوئی وقعت نہیں۔ جس میں قابلیت ہے وہ آگے بڑھ کر اپنے حصے کی ملازمت پاسکتا ہے۔ گوگل کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ کسی بھی شخص کو ملازمت اس لیے دی جاتی ہے کہ اُس سے کوئی کام لیا جائے۔ اگر کسی کے پاس اعلیٰ ترین جامعہ کی ڈگری ہو مگر کام نہ آتا ہو تو اُسے کیوں کام پر رکھا جائے؟ قابلیت، کام کرنے کی لگن اور مہارت ہی سے اب یہ طے ہوگا کہ کوئی گوگل میں کام کرنے کی اہلیت رکھتا ہے یا نہیں۔ ڈگری کو اہمیت نہ دینا گوگل کی اپنی پالیسی ہے مگر اس سے کاروباری دنیا میں انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر میں ایک زمانے سے اس نکتے پر زور دیا جارہا ہے کہ کسی کو بھی بھرتی کرتے وقت اُس کی ڈگری کو اولیت نہ دی جائے بلکہ یہ دیکھا جائے کہ وہ متعلقہ کام کر سکتا ہے یا نہیں۔ گوگل نے جو قدم اٹھایا ہے اُسے ہر اعتبار سے تاریخی قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ دنیا بھر میں لاکھوں ادارے ہر سطح کی تعلیم و مہارت کو خالص کاروباری انداز سے برت کر اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔
معیاری تعلیمی ادارے اگر کسی کو بہتر زندگی کے لیے تیار کر رہے ہیں تو اِسی قومی خدمت گردانا جانا چاہیے مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بیشتر ادارے محض مال بٹورنے میں مصروف ہیں۔ گوگل نے جو پالیسی اپنائی ہے وہ ہمیں انوکھی دکھائی دے رہی ہے۔ غور کیجیے تو اِس میں انوکھا کچھ بھی نہیں۔ حقیقت پسندی تو یہی ہے کہ کسی بھی انسان کو اُس کی صلاحیت کی بنیاد پر ہی ملازمت ملنی چاہیے۔ جو لوگ کسی بھی وجہ سے لکھ‘ پڑھ نہیں پاتے مگر غیر معمولی صلاحیت کے حامل ہیں اُن کا کیا؟ ہر معاشرے میں ایسے لاکھوں نوجوان محض اس لیے ملازمت حاصل نہیں کر پاتے کہ اُن کے پاس تعلیمی اسناد نہیں ہوتیں۔ یہ سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔ دنیا بھر میں اس حوالے سے سوچا جارہا ہے۔ ہارورڈ اور آکسفورڈ جیسے تعلیمی اداروں میں بھی اس نکتے پر بحث ہوچکی ہے کہ اسناد کا اجرا روک دیا جائے۔ ماہرین کا استدلال یہ ہے کہ کسی بھی نوجوان کو تربیت کے مختلف مراحل سے گزارنے کے بعد اِس قدر ماہر بنایا جانا چاہیے کہ وہ کسی بھی مرحلے پر ٹھوکر نہ کھائے اور جو کچھ بھی کرنے کو کہا جائے‘ کر دکھائے۔
ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جس میں تعلیم کے نام پر نئی نسل کو مختلف مفروضوں، خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کے جال میں پھانسا جاتا ہے۔ والدین چاہتے ہیں کہ اُن کے بچے تابناک مستقبل کے لیے تیار ہوں۔ اُن کے خیال میں یہ تیاری صرف روایتی اداروں میں ممکن ہے۔ کچھ شک نہیں کہ تعلیمی ادارے بچوں کی تعلیم و تربیت میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں؛ تاہم حتمی تجزیے میں تو بچوں کو خود ہی کچھ کرنا ہوتا ہے۔ نئی نسل کو بہت کچھ خود سمجھنا اور طے کرنا ہے۔ فی زمانہ نئی نسل بہت الجھی ہوئی ہے۔ یہ الجھن اس لیے ہے کہ والدین کی لاپروائی اور ماحول کی سرد مہری کے ہاتھوں نئی نسل بہت سی لتوں کا شکار ہوچکی ہے۔ انٹرنیٹ بھی ایک ایسی ہی علّت ہے۔ نئی نسل اس سمندر میں غرق ہوچکی ہے۔ سوشل میڈیا نے ذہنوں کو اپنے شکنجے میں کس لیا ہے۔ ایسے میں کون سی تعلیم اور کیسا مستقبل؟ آج کے بیشتر نوجوان اپنی عمر کا بنیادی مقصد (تعلیم و تربیت) بھول کر صرف اور صرف تفنّنِ طبع کے دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ سب کی کوشش ہے کہ ہر وقت زیادہ سے زیادہ محظوظ ہوں۔ فراغت کے لمحات اب پوری زندگی کا احاطہ کر رہے ہیں۔
پاکستان جیسے معاشروں میں تعلیم و تربیت کا معاملہ بھی بہت زیادہ رُلا ہوا ہے۔ حکومت بھی توجہ نہیں دیتی اور نجی شعبہ بھی اپنے حصے کا کام کرنے کے لیے تیار نہیں۔ عام آدمی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ بچوں کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے کے نام پر غیر ضروری حد تک بوجھ برداشت کر رہا ہے۔ ایک بنیادی مسئلہ یہ بھی ہے کہ تعلیم پروفیشنل انداز سے نہیں دی جارہی۔ کسی بھی نوجوان کو کس شعبے کے لیے تیار کرنا چاہیے اِس کی پروا کسی کو نہیں۔ بعض شعبوں میں محض اس لیے داخلہ لیا جاتا ہے کہ دنیا کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ اولاد فلاں شعبے میں پڑھ رہی ہے۔ بعض شعبوں میں اب معاشی امکانات محدود ہیں مگر پھر بھی تھوڑی بہت کشش باقی ہے۔ پاکستان کی نئی نسل کو تابناک مستقبل کے لیے تیار کرنا کوئی آپشن نہیں۔ یہ کام تو ہر حال میں کرنا ہے۔ اِس نسل ہی کو تو ملک سنبھالنا‘ چلانا ہے۔ ایسے میں لاپروائی کی گنجائش ہے نہ تساہل کی۔ پاکستان کے نظام کو راتوں رات تبدیل تو نہیں کیا جاسکتا مگر ہاں! نئی نسل میں یہ سوچ تو رفتہ رفتہ پروان چڑھائی جاسکتی ہے کہ وہ کسی بھی شعبے میں تعلیم و تربیت محض دل پشوری کے لیے نہیں بلکہ زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے حاصل کریں۔ نوجوانوں کو یہ بتانا لازم ہے کہ اُن کا عہدِ شباب محض تفنّنِ طبع کے اہتمام کے لیے نہیں بلکہ خود کو بہتر زندگی کے لیے تیار کرنے کی خاطر ہے۔ اس حوالے سے انہیں سنجیدہ ہونا ہی پڑے گا۔ آج کی دنیا میں محض تعلیم یا ڈگری کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔
بہت سے شعبوں میں اس بات کی کچھ بھی اہمیت نہیں کہ آپ نے کس ادارے سے کیا پڑھا ہے۔ آجر پوچھتا ہے: کام آتا ہے؟ اگر آتا ہے تو آؤ! ورنہ چلتے پھرتے نظر آؤ۔ یہ سوچ بہت سے شعبوں میں بہت پہلے سے تھی اور ہم اِس کے نتائج بھی دیکھ چکے ہیں۔ کھیلوں ہی کو لیجیے۔ کسی بیٹسمین کا اصل امتحان وکٹ یا پچ پر ہے۔ اگر اُس نے دنیا کی اعلیٰ ترین جامعہ سے بھی سند پائی ہو تو وکٹ پر بائولر کا سامنا کرتے ہوئے وہ سند کام نہ آئے گی۔ وکٹ پر اُس کی واحد قابلیت یہ ہے کہ وہ بائولر کا سامنا کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرسکتا تو پھر کچھ اور کرے۔ اِسی طور کوئی بھی پروڈیوسر اپنے ڈرامے یا فلم کے لیے کسی کو کاسٹ کرتے وقت یہ نہیں دیکھتا کہ اُس نے تعلیم کہاں پائی ہے، کہاں رہتا ہے، کس خاندان کا ہے۔ جو بھی کیمرے کے سامنے منظر کے تقاضوں کے مطابق اداکاری کرسکتا ہے بس وہی کامیاب ہے۔ گوگل کا فیصلہ دنیا کو حیرت انگیز محسوس ہو رہا ہے۔ جو روش گوگل نے اپنائی ہے اُس پر کئی شعبے پہلے ہی گامزن ہیں۔
عمل کی دنیا میں صلاحیت ہی سب کچھ ہے۔ جس میں صلاحیت ہوتی ہے وہ اُسے پروان بھی چڑھاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صلاحیت سبھی میں ہوتی ہے۔ سوال صرف اُسے پروان چڑھانے اور اُس میں چمک دمک پیدا کرنے کا ہے۔ یہی تو اصل مرحلہ ہے۔ صلاحیت کو پروان چڑھانا یعنی مہارت پیدا کرنا۔ یہ مرحلہ کم لوگ طے کر پاتے ہیں۔ ہمارے ہاں نئی نسل کی صلاحیتوں کو خزانے کا درجہ دے کر اُن سے مستفید ہونے کے بارے میں سنجیدگی سے کبھی سوچا ہی نہیں گیا۔ اب یہ کام جنگی بنیاد پر کرنا ہے۔ فی زمانہ وہی قوم کامیاب ہے جس نے اپنی نئی نسل کو بے راہ رَوی کی نذر ہونے سے روک کر کام پر لگایا ہے۔ یہ سب کچھ راتوں رات ہوگا نہ محض باتیں بنانے سے۔